منتخب کردہ کالم

بھٹو فارمولا اور پنجاب (نمک کا آدمی) اقبال رشید

گزشتہ دنوں جب آصف علی زرداری نے یہ بیان داغا کہ وہ پنجاب میں آ کر بیٹھ گئے ہیں، اور انتخابی مہم لاہور سے چلائیں گے، تو مجھے کراچی کی وہ دھول زدہ دوپہر یاد آئی، جب میں ڈیفنس کے ایک بنگلے کی بیٹھک میں ممتاز ترقی پسند سیاست داں، معراج محمد خاں کا انتظار کر رہا تھا۔
وہ عرصہ ہوا پی ٹی آئی سے الگ ہو چکے تھے، اور اب اکثر بیمار رہتے تھے۔ دیوار پر چند بلیک اینڈ وائٹ تصاویر آویزاں تھیں، جن سے پاکستانی سیاست کا ماضی جھلک رہا تھا۔ دو اہم تھیں؛ ایک میں وہ فیض صاحب، دوسری میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔ آخرالذکر اُن ہی دنوں کی تھی، جب بھٹو نے انھیں اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اس دھول زدہ دوپہر، بیماری کے باوجود انھوں نے طویل گفتگو کی۔ عمران خان سے علیحدگی کے اسباب پر بات ہوئی، ضیا الحق کی جانب سے کراچی میں مہاجروں کی جماعت بنانے کی پیشکش زیر بحث آئی، اُن کے قابل احترام بھائی، جناب منہاج برنا کا ذکر ہوا، مستقبل کے ارادوں کا بھی تذکرہ آیا، مگر یہ وہ اسباب نہیں، جن کی وجہ سے آج اچانک مجھے وہ ملاقات یاد آ گئی۔۔۔ اس کا بنیادی سبب آصف علی زرداری کے بیان میں صوبہ پنجاب کا تذکرہ تھا، پھر ایک وجہ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جمعیت کے درمیان ہونے والا تصادم بھی رہا، جس نے جامعہ کو میدان جنگ بنا دیا۔ تصادم، جس نے 60 اور 70 کی دہائی کے دائیں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ٹکرائو کی یاد تازہ کر دی۔ اس زمانے میں معراج محمد خاں پاکستان کے سب سے قدآور اسٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ ان کی دلیری کا ایک عالم معترف، شخصیت کا ایک زمانہ گرویدہ تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ معراج محمد خاں کی طلبا اور لیفٹ کی جماعتوں میں مقبولیت تھی، جس نے 70ء کے انتخابات میں پی پی جیسی نومولود جماعت کو مغربی پاکستان میں حیران کن فتح دلائی۔ پروگریسو سوچ رکھنے والی مزدور، طلبا اور کسان تنظیموں کو اسلامی سوشلز م کا نعرہ بھا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے طلبا اور مزدور رہنما بعد میں اِسے کھوکھلا قرار دیتے نظر آئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بھٹو دور ہی میں معراج محمد خاں کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
خیر، جس روز پنجاب یونیورسٹی میں طلبا تنظیموں کا تصادم ہوا، اور زرداری صاحب کا بیان خبروں کی زینت بنا، میرے ذہن میں اب سے پانچ عشروں قبل، معراج محمد خاں اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے والے مکالمے گھوم رہے تھے، جو پاکستانی سیاست کے مستقبل کا اشارہ تھے۔ معراج صاحب طلبا کو منظم کرنے میں جٹے تھے، تب ایک روز بھٹو نے کہا: ”معراج، جب تک پنجاب کے اسٹوڈنٹ باہر نہیں نکلیں گے، بات نہیں بنے گی۔‘‘ اِسی سوچ کے تحت پنڈی کے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کے طلبا کو متحرک کیا گیا، جس کے سامنے ملٹری ٹرک گزرا کرتے تھے۔ طلبا نے روڈ بند کر دیا۔ پھر پنڈی کے علاقے صدر میں طلبا کے جلوس پر فائرنگ ہوئی۔ کچھ طلبا شہید ہو گئے۔ پنڈی بھڑک اٹھا۔ پنجاب کے نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے۔ حکومت مخالف تحریک پی پی کی الیکشن مہم بن گئی، اور بھٹو نے مغربی پاکستان میں واضح برتری حاصل کر لی۔
اس وقت بھٹو صاحب کے ذہن میں الیکشن جیتنے کا جو فارمولا تھا، آصف علی زرداری کو اس کا مکمل ادراک۔ یوں بھی اگر سن 70 سے 2013 تک کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے، تو پنجاب کے نتائج نے مرکزی حکومت کے قیام میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا۔ پی پی نے پنجاب سے جیت کر وفاق میں حکومت بنائی۔ جب ادھر ہاری، تو صوبائی جماعت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ مشرف دور میں جنم لینے والی ق لیگ کا محور بھی یہی صوبہ تھا۔ عمران خان کی توجہ کا مرکز یہی علاقہ رہا۔ ن لیگ نے یہیں سے جیت کر اقتدار حاصل کیا۔ اور اگر حالات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی، جس کا امکان بھی نہیں، تو مستقبل میں بھی مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے یہی کلیہ کارگر رہے گا۔
جی، آپ پنجاب سے جیت گئے، تو بہ آسانی وفاق میں حکومت بنا سکتے ہیں۔ اور اس کا سبب ہے پنجاب کی اعدادی اکثریت، اس کی دس کروڑ آبادی، جو پاکستان کی کل آبادی کا نصف ہے۔ ایک طرف سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں، دوسری طرف پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں۔ قومی اسمبلی کی کل نشستوں میں سے لگ بھگ نصف پنجاب کے پاس ہیں۔ اور یہی وہ سبب ہے، جس کے باعث دیگر صوبوں میں پنجاب سے متعلق منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں، جب پنجاب میں نئے صوبے بنانے کی بات کی جاتی ہے، تو دیگر صوبے، دھیمے سروں ہی میں سہی، کیوں اس کی حمایت کرتے ہیں۔
اچھا، اس ضمن میں اہل پنجاب کو حیران یا ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ جب دیگر صوبوں میں یہ سوچ جڑ پکڑ لے کہ وہ وفاقی حکومت کے قیام میں غیرمتعلقہ ہیں، تو ان میں احساس کمتری کا جنم لینا یقینی ہے۔ احساس کمتری، جو دھیرے دھیرے تعصب میں ڈھل جاتی ہے۔ اور تعصب وہ موذی مرض ہے، جو فرد اور گروہوں کو اُن باتوں کا بھی قائل کر لیتا ہے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پنجاب سے دیگر صوبوں کو جو شکایات، وہ ساری تو غلط نہیں ہو سکتیں، اور یہ بھی درست کہ پنجاب اپنی زرخیزی، دریائوں اور نسبتاً بہتر گورننس کی وجہ سے خوشحال ہے، مگر یہ تصور غلط ہے کہ اس نے تمام وسائل پر قبضہ کر
لیا، اور اب وہاں دودھ اور شہید کی نہریں بہ رہی ہیں۔ وہاں بھی ملک کے باقی علاقوں کے مانند تعلیم، روزگار، تحفظ اور انصاف کے میدان میں مسائل ہیں؛ البتہ اُن سے نبرد آزما ہونے کی کوششیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ شہباز شریف بہ طور ایڈمنسٹریٹر خامیوں سے مبرا نہیں، مگر دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے زیادہ فعال اور بااختیار ہیں۔ پھر پنجاب، ٹھیک بھٹو دور کے مانند، سیاسی طور پر ایک گرم محاذ ہے۔ مقابلے کی فضا ہے۔ وہاں برتری کے لیے اگلے انتخابات میں پی پی، تحریک انصاف اور ق لیگ پورا زور لگانے والی ہیں۔ ن لیگ بھی غافل نہیں۔ میاں صاحب کو آئندہ الیکشن اور پاناما کیس، دونوں کا ادراک ہے، اُنھوں نے وزرا کو اپنے حلقوں میں بڑے جلسے کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔
میری رائے میں پاناما کیس میں کسی ایسے فیصلے کی توقع رکھنا جو نظام الٹ دے، خوش فہمی کے زمرے میں آئے گی۔ ہاں، شریف خاندان اور ن لیگ کو دھچکا لگنا غیر امکانی نہیں۔ اس سے جوجھنے کے لیے ن لیگ اپنی کلی توجہ الیکشن پر مرکوز کر سکتی ہے۔ پی پی اور تحریک انصاف کی موجودہ مقبولیت اور منصوبہ بندی کو پیش نظر رکھا جائے، تو پنجاب میں ایک بار پھر ن لیگ فاتح کے طور پر ابھر سکتی ہے۔ الغرض انتخابی نظام پر پنجاب کی گرفت مضبوط رہے گی۔ جمود برقرار رہے گا۔ دیگر صوبوں میں احساس کمتری مزید بڑھے گا، اور ان صوبوں کی سیاسی جماعتیں اس احساس کمتری کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی رہیں گی۔
اس جمود کو توڑنے کی قوت فقط پنجاب کے پاس ہے!