منتخب کردہ کالم

بھارتی معاشرے کا اصل روپ … ابراہیم راجہ

تعصب انسانیت کو چاٹ جاتا ہے، اکثر اوقات انسانوں کو بھی۔ بھارتی متعصب معاشرے کے بے نقاب ہونے پر حیرت کیسی؟ ایسا معاشرہ جس کی بنیاد ہی اچھوت اور برہمن جیسے تعصبات پر ہو؟ ایسا تعصب جسے معاشرتی ناانصافی نہیں، زبردستی عقیدہ بنا دیا گیا ہو؟ کوئی قوم یا مذہب نہیں، سیاست اور مذہب کے سوداگر انسانیت کا استحصال کیا کرتے ہیں۔ ”شائننگ انڈیا‘‘ یعنی چمکتے بھارت کا اصلی عکس مودی کی آنکھوں میں لہراتا ہے، وہ انتہا پسند مودی جِس کے رنگ میں پورا ہندوستانی معاشرہ رنگا ہے۔
بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے خلاف ایک مہم برپا ہے، چند سو نہیں، چند ہزار نہیں، لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کی زبانیں انگارے برسا رہی ہیں۔ صرف انتہا پسند نہیں، صرف مذہبی جنونی نہیں، پڑھے لکھے، نام نہاد روشن خیال، دانشور، تجزیہ کار، اداکار اور ہدایت کار بھی، سب اپنی رگوں میں دوڑتا تعصب اگل رہے ہیں۔ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، خود ہندوستانی یہ راگ الاپا کرتے، اب اُلٹی گنگا کیوں بہنے لگی؟ پاکستانی فنکاروں کو کام دینا کوئی احسان تھا یا پیشہ ورانہ ضرورت؟ بھارت جیسی بڑی فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا پاکستانیوں نے منوایا۔ گزشتہ دس برس میں، ہندی فلموں کے پچاس مقبول ترین گانوں میں بیس راحت فتح علی خان نے گائے۔ ان گانوں نے کروڑوں روپے کا کاروبار کیا۔ چند فلمیں ایسی بھی ہیں جن کی کامیابی کی ضمانت ہی راحت فتح علی کے گیت بنے۔ انہیں بہترین گلوکار کے طور پر دو مرتبہ اسکرین ایوارڈ، ایک بار فلم فیئر ایوارڈ اور چار مرتبہ ”یوکے ایشین ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ دو ہزار بارہ میں انہیں عشرے کے بہترین گلوکار کا ایوارڈ دیا گیا۔ اسی برس راحت کے ایک گانے کو سب سے زیادہ ڈائون لوڈ کیے جانے پر برطانوی ایشین ایوارڈ ان کے نام ہوا۔ سونے کی چڑیا جیسے اس گلوکار کو بھارتی انڈسٹری میں کام دینا احسان ہے؟ عاطف اسلم ایک اور ایسے پاکستانی گلوکار ہیں جنہوں نے بھارت میں دھوم مچائی۔ رنبیر کپور کی بہن ردھما کپور کے مطابق عاطف کے دو گانوں نے ان کے بھائی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ گانے ”تیرا ہونے لگا ہوں‘‘ اور ”تو جانے نا‘‘ دو ہزار نو میں رنبیر کپور پر فلمائے گئے تھے۔ عاطف چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ اور تین مرتبہ آئیفا ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے۔ علی ظفر نے بالی ووڈ میں نہ صرف گلوکاری بلکہ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے، وہ بھی فلم فیئر، آئیفا اور اسکرین ایوارڈز کے لیے نامزد ہو چکے ہیں۔ پاکستانی اداکار فواد خان نے ہندی فلم ‘خوبصورت‘ میں اتنا خوبصورت کام کیا کہ فلم فیئر ایوارڈ کے مستحق ٹھہرے، انہیں فلم ”کپور اینڈ سنز‘‘ میں شاندار پرفارمنس پر انڈین فلم فیسٹول میں بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے علاوہ کئی دیگر پاکستانی فن کاروں نے بھی بھارتی انڈسٹری میں اپنے کمالات دکھائے۔ اب انہی کے خلاف محاذ گرم ہے۔ اور تو اور بھارت کے کئی نامور اداکار اور ہدایت کار بھی پاکستانی فنکاروں کے خلاف انتہا پسند جنونیوں کی زبان بول رہے ہیں۔ ایک سینئر اداکار اوم پوری نے امن کی بات کی تو ان کا جینا حرام کر دیا گیا۔
بظاہر ہندوستانی معاشرہ اجتماعی طور پر تنگ نظری کا شکار ہے۔ کھیلوں کے حوالے سے بھارتی شائقین کو دنیا بھر میں سب سے تنگ نظر قرار دیا جاتا ہے۔ 1996ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بدترین ہنگامہ آرائی کا تمغہ ہندوستانیوں کے ماتھے پر سجا۔ ایڈن گارڈنز میں جب سری لنکا کے ہاتھوں بھارت کی شکست یقینی ہو گئی تو تماشائیوں نے سٹیڈیم کو ہی آگ لگا ڈالی، میدان میں جلتی بوتلیں پھینکیں اور امپائرز نے میچ رکوا کر سری لنکا کو فاتح قرار دے دیا۔ 1999ء میں کلکتہ میں پاک بھارت ٹیسٹ کے دوران بھارتی تماشائیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں پر پتھرائو شروع کر دیا، میدان میں بوتلیں پھینکیں اور میچ تین گھنٹے تک رکا رہا۔ امپائرز نے وحشی تماشائیوں کی موجودگی میں میچ شروع کرانے سے انکار کر دیا اور بالآخر 65 ہزار تماشائیوں کو ڈنڈے کے زور پر سٹیڈیم سے باہر نکالنا پڑا۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا میچ ثابت ہوا۔ 2002ء میں جمشید پور میں بھی بھارتی تماشائیوں نے اپنا اصلی روپ دکھایا۔ عین اس وقت جب ویسٹ انڈیز بھارت کو ہرانے کے قریب تھا‘ میدان میں ”بوتل بم‘‘ پھینکے گئے، اشتہاری کمپنیوں کے بورڈز اکھاڑ دیے گئے، میدان میں پتھرائو ہوا اور کھلاڑیوں نے جان بچانے کے لیے دوڑیں لگا دیں، آخرکار امپائرز نے میچ ختم کروا کے ویسٹ انڈیز کو فاتح قرار دے دیا۔ زیادہ دور کی بات نہیں، گزشتہ سال اکتوبر میںکٹک میں جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی تنگ نظر ہندوستانی تماشائیوں کا نشانہ بنی۔ باراباتی سٹیڈیم میں بھارتی ٹیم کو ہارتا دیکھ کر جنونی تماشائی بپھر گئے۔ میدان میں بوتلیں اور پتھر پھینکے گئے۔ کھلاڑیوں اور امپائرز کو جان کے لالے پڑ گئے اور ٹی ٹونٹی میچ دو مرتبہ آدھا آدھا گھنٹہ روکنا پڑا۔ کرکٹ تجزیہ کاروں کے مطابق سب سے بداخلاق تماشائی بھارت کے ہی ہیں، مخالف ٹیم کا کھلاڑی جتنا بھی عمدہ کھیلے، جتنے بھی چوکے چھکے لگائے یا وکٹیں اڑائے، بھارتی تماشائی کبھی اسے داد نہیں دیتے، کبھی اس کے لیے تالی نہیں بجاتے، الٹا پورے سٹیڈیم پر سناٹا چھا جاتا ہے یا پتھرائو شروع ہو جاتا ہے۔ یہ کسی ایک بھارتی کے نہیں، دراصل معاشرے کے اجتماعی رویے کی عکاسی ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بھارتی معاشرے کو انتہا پسندوں نے فکری طور پر یرغمال بنا رکھا ہے، اگرچہ بہت سوں نے روشن خیالی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، بہت سوں نے چہروں پر جدت کی لیپا پوتی کر رکھی ہے لیکن اندر سے سنگ دل اور تنگ دل ہیں۔ وقت بدلنے پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے وہ ماہر ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو تعصب کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن ان کی سننے والے کم ہی ہیں۔ نامور اداکار عامر خان نے معاشرتی عدم برداشت پر تنقید کی تو پورے بھارت میںطوفان کھڑا کر دیا گیا، انہیں ملک بدر کرنے کی مہم چلا دی گئی اور وہ وضاحتیں دیتے رہ گئے۔ خود بھارتی دانشوروں کے مطابق نئی پڑھی لکھی نسل کے ذہنوں میں بھی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ عصبیت کا زہر گھولا جا رہا ہے۔ انتہا پسند اسی قسم کے معاشرے میں اپنی بقا ڈھونڈتے ہیں۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے پر بھی بین الاقوامی سیاسی تجزیہ کار حیران تھے۔ وہ نریندر مودی جو ثابت شدہ قاتل، ثابت شدہ انتہا پسند، ثابت شدہ متعصب جنونی اور مسلمانوں کی نسل کشی کے ثابت شدہ مجرم تھے، انہیں سیکڑوں ہزاروں نہیں، کروڑوں بھارتیوں نے ووٹ دیے، سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے۔ اب آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں الیکشن سر پر ہیں، ایک ممتاز امریکی جریدے کے مطابق مودی سرکار ان انتخابات تک پاکستان مخالف جذبات بھڑکاتی رہے گی۔
پاکستانی معاشرہ فکری طور پر انتہا پسندی سے کم، مٹھی بھر انتہا پسندوں کے تشدد سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ بھارت کے برعکس‘ جہاں نریندر مودی، بدنام زمانہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی جیسے انتہا پسند قومی سیاست پر بھی چھائے رہے، پاکستان میں شدت پسند کبھی سیاست میں نمایاں مقام حاصل نہ کر سکے۔ پاکستانیوں نے نسبتاً زیادہ پیچیدہ حالات کا سامنا کیا لیکن معاشرے کا کوئی بڑا حصہ ذہنی طور پر تنگ نظری اور انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوا۔ بجا کہ عصبیت کے سوداگر یہاں بھی بہت ہیں، ان کا سودا خریدنے والے اگرچہ نسبتا کم ہیں۔ تعصب عقلیں چاٹ جاتا ہے، تعصب زدہ ذہنوں میں عقل کی کوئی بات اسی لیے نہیں آتی۔