بھارت میں بڑھتا ہوا جنسی تشدد…نذیر ناجی
بھارتی معاشرہ زندگی کے ہر شعبے میں بد سے بدتر ہو رہا ہے۔وہاں اخلاقی‘ تہذیبی اور جنسی اعتبار سے انسانی زندگی ‘پست سے پست تر ہوتی جا رہی ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی اخلاقی صورت حال زیادہ اچھی نہیں‘ لیکن اسلام کی بہتر اقدار کے پیش نظر ہمیں ہندو تہذیب اور اقدارکے مقابلے میں بہتر معیار کی توقع رکھنا چاہئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کے پی کے میں جو تازہ واقعات سامنے آئے ہیں‘انہیں دیکھ کرکسی بھی طور‘ مسلمان معاشرے کے بہترمعیار کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بلوم برگ میگزین کی بھارت کے بارے میںتازہ ترین رپورٹ دیکھ کر بہتری کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
”نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی مارکیٹنگ ایگزیکٹو ‘کھیتی ملہوترا دو چیزوں کے بغیر اپنے گھر سے قدم باہر نکالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اپنی سٹن گن (stun gun) یہ ایک ایسی پستول ہے‘ جس کا بٹن دبانے پر‘ سامنے موجود شخص کو زور کا برقی جھٹکا لگتا ہے اور وہ وقتی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور کالی مرچوں کا سپرے۔ خود حفاظتی کے یہ اقدامات ایک ایسے ملک میں کرنا پڑتے ہیں‘ جہاں پچھلی ایک دہائی میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی شرح میں 80 فیصد اضافہ ہوچکا ہے‘ جبکہ جنسی تشدد کے ہلاکت خیز واقعات کی وجہ سے شہر اور دیہات اکثر فسادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ مس ملہوترا کو اپنی آمدنی کا ایک حصہ‘ کار رکھنے اور ڈرائیور کو تنخواہ دینے پر صرف کرنا پڑتا ہے‘ بھارت میں کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ر ہا ۔ گاڑیوں میں خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں‘ انہیں چھوا جاتا ہے اور ان پر حملے کئے جاتے ہیں۔
ودیا لکشمن بنگلور میں رہتی ہیں۔ بھارت میں کام کرنے والی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایگزیکٹو ہیں۔ وہ گھریلو کام کاج کرنے والی ایک پوری فوج کو تنخواہ دیتی ہیں اور سکیورٹی کیمرے بھی لگا رکھے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکے۔ دہلی کی سنجنا نائر کا کہنا ہے کہ اسے محض اس لئے بینک کی نوکری چھوڑنا پڑی کہ اسے اپنی بیٹی کے لئے محفوظ چائلڈ کیئر نہیں مل سکی ۔ نوکری چھوڑنے سے اسے دو لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں جموں میں ایک آٹھ سالہ لڑکی پر بہیمانہ تشدد کے بعداسے زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ گجرات کی ایک گیارہ سالہ لڑکی کا ریپ کیا گیا اور اتر پردیش میں ایک سولہ سالہ لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سارے واقعات کھلی تصویر پیش کر رہے ہیں کہ بھارت میں خواتین اور بچوں کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے؟ بھارت کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسے جرائم کے سدباب کے لئے زیادہ سخت قانون بنانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس معاملے کو سامنے رکھ کر بہت سی خواتین کے انٹرویوز کئے گئے‘ جن سے واضح ہوا کہ اس صورت حال کے معاشرے پر کچھ معاشی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔اپنے بچوں کے تحفظ کے بارے میں فکر مند بہت سی خواتین نوکریاں چھوڑ رہی ہیں یا پھر کم تنخواہوں والی ملازمتیں کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے بھارت میں صورتحال کس قدر گمبھیر ہو چکی ہے؟اس کا اندازہ ورلڈ بینک کی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں 2004کے بعد ‘آٹھ برسوں میں بیس ملین یعنی دو کروڑ خواتین نوکریاں چھوڑ چکی ہیں۔ یہ تعداد نیو یارک‘ پیرس اور لندن کی مجموعی آبادی کے برابر ہے۔
ایسی ہی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے شاندار کارپوریٹ کیریئر کو ختم کرنے والی اِندو بھنڈاری نے اپنی اس ٹریجڈی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ” کوئی ایسی جگہ نہیں ہے‘ جہاں میں اپنے بچوں کے تحفظ کے بارے میں فکر مند ہوئے بغیر انہیں چھوڑ سکوں۔ بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کی وجہ سے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں اپنے بچوں کو کن خطرات کی زد میں چھوڑ کے جا رہی ہوں‘‘؟ اس طرح کے فیصلے بھارت میں کام کرنے والی ان غیر ملکی اور ملکی کمپنیوں کے لئے بے حد خطرناک ہیں‘ جو ایشیا کی اس تیسری بڑی معیشت میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے فیصلوں کا بھارتی حکومت کو بھی نقصان ہو رہا ہے‘ جوزیادہ سے زیاددہ غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت ایک مثال بنتا جا رہا ہے کہ کس طرح خواتین پر جنسی تشدد‘ کمیونٹیز اور ایک پوری قوم کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
میکنزی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا تجزیہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو کام دلا کر اور مساوات پیدا کرکے بھارت 2025ء تک اپنے جی ڈی پی کو 770بلین ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت کی صرف 27فیصد خواتین نوکریاں کر رہی ہیں۔ ممبئی میں قائم فلپ کیپیٹل میں اکانومسٹ کے طور پر کام کرنے والی‘ انجلی ورما کا اس بارے میں کہنا ہے ”اگر بھارت میں محفوظ ماحول بنا لیا جائے جس میں خواتین آزادی سے کام کر سکیں تو یقینی طور پر زیادہ خواتین باہر نکلیں گی اور مختلف اداروں میں کام کریں گی۔ اس طرح ورک فورس میں اضافہ اور ایک دہائی کے اندر اندر ملک کی معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو جائے گا‘‘۔ برائون یونیورسٹی میں اکنامکس کے طالب علم‘ گرجی بورکر نے نئی دہلی یونیورسٹی میں 4000خواتین کا ایک سروے کیا تو معلوم ہوا کہ خواتین طلبا ایک محفوظ اور آسان سفر کے لئے مردوں کی نسبت 300ڈالر ز زیادہ دینے کو بھی تیار ہیں‘ کیونکہ انہیں سفر کے دوران کسی نہ کسی مرحلے پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بورکر نے اس حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں شہری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ چنانچہ خواتین کے تحفظ کے لئے بہتر پالیسیوں کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔
بھارت میں لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں تین کروڑ ستر لاکھ زیادہ ہے۔ بھارت کی دو تہائی آبادی دیہات میں رہتی ہے‘ جہاں لوگوں کو جاگیردارانہ طرز عمل‘ ذات پات پر مبنی نظام اور جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے تو ان کی ایک بڑی تعداد روایتی طور پر شکایت بھی درج نہیں کراتی اور اس طرح جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والا سزا سے بچ جاتا ہے۔ بھارت کے سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2007ء سے 2016ء تک کے درمیانی عرصے میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح میں 83فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی ہر ایک گھنٹے میں خواتین کے خلاف 39جرائم ہوتے ہیں۔ عوام کے دبائو نے بھارتی قانون سازوں کو مجبور کیا کہ وہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کیلئے سزائے موت کا قانون بنائیں۔ اور اب وہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے مجرم کیلئے بھی ایسی سزا کے ایشو کو زیر بحث لا رہے ہیں‘‘۔