یہ بحث بہت کم ہوئی ہے‘ لیکن ہے بہت ضروری۔ یہی کہ بھارت کی موجودہ ریاست پارٹیشن آف انڈیا ایکٹ کے تحت ایک جائز ملک ہے‘ یا پھر بھارت قبضے کی زمینوں پر بننے والا بدمعاش ملک (Rogue Country) ہے۔
یہ سوال بظاہر جتنا پیچیدہ نظر آ رہا ہے اس کا جواب اتنا ہی سادہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں کی تقسیم کے لیے کمیشن بنا‘ جس کا سربراہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نامی برطانوی نواب تھا۔ تقسیم ہند کے نقشے اور دیگر کاغذات برطانیہ کے سر کاری آرکائیو کا مستقل حصہ ہیں۔ اس ریکارڈ کے مطابق تقسیمِ ہند کے وقت 1947ء میں متحدہ ہندوستان میں 565 ریاستیں تھیں۔ آزاد اور خود مختار ریاستیں‘ جنہیں تقسیم ہند سے پہلے بطور آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کیا جا چکا تھا۔ اس لیے انہیں پرنسلی سٹیٹس کا درجہ دیا گیا‘ یعنی شاہی ممالک۔ بھارتی ریاست کی بدمعاشی کا آغاز 17 اگست 1947ء کو ہوا‘ یعنی ہندوؤں کی بھارت ماتا کی آزادی کے محض 48 گھنٹوں کے اندر اندر۔ آپریشن پولو کے نام پر فوجی کاروائی کا منصوبہ بنا اور اس ملٹری آپریشن کے ذریعے بھارت نے حیدر آباد کی آزاد مسلم ریاست پر قبضہ کر لیا۔
اسی سال بھارت نے ایک وسیع البنیاد بھرپور منصوبہ بنایا جس کے تحت متحدہ ہندوستان کے طو ل و عرض میں پھیلی ہوئی آزاد ریاستوں پر فوج کشی کے ذریعے قبضہ شروع ہو گیا۔ اڑیسہ کی ریاست بھی خود مختار رہنا چاہتی تھی۔ دہلی سرکار نے اس ریاست کے راجاؤں پر پہلے دن سے مسلسل دباؤ رکھا کہ وہ بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیں۔ جب یہ دباؤ ناکام ہو گیا تو دسمبر 1947ء میں ان راجاؤں کو دہلی کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ دہلی پہنچتے ہی راجے گرفتار ہوئے اور بھارت نے اڑیسہ پر فوج کشی کرکے قبضہ جما لیا۔
پپلوڈا ایک اور خو شحال آزاد ریاست کا نام تھا‘ جس نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد اپنی خود مختار حیثیت برقرار رکھنے کا اعلان کیا‘ مگر بھارت نے اس پر مسلسل حملے جاری رکھے۔ 15جون 1948ء کی ایک سیاہ رات کو بھارتی فوج نے ریاست پپلوڈا پر دھاوا بولا اور اسے فوجی آپریشن کے ذریعے مدھیہ پردیش کا حصہ بنا ڈالا۔
جیسل میر کی ریاست انگریزی میں Golden City اور اردو میں سونے کی چڑیا کہلاتی تھی۔ جودھ پور کی ریاست مغلِ اعظم جلال الدین اکبر کی رانی بائی جودھا بائی کے آبائی علاقے پر مشتمل تھی۔ جیسل میر اور جودھ پور ریاست کے راجاؤں نے تقسیمِ ہند کے ساتھ ہی بانیء پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ سے براہ راست رابطہ کیا اور پاکستان کے ساتھ ان ریاستوں کے الحاق کے لیے چند شرائط رکھیں۔ قائد اعظمؒ نے ان شرائط کو نہ صرف قبول کیا بلکہ یہ آ فر بھی کی کہ اگر آپ مزید کوئی شرط رکھیں تو ہم وہ بھی قبول کر لیں گے‘ مگر ہندوستان کے آخری بے ایمان وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی مدد سے1948ء میں بھارت نے جیسل میر اور جودھ پور کے حاکم دھوکہ دہی سے گرفتار کر لیے۔ پھر فوج کشی کے ذریعے ان دونوں ریاستوں پر مشتمل موجودہ راجستھان سٹیٹ بنا ڈالی۔
شمالی بھارت میں تراونکور ایک اور بڑی طاقتور مملکت سمجھی جاتی تھی‘ کیونکہ موجودہ بھارت کے تمام پُرفضا مقامات اسی میں واقع تھے‘ جن میں کیرالہ، کنیا کماری اور تامل ناڈو کے نظارے اپنی خوبصورتی کے حوالے سے عالمی اپیل رکھتے ہیں۔ 15 اگست 1947ء کو تراونکور کے بادشاہ سر سی پی او راما سوامے لیر نے اعلان کیا کہ وہ تراونکور کو خود مختار ملک کے طور پر ہی چلائیں گے۔ یہ واضح کر دیا کہ بھارت میں ہرگز شامل نہ ہوں گے۔ دو سال تک یہ ریاست خود مختار رہی۔ پھر اکتوبر 1949ء میں بھارتی فوج کے کئی بر یگیڈ تراونکور میں داخل ہو گئے‘ اور اس ریاست کے حصے بخرے کر دیے گئے۔
اگست1947ء میں جموں و کشمیر کی ریاست مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ جموں و کشمیر میں 77 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے۔ 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوج اتار دی‘ جس نے کشمیر کی سالمیت کو سلب کر لیا‘ اور اس طرح آزاد کشمیریوں کو غلام بنا لیا گیا۔ بھارت کے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف آج کشمیریوں کی تیسری نسل بھارت کے 7 لاکھ فوجیوں کا مقابلہ غلیل، پتھر اور جذبہء شہادت کی طاقت سے کر رہی ہے۔
جونا گڑھ کی ریاست سال 1748ء کو وجود میں آئی۔ 65 سال بعد 1807ء میں اس ریاست کو برطانوی راج کے زیرِ حمایت خود مختار ملک تسلیم کر لیا گیا۔ بعد ازاں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے جونا گڑھ کا کنٹرول سنبھالا تو اس ریاست کے وسائل اور جغرافیائی سائز کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسے 100 سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا‘ جنہیں آپ آج کی زبان میں صوبے بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ریا ست جونا گڑھ اپنی جگہ قائم رہی۔ عین بھارت کی ولادت والے دن یعنی 15 اگست 1947ء کو ریاست جونا گڑھ کے نواب محمد مہابت خان سوئم نے پاکستان کے ساتھ ریاست جونا گڑھ کے الحاق کا اعلان کر دیا۔ دو ریاستوں کے اس الحاق کی کاغذی کارروائی اور دیگر انتظامی امور فائنل کرنے کے بعد 15 ستمبر1947ء کو حکومتِ پاکستان نے جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی منظوری دے دی۔ اگرچہ ریاست جونا گڑھ کا خشکی کے ذریعے کوئی راستہ پاکستان سے نہیں جڑتا‘ لیکن سمندر کے راستے جونا گڑھ کی سرحد کراچی سے صرف 480کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ یعنی اسلام آباد سے تقریباً لاہور جتنا فاصلہ۔ جونا گڑھ کے ساتھ دو اور ریاستیں بھی ملحق تھیں۔ پہلی ریاست منگروال اور دوسری مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کی آباد کردہ ریاست بابری آباد۔ 9 نومبر 1947ء کے دن بھارت کی مسلح افواج نے ریاست جونا گڑھ پر حملہ شروع کیا‘ اور بدترین بربادی کے بعد جونا گڑھ پر بھارتی فوج کا قبضہ مکمل ہو گیا۔ جونا گڑھ کے والی اپنی مقبوضہ ریاست کو بھارت کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے 70 سال بعد بھی مختلف فورمز پر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ اور اب بھی مقبوضہ ریاست کو پاکستان میں شامل کرنے کی قوی امید رکھتے ہیں۔
بھوپال، حیدر آباد کے بعد دوسری بڑی مسلم ریاست تھی۔ اس پر قبضے کی باری یکم جون 1949ء کو آئی۔ بھوپال کی زبان اور کلچر بڑا نستعلیق اور نازُکی کا مظہر ہے۔ اسے بھی بھارت نے فوج کے ذریعے فتح کر لیا۔
تلنگانہ بھی بھارت کی مقبوضہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔ 1947ء سے پہلے ریاست تلنگانہ حیدر آباد ریاست سے الحاق شدہ تھی۔ موجودہ عشرے کے دوران 30 جولائی 2013ء کو تلنگانہ میں آزادی کی لہر نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ اس روز تلنگانہ کے عوام کو علیحدہ ریاست دینے کا اعلان کیا گیا‘ اور یکم مارچ 2014ء کو بھارت کی مقبوضہ ریاست کے طور پر ہی سہی‘ مگر اسے کسی حد تک خود مختاری ملی۔ چندر شیکھر راؤ اس کے پہلے اور موجودہ وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کی بیٹی کلواکنتلہ کویتا اس وقت ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ حال ہی میں ان کے بیان نے پورے بھارت میں بھونچال برپا کرکے رکھ دیا۔ کنتلہ کویتا کا بیان یہ تھا ”حیدر آباد، تلنگانہ اور جموں و کشمیر کی ریاست کو زبردستی بھارت میں ضم کیا گیا ہے‘‘۔ تلنگانہ کی لوکل کورٹ میں اس بہادر بیٹی کے خلاف اگست 2014ء میں بغاوت کا مقدمہ درج ہو گیا۔ بغاوت کا مقدمہ بننے کے بعد کویتا نے اپنے ری ایکشن میں یہاں تک کہہ دیا کہ جموں و کشمیر کے بہت سے علاقے پاکستان کا حصہ ہیں۔ ساتھ واشگاف الفاظ میں یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ ان ریاستوں کے عوام کو حقِ خود ارادیت دینا چاہیے کہ وہ کیسے جینا چاہتے ہیں۔
بدمعاش بھارتی ریاست کی بدمعاشی کی داستان اس سے بھی دراز ہے۔ وسطی صوبے بہار‘ اور گجرات کی 66 ریاستوں کو جبکہ دکن کی ریاست کو یکم جنوری 1948ء یعنی تقسیمِ ہند کے اگلے سال زبردستی فوجی قبضہ کرکے بھارت میں شامل کر لیا گیا۔ بھارت کی توسیع پسندی کا شکار ”سِکم‘‘ کا آزاد ملک بھی ہوا۔ 10 اپریل 1975ء کے دن عالمی طور پر تسلیم شدہ خود مختار ملک سکم پر فوجی کارروائی کے ذریعے بھارت نے قبضہ کر لیا۔ بھارت کے حکمرانوں نے سکم پر قبضے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ جس طرح انہوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے ڈھاکہ پر قبضہ کیا‘ پھر اس قبضے کو تسلیم بھی کر لیا۔ بالکل ویسا ہی ماڈل سامنے رکھتے ہوئے سکم پر قبضہ کرتے وقت بھارت نے کہا کہ سکم ہمارے لیے سٹریٹیجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔
آج بھارت، پاکستان کو بدمعاش ملک کہتے نہیں تھکتا۔ میں بھارت کی بدمعاشی کی داستان کے چند ثبوت صرف قوم کے سامنے نہیں بلکہ وزارتِ خارجہ کے لیے بھی سامنے لایا ہوں۔ 66 ریاستوں کا ذکر ابھی کرنا ہے‘ جو بھارت کے لیے آتش فشاں بن چکی ہیں