بھُوت پریت‘ جِنّ‘ چُڑیلیں‘ چھلاوے اور پریاں….ظفر اقبال
سب سے پہلے تو یہ واضح رہے کہ یہ بھُوت پریت نہیں ‘بلکہ بھوت پریت ہے ‘یعنی ‘ر‘ کے نیچے زیر نہیں اوربر وزن کھیت ہے‘ جسے وغیرہ وغیرہ کے معنوں ہی میں استعمال کرنا چاہئے‘ ورنہ بھُوت پریت کا مطلب ہو گا بھُوت کا پیار۔ بھُوتوں کی دریافت تو مختصر ترین افسانہ کے ذریعے ہوئی‘ جس کے مطابق ایک آدمی نے دوسرے سے پوچھا کہ تم نے کبھی بھُوت دیکھا ہے؟ نفی میں جواب ملنے پر سوال پوچھنے والا غائب ہو گیا۔بھوت دو قسم کے ہوتے ہیں؛ باتوں کے بھوت اور لاتوں کے بھُوت‘ بھوت کو سر پر سووار ہونے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے ‘جیسے کہ عشق کا بھُوت‘ یہ صرف سر پر سوار ہوتا ہے‘ کندھوں پر نہیں؛ حالانکہ سر پر سوار ہونا زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے‘ یعنی سر اگر گنجا ہو تو بھُوت اس پر سے پھسل کر گر بھی سکتا ہے۔ منقول ہے کہ آرکیالوجی کی ایک طالبہ ایک قدیم قلعہ دیکھنے کے لیے گئی۔ واپسی پر اُس نے گائیڈ سے کہا: میرا خیال ہے کہ اس میں بھُوت بھی رہتے ہیں‘ جس پر گائیڈ بولا:میں نے تو یہاں کبھی کوئی بھُوت نہیں دیکھا۔ اس پر طالبہ نے پوچھا: تم یہاں پر کب سے کام کر رہے ہو؟ جس پر گائیڈ بولا: یہی کوئی تین سو سال سے۔
جہاں تک جنّوں کا تعلق ہے‘ تو میاں صدیق کمیانہ ایڈووکیٹ ‘جن کے بارے ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ہمارے عزیز ترین دوستوں میں سے ہیں‘ جنّوں پر یقین نہیں رکھتے‘ ان کی تحقیق کے مطابق‘ جنّ اُس وقت کے پہاڑوں اور غاروں میں رہنے والے انتہائی پسماندہ لوگوں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ سو‘ جب ہم کہتے ہیں کہ جنّ بر حق ہیں‘ تو ان سے مراد غاروں میں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں‘ تاہم‘ اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ جنّ واقعی ہوتے ہیں‘ یعنی جو جنّ ہمارے ہاں دستیاب ہیں‘ وہ بالعموم دو کام کرتے ہیں‘ ایک تو وہ کہ جس شہر یا بستی کو ویران یا غیر آباد کرنا ہو‘ اس پر سے جن گزر جاتا ہے۔ دوسرے وہ ہر وہ کام کر گزرنے پر قادر ہوتے ہیں‘ جو انسانی بس سے باہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جس شخص‘ بلکہ عام طور پر جس خاتون پر عاشق ہو جائیں‘ اسے چمٹ جاتے ہیں‘ جسے نکلوانے کے لیے پیروں اور عاملوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں‘ جسے وہ اس قدر زد و کوب کرتے ہیں کہ وہ مرد یا خاتون تو انتقال کر جاتی ہے اور جنّ اس کے اندر ہی رہ جاتا ہے‘ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جنّ جب نکل جائے‘ تو جانے سے پہلے نشانی کے طور پر کوئی دیوار یا گھڑا وغیرہ توڑ کر جاتا ہے‘ جس کی ضرورت اس لیے نہیں کہ جنّ نکل جائے‘ تو ویسے ہی پتا چل جاتا ہے کہ موصوف تشریف لے گئے ہیں۔ یہ نقصان وہ شاید اس لیے کرتے ہیں کہ عامل کے ہاتھوں مار پیٹ کا بدلہ لے سکیں۔
مسلسل اور زوردار کام کرنے والے کو بھی جنّ کہتے ہیں۔ جیسا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو انہی صفات کی بناء پر جنّ بھی کہا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ‘ بلکہ اب وہ عوام کو چمٹ بھی گئے ہیں اور جنہیں نکالنے کیلئے لا تعداد عاملین کی ضرورت ہوگی! جنّوں‘ بھوتوں وغیرہ کو ہواوئی چیزیں بھی کہا جاتا ہے ؛حالانکہ جُملہ پرندے بھی ہوا میں اُڑتے ہیں‘ لیکن انہیں ہوائی نہ کہنا ان کی باقاعدہ حق تلفی ہے‘ ایک ہوائی وہ ہوتی ہے‘ جو اُڑائی جاتی ہے اور جسے کوئی دشمن ہی اڑاتا ہے۔
چڑیل کو پچھل پائی بھی کہتے ہیں ‘کیونکہ اس کے پائوں پچھلی طرف مُڑے ہوئے ہوتے ہیں‘ حالانکہ وہ سیدھی ہی چلتی ہے‘ جبکہ اُسے اُلٹی طرف چلنے میں زیادہ آسانی رہتی ہو گی۔ جنّ کی مادہ کو بھی چُڑیل کہہ سکتے ہیں‘ لیکن شاید جنّ کے ڈر سے نہیں کہتے کہ کہیں وہ بُرا نہ مان جائے۔ یہ بچوں کو ڈرانے کے کام بھی آتی ہے؛ حالانکہ اس کے لیے بچوں کی ماں ہی کافی ہوتی ہے۔منقول ہے کہ ایک میاں بیوی کے مرنے کے بعد میاں‘ جنّ کی صورت اختیار کر گیا اور بیوی چُڑیل بن گئی۔ کہیں پر ان کی ملاقات ہو گئی تو بیوی بولی: آئے ہائے‘ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے‘ تم تو اتنے خوبصورت ہوا کرتے تھے ؟ جس پر میاں بولا: وہ تو ٹھیک ہے ‘لیکن تمہیں تو کوئی فرق نہیں پڑا‘ تم تو ویسی کی ویسی ہی ہو!تاہم ہمارا آج تک کسی چُڑیل سے سامنا نہیں ہوا۔ شاید مرنے کے بعد ہو جائے‘ آپ ہمارا مطلب سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
چھلاوے کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔ ان کا کوئی فائدہ یا نقصان تو سُننے میں نہیں آیا؛ البتہ اس کی ایک صفت مشہور ہے کہ ایک دم بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے چھلاوے کی طرح غائب ہو جائے گا۔ اس شعر سے شاید اسے سمجھنے میں مزید مدد مل سکے ؎
ابھی ہو اور ابھی بالکل نہیں ہو
ظفرؔ‘ شاعر ہو یا کوئی چھلاوہ
کسی پری کا سامنا کرنے کی بھی ابھی تک ہمیں حسرت ہی رہی ہے۔ یہ جنس شاید وہ ہے‘ جو شعرائے کرام نے اپنی محبوبہ کی کمی پُوری کرنے کے لیے ایجاد کر رکھی ہے‘ جو نا صرف خواب میں انہیں ملنے کے لیے آتی ہے ‘بلکہ انہیں رات بھر ساتھ لے کر اِدھر اُدھر اُڑائے بھی پھرتی ہے اور‘ اگر اس طرح نہ بھی ہو تو اپنی محبوبہ کو پری رُو کہہ کر گزارہ کر لیتے ہیں‘ جبکہ خود اس کا پرا بھی ہوتا ہو گا‘ جسے شاعر کا رقیب کہہ سکتے ہیں اور وہ بھی رقیب رُو سیاہ۔کہیں کہیں جل پری کا بھی ذکر آیا ہے۔ غالباً یہ مچھلی کی کوئی قسم ہوتی ہو گی ‘کیونکہ پانی میں مچھلیوں‘ کچھوئوں اور مگر مچھوں کے علاوہ اور تو کوئی چیز زندہ رہ نہیں سکتی۔ ہو سکتا ہے‘ کسی مادہ مگر مچھ کے بارے میں جل پری کا گمان کر لیا گیا ہو۔اس تحریر کو اس خواہش اور اُمید کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ آج رات ہمارے خواب میں بھی کوئی پری آن ٹپکے‘ لیکن وہ عام پری ہو‘ جل پری نہیں اور‘ یہ خواہش اور اُمید ہمارے دوست شکیل عادل زادہ کے لیے بھی ہے۔
آج کا مطلع
اک اور ہی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا