بھنور کی آنکھ….ہارون الرشید
اللہ کے آخری رسول ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ تاریخ کی شہادت بھی یہی ہے۔ مگر جب دل و دماغ کے دروازے بند ہوں؟
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
پی آئی اے کی پروازیں لیٹ ہوتی ہیں مگر ایسی بھی نہیں۔ بدھ کی شام عجب ماجرا ہوا۔ شب کی پرواز مؤخر ہوتی گئی جمعرات کی دوپہر تک ۔ مسافر چیختے چلاتے رہے لیکن مردہ گھوڑے پر چابک برسانے کا فائدہ؟
سویر ہوئی تو خبر آئی کہ پاکستان سٹیٹ آئل نے پی آئی اے کو ایندھن فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سترہ ارب روپے واجب الادا ہیں۔ دس ماہ کے دوران پچاس ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ تین سو چالیس ارب روپے کی کمپنی مقروض ہے۔
کبھی یہ دنیا کی بہترین فضائی کمپنی تھی، جس کے اشتہار پہ لکھا ہوتا ”Great People To Fly With‘‘ لاجواب لوگ بہترین پرواز۔ کتنی ہی فضائی کمپنیاں تشکیل دینے میں اس ادارے نے مدد کی۔ ان میں سے ایک امارات ایئر لائن بھی تھی، جس کا پی آئی اے سے اب کوئی موازنہ ہی نہیں۔ اس ادارے پر کیا بیتی، کبھی قوم جس پہ فخر کرتی تھی۔ حکمرانوں کے سوا جواب سبھی کو معلوم ہے۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
پی آئی اے کا کوئی امتیاز ہے تو یہ کہ طیاروں کے تناسب سے، اس کے ملازمین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ غالباً ایک جہاز پر پانچ سو تینتالیس افراد۔ دوسری فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں کم از کم تین سے چار گنا ۔ ان سے چھٹکارہ نہیں پایا جا سکتا۔ ادارے کی ٹریڈ یونین تنظیمیں بہت طاقتور ہیں۔ وہ ہنگامہ اٹھاتے اور جاری رکھتے ہیں ، جب تک مطالبات مان نہ لئے جائیں۔
2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو مزید مراعات کا اعلان کیا گیا، جب حکومت کی حامی ٹریڈ یونین غالب تھی۔ یونین کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ نہ صرف سب مطالبات تسلیم کئے گئے ہیں بلکہ کچھ ایسی عنایات بھی، جن کا تقاضا ہی نہ تھا۔ جناب آصف علی زرداری اپنی حامی یونین پہ نازاں تھے۔
کوئی سیاسی لیڈر ہوائی اڈے پر نمودار ہو تو لپک کر منصب دار آگے بڑھتے ہیں۔ سامان اٹھاتے ہیں۔ بریف کیس تھامتے ہیں۔ برق رفتاری سے بہترین نشست کا انتظام کرتے ہیں۔ وی آئی پی لائونج میں تشریف رکھنے کی درخواست کرتے ہیں۔ نہایت ادب اور احترام سے پھر پوچھا جاتا ہے کہ وہ چائے پینا پسند کریں گے، کافی یا ٹھنڈے مشروبات میں سے کوئی چیز۔ سینڈوچ کون سا مرغوب ہے۔ چائے کی پیالی میں پتی کم ڈالی جائے یا زیادہ ”آپ کالی کافی پیئں گے، دودھ یا کریم والی‘‘۔
دانا یہ لوگ بہت ہیں۔ ووٹ اسی یونین کو دیتے ہیں جو حکومت وقت کی حامی ہو۔ ریلوے کی طرح بائیں بازو کے انتہا پسند اس پہ مسلط تھے۔ پھر جماعت اسلامی والوں نے یونین بنائی اور انہیں اکھاڑ پھینکا۔ چند برس کے بعد جماعت اسلامی کے ہمدرد نون لیگ سے جا ملے۔ ان میں سے نمایاں مشاہداللہ خان تھے۔ نواز شریف کو جو ایسے عزیز ہوئے کہ بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بھی بنائے گئے۔ بعد ازاں سینیٹر اور وفاقی وزیر ۔ اب اس پہ کیا تعجب کہ شریف خاندان کے خلاف ایک لفظ سننے کے وہ کبھی روادار نہیں ہوتے۔ شریف ہی ان کے ان داتا ہیں۔ نون لیگ کے مخالفین کو ایک لمحہ برداشت نہیں کر سکتے ۔ سیاسی مخالفین پہ تنقید نہیں کرتے، صاف اور سیدھے الفاظ میں کردار کشی فرماتے ہیں۔ نواز شریف ان کے لیے فرشتہ ہیں اور مخالفین ابلیس کے پیروکار۔ ان کے دو بھائی پی آئی اے میں براجمان ہیں‘ اور نہایت شان و شوکت کے ساتھ۔ ایک مشاہد اللہ ہی کیا ، ہر با رسوخ آدمی نے ادارے کو اسی طرح برتا ہے۔ اپنے پسند کے لوگ بھرتی کرائے ۔ ان کے فروغ کا بندوبست کیا اور انہیں شادماں رکھا۔ کمپنی جائے بھاڑ میں، ملک جائے بھاڑ میں۔
کسی بھی پرواز میں عام طور پہ پی آئی اے کے پانچ سات ملازم سوار ہوتے ہیں۔ ایسے میں مسافروں سے معذرت کر لی جاتی ہے کہ شہزادوں کے ماتھے پہ شکن نہ آئے۔ اکثر عام درجے ہی میں سفر کرنا وہ گوارا کرتے ہیں لیکن اکانومی پلس یا فرسٹ کلاس میں گنجائش موجود ہو تو روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ جاننے والوں اور با رسوخ مسافروں کے لیے بھی ، اسی عالی ظرفی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ خاص طور پہ سیاسی لیڈروں پر ۔ اس سے بھی زیادہ وزراء ، گورنروں، وزرائے اعلیٰ اور شاہی خانوادوں کے معززین پر۔ یا للعجب وزیرانِ کرام میں سے صرف احسن اقبال کو دیکھا کہ سب سے اگلی نشستوں کی بجائے، عام مسافروں کے درمیان بیٹھ جانے پہ آمادہ ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی ایک آدھ اور بھی ہو۔ اکثر مگر وہی احساس کمتری کے مارے ہوئے۔ عامیوں کے ہجوم میں ان کی روح فنا ہوتی ہے۔ دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ خود کو وہ پست و پامال پاتے ہیں۔ اپنے آپ پہ ترس آنے لگتا ہے۔ پاکستانی اشرافیہ ذہنی مریضوں کا ایک ٹولہ ہے، جسے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ کبھی کوئی وقت آئے گا کہ ان کا معالجہ ہو گا۔ امید کپتان سے بھی تھی مگر وہ نعیم الحقوں اور زلفی بخاریوں پہ مہرباں ہیں۔
مشرف دور کے وفاقی وزیرِ زراعت کو پہلی بار اسلام آباد سے کراچی جانا تھا۔ دکھی سے ہو گئے کہ اکانومی کلاس میں جانا پڑے گا۔ بولے: یہ کیا ؟ بتایا گیا کہ طریق کار یہی ہے۔ مصر ہوئے کہ بہتر درجے کا بندوبست کیا جائے۔ یہی نہیں ایک بار خصوصی طیارے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہیں مطلع کیا گیا: وزارت کے طیارے فصلوں پر کرم کش ادویات چھڑکنے کے لیے مخصوص ہیں۔ اس پر وہ روہانسے ہو گئے۔ ان کے چہرے پہ لکھا تھا: ایسی وزارت پہ لعنت ہو۔
پی آئی اے کے طیارے تعداد میں کم ہیں اور بہت پرانے۔ خسارے میں جانے والی کمپنی نئے جہاز کیسے خریدے؟ دو برس پہلے قائد اعظم ثانی وزیر اعظم نواز شریف مدّ ظلّہ العالی نے لندن کے لیے ”پریمیئر سروس‘‘ کا اعلان کیا۔ سری لنکا سے خصوصی طیارے کرائے پر لئے گئے۔ اس سروس کی خصوصیت یہ تھی کہ مسافروں کو کھانا اچھا ملے گا۔ لندن میں اپنی رہائش گاہوں تک جانے کے لیے شاہانہ گاڑیوں میں سواری فرمائیں گے۔ موصوف نے اس موقع پر اعلان کیا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ۔ انہوں نے سچ کہا تھا۔ فضائی کمپنیوں کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں۔ چند ماہ کے اندر دو ارب روپے کا خسارہ ہوا اور سلسلہ تمام۔ خود تو خیر کبھی شرمندہ وہ ہوتے ہی نہیں۔ سیاسی مخالفین حتیٰ کہ میڈیا نے بھی فیاضی سے نظر انداز کر دیا۔ دنیا کے کسی بھی اور ملک میں، حکمران کو اس پر مستعفی ہونا پڑتا، جہاں احتساب کا نظام بروئے کار ہو، جہاں منتخب لیڈر کو بادشاہ نہ مانا جاتا ہو۔
اسی نادر روزگار حکمران نے کھلے آسمان (Open Sky) کی پالیسی متعارف کرائی۔ پاکستان کے ہوائی اڈے مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کی فضائی کمپنیوں کے لیے کھول دیئے۔ نہیں معلوم یہ درہم و دینار کا کرشمہ تھا یا عرب حکمرانوں کے اثر و رسوخ کا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جوابی طور پہ کوئی مراعات حاصل نہ کی گئیں۔ فضائی کمپنیوں کی آمدن کا بڑا حصہ بیرونی پروازوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ان پہ استحقاق ختم ہوا تو مفلس ادارہ مفلس تر ہونے لگا۔ چھوٹے چھوٹے مطالبات پر بسورنے ، ہڑتالیں اور ہنگامے کرنے والے پی آئی اے کے ملازمین نے اس پر کوئی احتجاج نہ کیا۔ بیچارے یرغمال کہ ٹریڈ یونین لیڈر ان پہ مسلط ہیں۔ ادارے کی بجائے جو لیڈروں اور حکمرانوں کے وفادار ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کے قیدی۔
ظاہر ہے کہ علاج نجکاری ہے۔ پی آئی اے ہی نہیں، سرکاری انتظام میں چلنے والے دوسرے کاروباری اداروں کی بھی۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ تاریخ کی شہادت بھی یہی ہے۔ مگر جب دل و دماغ کے دروازے بند ہوں؟
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی