منتخب کردہ کالم

بھٹو کا جیالا (زبان خلق) امجد بخاری

وہ روہانسی آواز میں بولا! صاحب لیڈر نظریات بدلتے ہیں‘ پارٹیاں بدلتے ہیں‘ کارکن تو اپنی قیادت اور نظریات سے جڑے رہتے ہیں اور نسل در نسل جڑے رہتے ہیں‘ میں نے اپنی زندگی پیپلز پارٹی کیلئے وقف کر دی ،دن دیکھا نہ رات، جنونی بن کر پارٹی کیلئے کام کیا، ہمیں جیالا کہلانے پر فخر رہا ۔بھٹو اور اس کے نظریات ہماری روح تھے جنہوں نے ہمیں جدوجہد کا حوصلہ دیا ۔میری اولاد بھی میری طرح جیالی ہے، بھٹو نے غریب آدمی کے اندر حق مانگنے کا جذبہ اور ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا کیا۔ استحصالی نظام کے خلاف کھڑے ہو جانے اور مزاحمت کرنے کی وہ شمع روشن کی جو کئی دہائیاں ہمارے لئے مشعل راہ رہی۔ یہ جذبہ ہی جیالے کا اثاثہ ہے، مزاحمت اس کا ہتھیار ہے اور استحصال سے پاک معاشرہ اس کا خواب ہے۔ وہ جس کی گھٹی میں لڑنا اور اپنے نظریے کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہو جانا ہے، اسے اب جو درس مل رہا ہے وہ نہ مجھ جیسے لوگوں کو ہضم ہو رہا ہے نہ ہماری نئی نسل کو لیکن ہم کہاں جائیں تم نے دیکھا! جب ہمارے کارکن نعرے لگا رہے تھے ایک زرداری سب پر بھاری تو ہمارے لیڈر نے کارکنوں کو روک کر تصحیح کی، ایک زرداری سب سے یاری۔ اب بھلا تم ہی بتاؤ ہم تو خود کو انقلابی سمجھتے ہیں۔ تحریک ہماری رگوں میں دوڑتی ہے، ہماری پہچان ہمارے مزاحمتی رویے ہیں جنہیں اب مفاہمت کا لیپ دیا جا رہا ہے، بھلا ہم کیسے سب کے یار ہو سکتے ہیں جبکہ ہماری پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کارکنوں کو آمادہ کر رہے ہیں کہ وہ نعرہ لگائیں ایک زرداری سب سے یاری ۔ہمیں تو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے یہی بتایا ہے کہ جو عوام کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے ہماری دوستی اور دشمنی کا معیار ہماری پارٹی کے بنیادی نظریات ہیں۔
اس نے ایک لمبی سانس لی اور کچھ توقف کے ساتھ بولا : حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا قول ہے کہ جس کا کوئی دشمن نہیں، اس کا کوئی نظریہ نہیں، ہمیں تو ہ تربیت ملی جس میں منافقت تو دور کی بات، لگی لپٹی بھی نہیں رکھی جاتی ۔تم نے کبھی پیپلز پارٹی کے اجلاسوں کو دیکھا ،جیالا کارکن بغیر خوف اور مصلحت اپنی بات کہتا ہے اور ڈٹ کر برملا کہتا ہے، وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے قیادت سے بھی نہیں گھبراتا ،جب ہماری بنیاد ہی سوشلسٹ انقلاب ہو اور محنت کشوں اور کچلے ہوئے طبقات کو استحصال سے نجات دلانا ہو تو اس کے لئے ہمیں یاریاں نہیں پالنی ،جدوجہد کرنا ہے، مزاحمت کرنا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تو آنکھیں نم تھیں چہرہ ایسا جیسے کئی راتوں کا جاگا ہو، غربت اس کی شخصیت سے ہی نہیں، اس کے گھر کے در و دیوار سے بھی ٹپکتی تھی لیکن اس نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ وقت گزارا تھا ،وہ بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اس نے اپنے لئے کچھ نہیں بنایا تھا، وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ عملی جدوجہد میں آگے آگے رہا، جلسے جلوسوں میں اس کی نشست پہلی قطار میں ہوتی تھی، پارٹی قیادت بدلتی گئی اور بتدریج اس کی قطار بھی بدلتی گئی، پچھلی قطار پھر اور پچھلی، بالآخر اسے سٹیج سے اتار کر سامنے والی صفوں میں پہنچا دیا گیا لیکن وہ اپنے نظریے سے جڑا رہا۔ قطاریں بدلتے بدلتے وہ اپنے گھر تک محدود ہو گیا کیونکہ اب اس کے جسم میں توانائی تھی نہ بدلے حالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کا حوصلہ۔ اب اس کی اطلاعات کا ذریعہ ٹی وی تھا لیکن جو کچھ اس نے سکرین پر دیکھا اس سے بہت دل گرفتہ تھا۔ شاید صدمے کی کیفیت میں لیکن وہ پھر بھی اپنی جماعت سے جڑا ہوا تھا، آزردہ تھا لیکن شکوے شکایات کی بنیاد پر اپنی پارٹی سے الگ ہونا اسے گوارا نہیں تھا ۔وہ خود کو 4 دہائیوں کے بعد بھی لیڈر کی بجائے کارکن کہلوانے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ اس کے پاس بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قربت کی لاتعداد تصویریں تھیں اور ان گزرے لمحات کی خوشگوار یادیں، ماحول بوجھل ہو گیا تھا۔ اس نے اٹھ کر سامنے والی کھڑکی کھول دی، تازہ ہوا نے دھیرے سے کمرے میں تازگی بکھیر دی۔ کرسی پر واپس نیم دراز ہوتے ہوئے وہ پھر بولا اپریل کا مہینہ آتا ہے تو اپنے ساتھ بھٹو کی یاد لے آتا ہے ہمارا لیڈر آمریت کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو
گیا اس کی بیٹی نے عوام کیلئے جدوجہد کر کے جان گنوا دی اس کے کئی ساتھی اس جنگ میں مارے گئے، بہت سے اپنے جسموں پر آج بھی زخموں کے نشان لئے پھرتے ہیں، ہمیں کوئی پشیمانی نہیں ہے بلکہ اپنے اور اپنے لیڈروں کی زندگی پر فخر ہے لیکن اب کے جو حالات ہیں، ان سے ڈر لگتا ہے ،وار ہمارے نظریات پر ہے ہم سے ہمارا اثاثہ چھنتا نظر آتا ہے، تم ذرا غور کرو جس مفاہمت اور دوستانہ رویوں کو ہماری قیادت فخر سے بیان کرتی اور سینہ تان کر اظہار کرتی ہے اس مفاہمت سے تو ہماری شہادتیں متضاد ہیں۔ وہ سب یہ مفاہمتیں کر کے خود کو بچا سکتے تھے، عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے استحصالی قوتوں کے ساتھی ہو سکتے تھے ،کچھ وقت کیلئے دشمنوں کو دوست بنا کر ہموار لمحوں کا انتظار کر سکتے تھے لیکن کوئی بھی اس کے لئے راضی نہیں ہوا ایک لمحے کیلئے بھی راضی نہیں ہوا۔ آج اگر اپنی قیادت کے رویوں سے میں رنجیدہ ہوں تو ذرا اندازہ کرو اس جماعت کو بنانے والوں کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی وہ جنہوں نے لاہور میں ڈاکٹر مبشر کے گھر اکٹھے ہو کر کچھ نظریات سامنے رکھ کر اس پارٹی کو تشکیل دیا ہو گا ان کے خواب و خیال میں بھی آج کے حالات نہیں ہوں گے یہ جو کرپشن کا اتنا غوغا ہے، بھلا کس کے گمان میں ہو گا ایک ہماری وہ قیادت تھی جس کا ہتھیار مزاحمت تھی اور ایک ہماری یہ قیادت ہے جس کا انحصار مفاہمت پر ہے
اور وہ بھی ایسی مفاہمت جس میں دوست دشمن کی تحقیق ہی نہ ہو، ہماری قیادت نے پورے ایک دہائی سے اسی مفاہمتی انداز کو اپنایا اور پھر پیپلز پارٹی کو اس کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
انہی مفاہمتی رویوں نے پاکستانی جمہوریت میں کئی برسوں سے حکومت اور اپوزیشن کا فرق ہی مٹا دیا ہے اب عوام حکومت کے رویوں اور انداز حکمرانی کا کیا رونا روئیں، ان سے تو اپوزیشن بھی چھین لی گئی اور ہماری قیادت اس پر نادم تو کیا متفکر بھی نہیں اور مستقبل میں بھی انہی رویوں پر کاربند رہنے کی نویدیں سناتی ہے۔ آمریت سے بچنے اور عوام کو بچانے کے لئے مفاہمت کا جو جواز ہماری موجودہ قیادت دیتی ہے، بھلا اس سے ہم جیسے بنیادی کارکن کس طرح مطمئن ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ضمیر میں لڑنا ہے حق کیلئے لڑنا انصاف کیلئے لڑنا ایسے حالات میں ہم کدھر جائیں، پارٹی اجلاسوں میں جاؤں تو مزید تکلیف ہوتی ہے، گھر بیٹھے ایسی خبریں اور اطلاعات ملتی ہیں تو بے چین ہو جاتا ہوں بھٹو تو پھانسی چڑھ گئے لیکن ہم ان کے نظریے کو نہ سنبھال پائے لیکن میں مایوس نہیں کیونکہ جس پارٹی کی بنیادیں مضبوط ہوں جسے خون سے سینچا گیا ہو اور جس کا جان دینے والے کارکن ہر طرف پھیلا ہو، وہ کمزور ہونے کے باوجود بڑی سیاسی پارٹی ہے ملک کا سرمایہ ہے اور عوام کے حقوق کی ضامن ہے۔ وہ کرسی پر تقریباً لیٹ چکا تھا اچانک اٹھ بیٹھا چہرہ میرے قریب لاتے ہوئے بولا یہ جیالا مایوس ضرور ہے لیکن مستقبل سے ناامید نہیں۔ بلاول نے جب اپنے لہجے میں للکار پیدا کی تو ہمارے دل گرما دئیے تھے ہم کل بھی جیالے تھے آج بھی جیالے ہیں اور کل بھی رہیں گے جیالا زندہ ہے تو بھٹو کا نظریہ زندہ ہے۔