منتخب کردہ کالم

بھاندے دا سب کجھ بھاندا…حسنین جمال

بھاندے دا سب کجھ بھاندا…حسنین جمال

ایک آدمی نوکری کے لیے انٹرویو دینے گیا۔ وہ پوری طرح تیار ہو کے گیا تھا۔ سلیقے سے مانگ نکالی ہوئی، بال جمائے ہوئے، پرانا لیکن صاف ستھرا کریز جما کوٹ پتلون، چمکدار بوٹ، عینک کا باریک سا سلور فریم، تھوڑا لمبا قد، کھلتا ہوا رنگ، ایک اچھے امیدوار کا نمونہ بنے وہ جوان دفتر پہنچ گیا۔ ایک ہفتے سے وہ انٹرویو کی دن رات تیاری کر رہا تھا‘ اس لیے چہرے سے بھی پراعتماد نظر آتا تھا۔ مسئلہ یہ ہوا کہ جب وہ دفتر پہنچا تو اسی وقت انٹرویو لینے والوں کو اوپر سے ایک واٹس ایپ آ گیا۔ اس میں کسی اور بندے کی تصویر تھی اور لکھا تھا کہ جتنے مرضی انٹرویو لے لو، سلیکٹ تم نے اسی آدمی کو کرنا ہے۔ نہیں کرو گے تو نہ نوکری رہے گی نہ تمہارا یہ سلیکشن بورڈ، کون شریف انسان اپنی نوکری سے پیار نہیں کرتا؟ واضح رہے کہ پیغام بھیجنے والی طاقتوں کا نام ہم نہیں جانتے، نہ ہی کسی سہولت کار کا ہمیں علم ہے۔ کہانی سنانے والے یہ بتاتے تھے کہ میسج آنے کے بعد چن کے ایسے سوالات رکھے گئے جن کا جواب دینا کسی بھی امیدوار کے لیے ممکن ہی نہ ہو۔ انٹرویو شروع ہوا، چونکہ اس طرح کے مشکل ترین سوالوں پہ سب لوگ فیل ہو رہے تھے تو مرضی کا بندہ رکھنے اور نوکریاں بچانے کی ٹھیک ٹھاک امید پیدا ہو چکی تھی۔
اتنے میں ہمارے ہیرو کا نمبر آیا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا۔ پشت پہ دروازہ بند کیا۔ تہذیب سے چلتا ہوا میز کے سامنے آیا۔ سب کو سلام کیا، اجازت لی اور کرسی پہ بیٹھ گیا۔ دونوں ہاتھ کرسی کے بازوؤں پہ ہیں۔ ہلکی سی ٹیک لگائے ہے، کمر سیدھی ہے، ٹانگ پہ ٹانگ بھی نہیں چڑھائی، بس مطمئن سا بیٹھا ہے اور سوالوں کے انتظار میں ہے۔ پہلا سوال کیا گیا کہ آسمان پہ ستارے کتنے ہیں؟ جواب ملا: چھ کھرب، بیس ارب، پچپن کروڑ، چوراسی لاکھ، ستانوے ہزار، چھ سو دو۔ انٹرویو لینے والوں کے پاس سوال غلط کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہیں تھا کیونکہ احمقانہ سوال انہی کی طرف سے آیا تھا۔ اب انہوں نے پوچھا کہ 2855 کو 4087 سے ضرب دیں تو کیا جواب آئے گا؟ بغیر کسی کیلکولیٹر کے، بغیر کوئی حساب کیے، وہ امیدوار ترنت بولا 11668385، اب تو ساروں کی ہوا ٹائٹ تھی کہ یار اسے کس طرح انٹرویو میں فیل کریں؟ انہوں نے کہا کہ چائنیز زبان میں الیکشن کی نئی حلقہ بندیوں پہ مضمون لکھو اور ہمیں سمجھاؤ کہ یہ ہوا کیا ہے؟ اس نے وہ بھی لکھ کے فوراً سامنے کر دیا۔ اب انٹرویو لینے والوں میں سے جو آدمی سب سے مہا عقلمند تھا وہ سامنے آیا۔ اس نے تالیاں بجائیں اور کہا کہ ویل ڈن یار، تم بہت ہی قابل آدمی ہو، بس ایک کام کرو‘ اب ہمیں تھوڑا ہوا میں اڑ کے دکھاؤ۔ انٹرویو دینے والے نے اڑنا شروع کر دیا۔ کمرے کی کھڑکی سے اڑتے اڑتے باہر نکلا، فضا میں قلابازیوں کے جیسے دو تین کرتب بھی دکھائے پھر دوبارہ اڑتا ہوا کمرے میں آیا، پنکھے سے بچ کے دیواروں کے ساتھ ساتھ اڑا ‘اس کے بعد اپنی سیٹ پہ آ کر بیٹھ گیا۔ عقلمند انٹرویو لینے والا بولا؛ شاباش جوان، تم نے سارے جواب ٹھیک دئیے تھے بس تم تھوڑا ٹیڑھا اڑتے ہو، اس لیے ہم لوگ تمہیں اس نوکری کے لیے مناسب نہیں سمجھتے۔
سرائیکی میں ایک محاورہ ہے کہ بھاندے دا سب کجھ بھاندا اے، ان بھاندے دا کجھ نئیں بھاندا۔ یعنی جو پسند ہے اس کی ہر بات پسند ہے اور جو مظلوم ایک بار ناپسند ہو گیا پھر اس کی بڑی سے بڑی اچھائی کسی کو پسند نہیں آ سکتی۔ تو قصہ یہ ہے کہ جہاں کام ہو گا، جہاں حرکت ہو گی، جہاں نئے سٹینڈرڈز سیٹ کیے جائیں گے، جس صوبے کی ترقی مخالفین کو خواب میں بھی ڈراتی ہو گی‘ وہاں ظاہری بات ہے رکاوٹیں بھی آئیں گی۔ اب نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور دیگر پابندیاں شہباز شریف کو راستہ دیں گی یا انہیں منقار زیر پر رکھنے پہ مجبور کرتی ہیں‘ یہ بہت جلد پتا چل جائے گا۔
پنجاب میں صحت کا شعبہ کئی دن سے زیر عتاب ہے۔ شہباز شریف اور ان کے وزرا کو ٹھیک ٹھاک سننی پڑ رہی ہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کا مزہ بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے، خاص طور پہ اس وقت جب اچھی خاصی بھاگ دوڑ بھی کی ہو۔ مثال کے طور پہ ابھی چند دنوں پہلے قصور کی ایک معصوم بچی ریپ کے بعد قتل ہوئی۔ اسے قتل کرنے والا عدالت کی طرف سے دئیے گئے ٹائم فریم میں پکڑا گیا۔ یہ ممکن کیسے ہوا؟ پنجاب کی فارنزک لیب میں کیے گئے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے۔ پھر چند دن بعد مردان میں بھی ایسا ہی ایک سانحہ پیش آ گیا، پورے خیبر پختونخوا میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سے ڈی این اے ٹیسٹ ہوتا، اس بدنصیب بچی کے سیمپلز بھی یہاں کی لیب میں ٹیسٹ ہوئے اور نتیجہ وہاں بھیجا گیا۔ پھر اس سے میچ کرنے کے لیے 145 مشکوک ملزمان کے ڈی این اے سیمپلز پنجاب آئے، ایک میچ کر گیا اور وہ پندرہ سالہ مجرم گرفتار ہو گیا جس نے یہ بھیانک جرم کیا تھا۔ چیف جسٹس کے سوموٹو اور پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کی پھرتی سے یہ کام ممکن ہوا۔ یاد رہے کہ 2009ء میں شہباز شریف نے ہی اس فارنزک ایجنسی کا افتتاح کیا تھا۔
عام طور پہ ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی اگلی حکومت آتی ہے پچھلے دور میں شروع کیے گئے اچھے کام بھی رک جاتے ہیں، پنجاب کے شعبہ صحت میں ایسا نہیں ہوا۔ پرویز الٰہی کے دور میں شروع کی گئی 1122 ایمبولینس سروس کے پروجیکٹ کو مزید آگے بڑھایا گیا۔ موٹر سائیکل ایمبولینسز شروع کی گئیں۔ اب اندرون شہر یا کوئی اور تنگ علاقہ جہاں گاڑی نہیں گھس سکتی‘ وہاں سے مریضوں کو نکالنے کے لیے 1122 کی موٹر سائیکل ایمبولینسز موجود ہیں۔ پھر محفوظ ماں ایمبولینس سروس بھی شروع ہوئی۔ 1034 پہ کال کر کے ایمرجنسی کی حالت میں کوئی بھی حاملہ ماں یہ ایمبولینس پنجاب کے دیہی علاقوں میں اپنے گھر تک منگوا سکتی ہے۔ فرض کیجیے کوئی ایک ماں بھی اگر ان 433 ایمبولینسوں کے نتیجے میں اب تک بروقت ہسپتال پہنچ کے اپنی اور اپنے بچے کی زندگی بچا سکی ہے تو کیا یہ کم ہے؟ جس ملک کی غریب مجبور عورتیں سڑکوں، گلیوں یا رکشوں پہ ہی بچوں کو جنم دینے پہ مجبور ہوں کیا وہاں ہر مہینے ہزاروں ماؤں کو فائدہ پہنچانے والی اس ایمبولینس سے نظریں چرائی جا سکتی ہیں؟ پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان کی بھی توسیع کی گئی، مطلب اگر پہلے کچھ بہتر ہوا تو اس میں سے رکا کچھ بھی نہیں، کارواں آگے ہی بڑھایا گیا۔
ڈی پورٹ ہو کے باہر سے آنے والوں کی ایڈز سکریننگ بھی پنجاب کے ائیرپورٹس پہ شروع ہو چکی ہے، ڈینگی کو بھرپور طریقے سے قابو بھی پنجاب ہی میں کیا گیا، ادھر سے ہی ڈاکٹر خیبر پختونخوا گئے، پاکستان کا سب سے جدید کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال بھی یہیں بنا، چودہ ضلعوں میں ہیپاٹائٹس کلینک بن چکے ہیں جو اسی ہسپتال کی ذیلی شاخیں ہیں، یہی صوبہ ہے جہاں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو گھر بیٹھے دوائیاں بھجوانے کی مہم بھی شروع ہو چکی ہے، گاؤں دیہات کے ہسپتالوں سے ناقابل علاج مریض بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتال تک لانے کے لیے پیشنٹ ٹرانسفر سروس کے نام سے بھی ایمبولینسز چلائی جا چکی ہیں، ان ہسپتالوں تک پہنچانے کے لیے ضروری سڑکیں بھی مزید کشادہ ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں، اسی صوبے کے چار ضلعوں میں لوگوں کی سرکاری ہیلتھ انشورنس پہ کام شروع ہو چکا ہے، چلڈرن ہسپتال لاہور میں بون میرو ٹرانسپلانٹ جیسی جدید سہولت کا آغاز ہو چکا ہے، لاتعداد ضلعی ہسپتالوں کو ممکنہ جدید سہولیات دی گئی ہیں، اعلیٰ ترین دوائیں اور مشینیں بھی یہیں خریدی گئیں، اور کیا کریں بھائی؟ کوئی ایک صوبہ دکھا دیں جہاں اتنا سب کچھ ہوا ہو؟
دیکھیے بات یہ ہے کہ جب انسان کسی چیز میں خرابیاں نکالنے پہ آتا ہے تو اس کی مثال آئی فون والی ہے۔ بنانے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے ہر لحاظ سے پرفیکٹ چیز بنا دی مگر خرابیاں ڈھونڈنے والے اس میں بھی کیڑے نکالتے ہیں۔ ٹھیک ہے خرابیاں نکالنا یوزر کا حق ہے لیکن جتنا مرضی گرج برس لیں، آئی فون کو توڑ کے پھینک دیں، اسے گندے پانی میں بہا دیں، ساتویں منزل سے نیچے گرا دیں لیکن یار آئی فون نے رہنا آئی فون ہی ہے، وہ اگر کبھی ناکام ہو گا تو صرف اس وقت جب وہ اپنے پچھلے مقرر کردہ معیار سے نیچے آئے گا یا کوئی نئی کمپنی اس سے اچھا فون بنا پائے گی۔
کہانی وہی ٹیڑھا اڑنے والی ہے۔ اب ہمیں بیٹھ کے اپنے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ شہباز شریف ٹیڑھا اڑتے ہیں یا موبائل فون بنانے والے؟