بھارت…پاکستان دشمن حکومت….ڈاکٹر عبد القادر حسن
ان دنوں پڑو سی ملک بھارت میں نئے انتخابات کے بعد حکومت تشکیل پانے جا رہی ہے، ایک بار پھر نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر چکی ہے اور حکومت کی ایک مقررہ مدت کے لیے بھارت کی حکمران جماعت ہو گی۔ اس سے پہلے بھی بی جے پی اقتدار میں تھی اور یہ اقتدار اس کو پاکستان اور مسلمان دشمنی کے نتیجے میں ملا تھا۔
بھارتی صوبے گجرات میں اپنی حکومت کے دور ان بی جے پی نے بھارتی مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے تھے ان کو دیکھتے ہوئے بھارتی ہندوئوں نے مرکزی حکومت بھی ان کے حوالے کر دی تھی۔ شائد بھارتی ہندو یہ سمجھتے تھے کہ کانگریس ان کی نمائندگی اس طرح نہیں کر پا رہی جس طرح مسلمان مخالف بی جے پی نے کر کے دکھائی تھی ۔ بھارت کا ہر انتخاب پاکستان مخالف نعرے پر لڑا جاتا ہے اور جو سیاسی لیڈر ہندوئوں کو اپنی پاکستان مخالف بات اچھی طرح سمجھا لیتا ہے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور حکمران بن جاتا ہے۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے ، ہندو قوم کا ایک مزاج ہے جس میں دھیما پن بہت نمایاں ہے اور نمائش بہت کم ہے ۔ بھارت کے باپو اور چاچا یعنی گاندھی اور نہرو نے اس ملک میں جمہوریت کی بنیادیں مستحکم کر دی ہیں، اگرچہ وہ ملک میں سیکولر ازم کو مضبوط نہ بنا سکے اور بی جے پی جیسی جماعتیں پیدا ہو گئیں لیکن جمہوری اصولوں کو بڑی حد تک راسخ کر دیا۔ بھارت کے ایک سابق وزیر اعظم اور دانشور آئی کے گجرال کا کہنا تھا کہ بھارت میں آئین اور جمہوریت کا احترام اتنا پختہ ہو چکا ہے اور ایک ووٹ بھی کم پڑ جائے تو وزیر اعظم خاموشی کے ساتھ استعفیٰ دے دیتا ہے اور کوئی ہنگامہ برپا نہیں کرتا۔ چنانچہ بھارت میں صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت قائم رہ سکتی ہے اور ایک ووٹ کی کمی سے گر سکتی ہے۔ یہ جمہوریت کی پہلی نشانی ہے ۔ بھارت کو آبادی اور رقبہ کے علاوہ اس سیاسی کلچر کی بنیاد پر بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ زیب دیتا ہے ۔
اس کے برعکس اس خطے کے ملک پاکستان میں مضبوط جمہوریت قائم نہیں ہو سکی ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک شروع میں ہی دو ٹکڑے ہو گیا ۔مشرقی اور مغربی حصے کو صحیح جمہوریت ہی اکٹھا رکھ سکتی تھی ۔ اس ملک کی نصف سے زائد عمر مارشل لائوں کی نذر ہو گئی اور جب کبھی جمہوریت قائم ہو ئی تو اس میں جمہوری روح کا فقدان رہا۔ وزیراعظم کو منتخب آمر اور فوجی طاقتوں کا نمایندہ کہا جاتا ہے ۔بانی پاکستان اور مسلم اُمہ کے عظیم المرتبت لیڈر محمد علی جناح اپنی اس عزیز ترین متاع کو اپنی جماعت کے کھوٹے سکوں کے سپرد کرنے پر مجبور ہو گئے ان کی عمر نے ان سے اور قسمت نے ہم پاکستانیوں سے وفا نہ کی۔
قائد اعظم اللہ جانتا ہے کیا جذبات دل میں لے کر رخصت ہو گئے، ان کی قوم آج تک رو رہی ہے۔ اپنے لیڈروں کو رو رہی ہے اور اپنے بہترین حالات اور وسائل کے غلط استعمال کو رو رہی ہے اور کسی حقیقی نجات دہندہ کے انتظار میں قیامت سے گزر رہی ہے ۔ بھارت میں اگرچہ اب کوئی بڑی شخصیت باقی نہیں رہی سوائے ان محدودے چند دانشوروں کے جو ابھی بھی ہمسائیہ ملک پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں مگر ان کی آو از نقارخانے میں طوطی والی ہے کیونکہ بھارت میں اس وقت متعصب ہندوئوں کا راج ہے جن کا پہلا مقصد ہی مسلمان اور پاکستان مخالف ہونا ہے لیکن دنیا کے سامنے ان کی اس کمزوری اور متعصب پن پر ان کے مضبوط نظام حکومت نے پردہ ڈال رکھا ہے ۔ سسٹم کی طاقت نے ان کو بڑا بنا رکھا ہے اور ہندو کی ذہانت اور متانت نے دنیا میں اس کا نام بلند کر رکھا ہے۔
جس طرح ہندو قوم جمہوریت پر متفق ہے اسی طرح وہ مسلم دشمنی پر بھی متفق ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ بھارت میں نئی حکومت کس کی ہو گی لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ بھارت میں جو بھی حکومت بنائے گا وہ پاکستان اور مسلمان کا دشمن ہو گا اس لیے میرے لیے یہ بات بالکل بے معنی ہے کہ وہاں بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آرہی ہے یا کانگریس اپنی شکست پر آنسو بہا رہی ہے ۔ میرے لیے سب برابر ہیں ۔ کل کانگریس کی حکومت اور نہرو کی بیٹی نے میرا ملک توڑنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور ہم سے بدلے لیے ۔اگر ہم جوابی دھماکہ نہ کرتے تو ہمارا جو حشر ہونا تھا اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں مذہب کے نام پر سرحدیں کھولنا اور یہ بسوں کے سفر بھارت کی تاریخی منافقت کے سفر ہیں ۔
بار بار عرض کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے معاملات دو ملکوں کے معاملات نہیں ہیں، یہ دو قوموں کے معاملات ہیں، ہندو اور مسلم قوم کے معاملات اور یہ دونوں قومیں پیدائشی دشمن قومیں ہیں ۔ اس کی شہادت قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاست نے دی تھی اور پاکستان کا قیام اس کی سب سے بڑی گواہی ہے ۔ تقسیم کے موقع پر فسادات اس کی گواہی ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی المناکیاں اس کی کہانی کو دہراتی رہیں گی۔ اس لیے ہندوستان میں کسی کی بھی حکومت بنے وہ ایک پاکستان دشمن حکومت ہو گی ۔ اتنی بڑی اور پکی دشمن کہ کھیل کے غیر سیاسی میدان میں بھی دشمنی سے باز نہیں آئے گی ۔
ہمارے جو نادان پاکستانی بھارت کے ساتھ دوستی کا پیغام لے کر بھارت جاتے ہیں یا دوست بن کر انھیں دعوت دیتے ہیں وہ یا تو احمق ہیں یا پھر کچھ اور ہیں ۔ میں انھیں عقلمند اور مخلص پاکستانی تسلیم نہیں کرتا۔ بہت زیادہ رعائت کی جائے تو انھیں سادہ لوح پاکستانی کہا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہمارے وزیراعظم اپنے بھارتی ہم منصب مودودی کو ان کی جماعت کی الیکشن میں کامیابی پر مبارکباد دے رہے ہیں۔ سیاست اور ہمسائیگی اپنی جگہ لیکن ایک بات ذہن میں رہے کہ بھارت کا ہندو مسلمانوں اور پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔