یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب اور اس سے قبل کُل جماعتی میٹنگ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت، بلتستان کا ذکر کیا چھیڑا۔ یہاں ہر ادارہ چاپلوسی کی حدیں پار کرکے ان علاقوں کے بارے میں حکومت کو کوئی نہ کوئی تجویزپیش کر رہا ہے، مگر یہ تجاویز یا حکومت کے اپنے اعلانات کس حد تک بلا تحقیق، زمینی حقائق سے دور اور سطحی ہیں، اس کا اندازہ ان دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہرہفتہ اور بدھ کو دہلی میں بھارتی کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے جس میں انتظامی اور اقتصادی امور کے حوالے سے اہم ٖفیصلے کئے جاتے ہیں۔ پچھلی بدھ کو وزیر اعظم کی موجودگی میں کئی وزرا کے درمیان خاصی تلخ کلامی ہوئی۔ کئی وزرا خصوصاً وزیر زراعت رادھا موھن سنگھ اور وزیر برائے بہبودیٔ خواتین کی شکایت تھی کہ کئی دیگر وزیروںکی طرف سے کابینہ کو تجاویز بھیجنے سے پہلے ان سے مشورہ نہیں کیا جا تا؛ حالانکہ ان تجاویزکا ان کی وزارت اور شعبوں سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ منیکا گاندھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزارت صحت نے رحم مادرکوکرایہ پر دینے کا جو بل کابینہ سے منظورکرایا ہے اس کی کئی شقیں ان کی وزارت کے ذریعے گود لینے کے لئے لائے گئے قانون سے متصادم ہیں۔ وزیر زراعت ناراض تھے کہ کامرس کی وزارت اور وزارت خوراک کا فوڈ پروسسنگ میں سوفیصد براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا نوٹ ان سے صلاح مشورے کے بغیر بنایا گیا ہے، اس فیصلے کا اثر براہ راست ملک بھر کے کسانوں پر پڑے گا۔ چونکہ میڈیا کو اس ناچاقی کی بھنک پڑ چکی تھی اس لئے بتایا گیا کہ کابینہ کے فیصلوں کی جانکاری اس بار باقاعدہ پریس کانفرنس کے بجائے آف دی ریکارڈ ہوگی۔ ایک سینیٔر وزیر نے کابینہ کے فیصلوں کی تفصیلات اور جانکاری دینے کے لئے صحافیوںکو صرف قلم اورکاغذ لے کر اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی۔ مختلف فیصلوں کے بار ے میں بتانے کے بعد وزیر موصوف نے اعلان کیا کہ کابینہ نے آل انڈیا ریڈیوکو بلوچی زبان میں خبروں، حالات حاضرہ اور دیگر امور پر پروگرام نشر کرنے کے
احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے وہیں سے اپنے نیوز بیورو میں انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کی بیٹ کورکرنے والی ساتھی کو مسیج کرکے کہا کہ یہ ایک بڑا فیصلہ ہے، اس لئے اس کو صفحہ اول کے لائق بنانے کے لئے مزید معلومات جمع کریں کیونکہ اگر کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے تو اس کا نوٹ ضرور وزارت اطلاعات سے آیا ہوگا۔ مگر جلد ہی اس کا جواب آیا کہ آل انڈیا کی خارجی سروس تو بلوچی زبان کا پروگرام دیگر 15 زبانوں سمیت پچھلے 40 برسوں سے نشر کر رہا ہے۔ میں دوبارہ وزیر موصوف کے کمرے میں گیا اور پوچھا کہ آخرکیا کوئی نوٹ وزارت اطلاعات سے آیا تھا؟ توانہوں نے کہا کوئی نوٹ نہیں آیا تھا۔ میٹنگ کے دوران ایک وزیر نے یہ تجویز دی اور وزیر اعظم نے اس کی تائید کی اور فوراً فیصلہ ہو گیا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ اس طرح کی سروس تو پہلے سے ہی موجود ہے تو وہ سٹپٹا گئے۔ جلد ہی کئی فون کرکے انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی مگر تب تک کئی نیوزایجنسیاں اور ویب سائٹس اس کو فلیش کر چکی تھیں۔ جاتے جاتے انہوں نے صرف یہ کہا کہ اس خبرکو اب زیادہ پلے اپ نہ کیا جائے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ شکر ہے پریس کانفرنس میں کیمروں کے سامنے اس کا اعلان نہیں کیا۔ اس فیصلے کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو، آل انڈیا ریڈیو کی شارٹ ویو پر ٹکی خارجی سروس جو دم توڑ رہی تھی کو اب دوبارہ زندگی مل گئی ہے۔ دنیا بھر میں چاہے وائس آف امریکہ ہو یا جرمن ریڈیو سبھی نے اب شارٹ ویو سروسز بند کر دی ہیں۔ ایک تو ایف ایم کے مقابلے میں شارٹ ویوکی نشریات ویسے ہی خراب ہوتی ہیں، دوسرے اس کے ٹرانسمیٹر چلانے میں بھی خاصا خرچہ آتا ہے۔
اسی طرح وزارت خارجہ کے ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ اگلے سال جنوری میں بنگلور میں بیرون ملک مقیم بھارتیوں کا جو کنونشن منعقد ہونے جا رہا ہے اس میں اس بار گلگت، بلتستان سے تعلق رکھنے والے بیرون ملک مقیم افراد بھی حصہ لیں گے تاکہ پاکستان کو پتا چلے کہ دہلی میں اب مودی حکومت ہے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی ہے۔ پاکستان، حریت رہنمائوںکو مدعو کرکے جس طرح اب تک بھارت کو چڑاتا آیا ہے اس کا جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ غیر مقیم بھارتیوںکا یہ کنونشن 2003ء میں اٹل بہاری واجپائی نے شروع کیا تھا اور بعد میں من موہن سنگھ حکومت نے اس کو جاری رکھا۔ صرف مودی نے ہی آتے ہی اس کو زیاں سمجھ کر بند کروا دیا تھا۔ مگر اب دو سال کے بعد یہ دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔ چونکہ ایک دہائی تک دہلی میں جموں کشمیر کے انگریزی اخبار کشمیر ٹائمزکے بیورو سے وابستہ رہنے کی وجہ سے مجھے کشمیر اور بھارت، پاکستان تعلقات کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ کوکورکرنا پڑتا تھا اس لئے میں نے مسلسل یہ کنونشن بھی کورکئے ہیں اورکئی بار اس موقع پر واشنگٹن میں مقیم گلگت کے حوالے سے سرگرم قوم پرست سنگی حسنین سیرنگ سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور شخص بلوارستان نیشنل فرنٹ کے عبدالحمید خان بھی کئی بار نظر آ چکے ہیں۔ جب میں نے یہاں سوال کیا کہ اس بار نیا کیا ہوگا کیونکہ یہ اشخاص اس سے قبل بھی ان پروگراموں میں حصہ لے چکے ہیں تو اعلان کرنے والے بغلیں جھانکنے لگے۔ ساتھ بیٹھے ایک صحافی ساتھی نے لقمہ دیا کہ اس بار فرق صرف اتنا ہوگا کہ یہ حضرات پورے ڈھول باجے کے ساتھ شرکت کرنے کے لئے آئیں گے۔ دراصل بھارت میں اس وقت زمام کار ایڈونچر پسند افراد کے پاس ہے جو مقصد اور نتائج کی پروا کئے بغیر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے حرف آخر کے طور پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے جذبات توبالکل عیاں ہیں۔ اپنے کیریرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے ان کا ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا ہے۔
بھارت کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب A Feast of Vultures میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹیلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت دوول بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ دوول ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک آپریشن پرکام کر رہے تھے جس کا مقصد 1993ء کے ممبئی دھماکوں میں ملوث گینگسٹر دائود ابراہیم کو ٹھکانے لگانا تھا۔ 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ امرتسر کے گولڈن ٹمپل میں ملٹری آپریشن سے قبل دوول نے انتہائی جرأٔت اور مہم جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عبادت گاہ میں موجود سکھ انتہا پسندوں کے ٹھکانوں اور ان کی ملٹری استعداد کی بھر پور معلومات حاصل کی تھیں جس کے لئے ان کو اعلیٰ ایوارڈ کیرتی چکر سے نوازا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے یونٹ نے ایک وائر لیس مسیج کو ڈی کوڈ کر دیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کوئی افسر گولڈن ٹمپل میں انتہا پسندوں کی فوجی تنصیبات کا جائزہ لینے اور قلعہ بندی کرنے کا مشورہ دینے ا ٓرہا ہے۔چونکہ یہ تقریباً طے تھا کہ بھارتی فوج اب کسی بھی وقت عبادت گاہ کے کمپلیکس پر چڑھائی کرنے والی ہے، دوول نے آئی ایس آئی کا ہی افسر بن کر عبادت گاہ تک رسائی حاصل کرکے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ریٹائرڈ میجر جنرل شہبیگ سنگھ سے اکال تخت میں ملاقات کرکے فوجی تیاریوں اور قلعہ بندیوںکا بھر پور جائزہ لے کر اور اس کا خاکہ ذہن میں بنا کر باہر آگیا۔ ان کی اس مہم جوئی سے فوج کے لئے گولڈن ٹمپل پر حملہ کرنے میں خاصی سہولت ہوگئی۔ فوج کو معلوم تھا کہ پانی کی ٹینکی کے اوپر اینٹی ایئرکرافٹ اور اینٹی ٹینک گن چھپی ہوئی ہے۔ اسی طرح کشمیر میں منحرف جنگجوئوںکو منظم کرکے اخوان کا قیام بھی ان کا کارنامہ ہے جنہوں نے کشت و خون کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔
نیوکلیر دھماکوں کے بعد اٹل بہاری واجپائی نے ایک سفارت کار برجیش مشرا کو بھارت کا پہلا قومی سلامتی مشیر مقررکیا جو ان کے پرنسپل سیکرٹری بھی تھے۔ اس کے بعد من موہن سنگھ نے اس عہدے کو بانٹ کر سفارت کار جے این ڈکشٹ اور انٹیلی جنس کے سابق سربراہ ایم کے نارائنن کے حوالے کیا۔ ڈکشٹ کے انتقال کے بعد یہ عہدہ کلی طور پر نارائنن کے پاس آگیا حالانکہ اس دور میں بھی نارائنن پر الزام تھا کہ وہ پولیس کی تنگ ذہنیت سے باہر نہیں آ پا رہے ہیں۔ مگر من موہن سنگھ کے پاس چونکہ شیام سرن اور بعد میں شیو شنکر مینن جیسے زیرک سفارت کار سیکرٹری خارجہ کے طور پر موجود تھے اس لئے نارائنن اس حد تک حاوی نہیں ہو سکے جس طرح موجودہ حکومت میں دوول ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اس وقت وزیر اعظم مودی کے پاس دوول اگرکمرے میں موجود ہوں تو کتنی ہی اشد ضرورت کیوں نہ ہو، حکم ہے کہ کوئی بھی کمرے میں نہیں آسکتا اور نہ ہی فون کے ذریعے وزیر اعظم کا پرائیوٹ سیکرٹری ان کو کسی بھی طرح کی یاد دہانی کراسکتا ہے۔ حکومت چلانے کے لئے تدبر، تحمل اور معاملہ فہم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، مہم جوئی فوج اور انٹیلی جنس میں تو درست ہے مگر اعلیٰ سیاسی عہدوں میں اس طرح کا مزاج خطرناک ہوتا ہے۔
– See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/iftikhar-gilani/2016-09-06/16737/98133250#tab2