منتخب کردہ کالم

بھٹوکہاں سے تلاش کریں!: منیر احمد خان

ایک اورچاراپریل آگیا۔پاکستان کے عوام کو1979ء میں اس روزخبرملی تھی کہ ذوالفقارعلی بھٹوکوصبح سویرے پھانسی دے دی گئی۔مقبول لیڈروں کواتنی جلدی کیوںماردیاجاتاہے؟بینظیربھٹوکاکیاقصورتھا؟ان کو بھی توبہت جلد مار دیا گیا۔ مارنے والے چاہے کوئی بھی ہوں لیکن اس طرح کے لوگوں کومارکرایک دشمن کو نہیںماراجاتابلکہ ملک کوماراجاتاہے۔اس ملک کے لوگوں کوان سے محروم کیاجاتاہے۔ان کی سوچ کاقتل کیاجاتاہے اورپھرسب سے بڑھ کرملک کوترقی سے روکا جاتا ہے۔Visionary لیڈرروزروزپیدانہیں ہوتے۔ذوالفقارعلی بھٹونے پھانسی پھنداقبول کرلیالیکن آمریت سے خفیہ یااعلانیہ سمجھوتہ نہیں کیابلکہ آج پیپلزپارٹی کے وارث ایک صوبے کی حکومت قائم رکھنے کیلئے اوراپنے لوٹ ماروالے دوستوں کوبچانے کیلئے کیاکچھ نہیں کررہے ۔پاکستان میںذوالفقارعلی عوامی راج اورجمہوریت کاsymbol تھے۔ پانچ جنوری1928ء کوپیداہونے والے ذوالفقار علی بھٹوکوصرف اورصرف 51سال چلنے دیا گیا۔ قدرتی موت تواللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے لیکن بے گناہ کا قتل تواللہ کاحکم نہیں بلکہ ظلم ہے۔ اس عظیم لیڈرنے آکسفورڈاورکیلی فورنیاسے بہترین تعلیم حاصل کی۔جنرل ایوب خان کی حکومت میں شامل ہوئے اورملکی مفاد کے خلاف بھارت سے معاہدہ کے خلاف حکومت چھوڑی اورعوام میںآ گئے۔ پیپلزپارٹی کی بنیادرکھی اورلوگوں کوآوازدے دی۔ایک احساس پیداکیاکہ انکاکوئی والی وارث ہے۔ایک ایسی تحریک چلائی کہ آمریت کوجاناپڑا۔جنرل یحییٰ خان کی غلطیوں اوربین الاقوامی سازشوں کی وجہ سے ملک دوحصوںمیں تقسیم ہوگیاتوذوالفقارعلی بھٹوکومنتخب لیڈرکی حیثیت سے اقتدارمل گیا۔1973ء کے متعلقہ آئین سے لیکربے شماراصلاحات سمیت پاکستان کے نیوکلیئرکی بنیادرکھی۔
آج جس طرح پاکستان بیرونی جارحیت کے خطرے سے دوچارہے، بھارتی لیڈرکھلے عام پاکستان کو(حاکم بدھن)چارٹکڑوںمیں تقسیم کرنے اورمکمل ختم کرنے کے اعلانات کررہے ہیںیہ ایٹم بم ہی ہماری حفاظت کررہاہے۔بھارتی لیڈروں کوپاکستان سے دشمنی کی انتہایہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگرہمارے 10کروڑلوگ بھی مارے جائیں تب بھی فکرکی کوئی بات نہیں پاکستان توختم ہوگا!کتنے مضحکہ خیزبیانات ہیں۔ایک نام نہادجمہوری ملک کے لیڈرکیابیانات دے رہے ہیں۔یہ ذوالفقارعلی بھٹوکی دوراندیشی تھی کہ انہوںنے اپنی جان توقربان کردی لیکن ملک کے دفاع کومحفوظ کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ 10کروڑلوگوں کومرواکربھی پاکستان کوختم کرناآسان نہیں بلکہ ناممکن ہے۔یہی تووہ خوبیاں ہیں جسکی بنیادپرآج بھی لوگ بھٹوکویادرکھتے ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹوصحیح معنوںمیںپاکستانی تھے۔دوراندیش لیڈرہونے کی وجہ سے 1963ء میں وزیرخارجہ بننے کے بعدچائنہ کے تعلقات کی بنیادرکھی۔جب بہت سارے ملکوںنے تائیوان کی حکومت کوتسلیم کرلیاتب بھی بھٹونے چائنہ کوہی ایک ملک کے طورپرتسلیم کیا۔چائنہ سے تعلقات بڑھانے کی وجہ سے امریکہ کے صدرجانسن نے صدرایوب کوخط لکھااورمطالبہ کیاکہ ذوالفقارعلی بھٹوکوبرطرف کیاجائے اورچائنہ کی بجائے فری ورلڈسے تعلقات رکھے جائیں۔بھٹونے اقوام متحدہ اورسکیورٹی کونسل میں چائنہ کی بھرپورحمایت کی۔آج ہرچھوٹابڑالیڈرچائنہ سے تعلقات کواپنی کوشش قراردیتاہے لیکن حقیقت یہ ہے یہ سہراصرف اورصرف ذوالفقارعلی بھٹوکے سر جاتا ہے۔ بلاشبہ ہرآنے والی حکومت نے پاک چائنہ تعلقات کوآگے بڑھایاہے۔ سی پیک منصوبہ بھی چائنہ سے 55سالہ گہرے روابط اوردوستی کی بدولت ہے ۔یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کو کسی ملک کی غلامی میں نہیں دیناچاہئے۔یہ تاثربری طرح پھیل رہاہے کہ جس طرح ہندوستان میں انگریزتجارت کی غرض سے آیااورپورے انڈیاپرقابض ہوگیا۔کیاچائنہ بھی سی پیک کی شکل میں پاکستان کے اندرداخل ہوکرپاکستان کواپنی کالونی تونہیں بنائے گااورپاکستان انگریزکی غلامی کرتے کرتے اب چینیوںکی غلامی میں چلاجائیگا۔چینی ضرورجب فیکٹریوں میں کام کرینگے توایساتاثرضرورپیداہوگا۔حکومت وقت کو Visionary ہوناچاہئے اوروقتی حالات اورآئندہ الیکشن میں کامیابی نہیں بلکہ ملک کے مستقبل پرپڑنے والے اثرات کودیکھناچاہئے۔میں بڑے افسوس کے ساتھ ہمیشہ کہتاہوں کہ ملک میں بڑی سوچ والے لیڈر نہیں رہے۔بھٹوکے بعدبے نظیر ضرور پیداہوئی لیکن اس کے بعدنوابزادہ نصراللہ خان نہ رہے،ولی خان اورمفتی محمودبھی چلے گئے۔ آج ہمیںذوالفقارعلی بھٹوبہت یادآرہے ہیں جنہوں نے20دسمبر1971ء کومشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعداقتدارسنبھالااورقوم کو سہارا دیا۔
ذوالفقارعلی بھٹونے اندراگاندھی کے ساتھ مذاکرات کئے اورشملہ معاہدہ کے ذریعے 93ہزار قیدی واپس لائے۔ سینکڑوں ایکڑرقبہ بھارت سے چھڑایا۔ 12اپریل1973ء کو پاکستان کے متفقہ آئین پردستخط کئے اور 10اگست کو صدر کا چارج فضل الٰہی چوہدری کے سپرد کر دیا اور 14اگست 1973ء کو146ارکان میں سے108ووٹ لیکروزیراعظم منتخب ہوگئے۔بھٹوکے دورحکومت میں1973ء کے آئین میں سات بڑی ترامیم کی گئیں۔نچلے درجے کوطاقتوربنانے کیلئے بڑی صلاحیتوں کوقومی تحویل میں لینے کی پالیسی بنائی گئی۔ پاکستان کے اندرتوکیادنیاکی بڑی طاقتوں کوبھی بھٹوکانٹے کی طرح چبھنے لگا جس کانتیجہ یہ نکلاکہ 5جولائی1977ء کوجنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگادیا۔بے نظیربھٹونے اپنے شہیدباباکے مشن کوجاری رکھالیکن ملک دشمنوںنے انکوبھی شہیدکردیا۔آج بھٹوکے مشن کوپوراکرنے والاکوئی بھی نہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی بھٹوکے بعدلاوارث ہوئی تودخترمشرق نے اسکوسنبھالالیکن بے نظیربھٹوکے بعدآصف زرداری سے کیاتوقع کی جاسکتی ہے جنہوں نے پانچ سال توحکومت کی لیکن لوگوں کیلئے کچھ نہیں کیا۔دوستوںکوتوخوش رکھالیکن کارکن محروم رہے۔وزیراعظم اوروفاقی وزیرامیراورطاقتورہوگئے لیکن ملک کمزورہوگیا۔رشوت کھلے عام لی گئی اوررشوت لینے والے محترم ٹھہرے۔اسکانتیجہ یہ نکلاکہ بھٹواوربے نظیربھٹوکی پارٹی پنجاب ،بلوچستان،GB, KPKاورکشمیرمیں عوام سپورٹ سے محروم ہوگئی۔سندھ میں حکومت تومل گئی لیکن خفیہ معاہدوں کے ذریعے ۔آج بھٹوکی روح تڑپ رہی ہوگی۔بھٹونے جان بچانے کیلئے سمجھوتہ نہیں کیاتوآج پی پی پی کی قیادت اقتدارحاصل کرنے کیلئے کیوں سمجھوتے کررہی ہے؟بھٹوکامشن اصولوں کاساتھ دیناتھا۔بھٹوکی سوچ ملک کوترقی دیناتھی نہ کہ ذاتی دولت کوترقی دینا۔
پاکستان کوبھٹوویثرن کی ضرورت ہے۔جوملک وقوم کی فکرکرے ،ایسے لیڈروں کی ضرورت ہے جواپنے ذاتی اثاثوں میں اضافوں کی بجائے ملکی اثاثوں میں اضافہ کریں۔ایسے لیڈرکی ضرورت ہے جودنیاکی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ ذوالفقارعلی بھٹوصرف پیپلزپارٹی کالیڈرنہیں تھابلکہ قوم کالیڈرتھااس لئے بھٹوکی سوچ کواپناناپیپلزپارٹی کی پالیسی اختیارکرنانہیں ہے۔جہاں نوازشریف اورعمران خان جوبھی ”بھٹوویثرن‘‘کوآگے لے کرجائیگاوہ ملک کامحسن ہوگاوہی ملک کامسیحاہوگا۔یادرکھیں کہ آج قوم کومسیحا کی ضرورت ہے ایسے مسیحاکی جواپنی ذات،رشتہ داروں اوردوستوں سے نکل کردیکھ سکے اس لئے تو آج ہم ”بھٹو‘‘کوتلاش کررہے ہیں۔