منتخب کردہ کالم

بہار میں خزاں کی امید (حرف ناز) نازیہ مصطفیٰ

قدیم اساطیر میں ہے کہ ہزاروں سال پہلے اطالیہ کے وسطی علاقے میں سابین نامی ایک قوم آباد تھی۔ سابین کے مرد دنیا بھر میں سب سے زیادہ وجیہ اور خواتین دنیا بھر میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین سمجھی جاتی تھیں۔ سفید دودھیا رنگت، گلابی ہونٹ، ستواں ناک، بلوریں آنکھیں، تیکھے نقوش، صراحی نما گردنیں، چوڑھے چکلے شانے اور دراز قامت سابین مردوں اور عورتوں کی یکساں علامات سمجھی جاتی تھیں۔ رومیوں نے اپنی آبادی بڑھانے کیلئے ”سابین‘‘ قوم کی خواتین کو زبردستی اغوا کرکے شادیاں رچانا شروع کر دیں۔ اس کھلے ظلم پر کمزور سابین کچھ بھی نہ کر سکے اور یوں یہ سلسلہ ایک عرصہ تک چلتا رہا۔ اس دوران اغوا ہونے والی سابین خواتین رومیوں کی کئی کئی اولادوں کی مائیں بن گئیں۔ یہ سلسلہ جب اپنی انتہا کو پہنچ گیا تو سابین نے ہمت کرکے رومیوں پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں رومی بادشاہ نومیتر کے جڑواں بیٹوں ”رومولس‘‘ اور ”ریمس‘‘ نے اہلِ سابین کو میدان جنگ میں شکست دے کر قتل عام شروع کر دیا۔ قدیم اساطیر (Mythology) میں ہے کہ اِس موقع پر سابین نے اپنے دیوتا ”جینس‘‘ کو مدد کیلئے پکارا۔ جینس سابین کی مدد کو پہنچا اور میدان جنگ کو جوالہ مکھی بنا دیا۔ جوالہ مکھی کے لاوے کی زد میں آ کر رومولس کی فوج زندہ جلنا شروع ہو گئی۔ اس ہلاکت خیز جنگ میں ایک جانب لڑنے والے سابین خواتین کے باپ تھے تو دوسری جانب سے لڑنے والے اُن کے بچوں کے باپ تھے۔ سابین کی اغوا شدہ خواتین نے دونوں طرف سے اپنے ”پیاروں‘‘ کی موت کا منظر دیکھا تو اُن سے رہا نہ گیا‘ اور اپنے بچوں سمیت وہ بھی میدان جنگ میں کود پڑیں۔ اساطیر میں ہے کہ سابین خواتین نے اپنے دیوتا ”جینس‘‘ سے جوالہ مکھی کی ہلاکت خیزی روکنے کی درخواست کی۔ سابین خواتین نے
عہد کیا کہ اگر یہ ہلاکت خیزی رک گئی تو وہ دونوں اقوام (سابین اور رومیوں) کے درمیان ایسا امن قائم کرائیں گی، جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہ مل سکے۔ کہا جاتا ہے کہ سابین خواتین کے اِس عہد پر ایک جانب سے آتش فشاں کا عذاب ٹل گیا تو دوسری جانب سے ہلاکت خیزی بھی رُک گئی، جس کے بعد اُنہی اغوا شدہ سابین خواتین نے اپنے باپوں (سابین قوم) اور اپنے بچوں کے باپوں (رومیوں) کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سابین نے ایک کیلنڈر تیار کر رکھا تھا، جس میں اُنہوں نے پہلے تقویمی مہینے کو اپنے دیوتا ”جینس‘‘ کے نام پر جنوری قرار دیا تھا، جب دونوں اقوام کے درمیان امن معاہدہ ہو گیا تو معاہدے کے دن سے یکم جنوری کا آغاز کرکے سابین نے کیلنڈر کو از سرِ نو مرتب کیا۔ اِس امن معاہدے کے مطابق رومیوں نے سابین کا تیارکردہ کیلنڈر اپنا لیا اور سابین قوم کے جوانوں نے رومی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ معاہدہ دراصل دنیا میں نئے سال کے آغاز پر کیا جانے والا سب سے پہلا عزم بھی کہلاتا ہے، اسی عزم اور اس عزم پر عملدرآمد کے نتیجے میں رومی دنیا کی عظیم طاقت بنے‘ صدیوں تک رومیوں کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا رہا اور ان کے سامنے دوسری کوئی طاقت کھڑی نہ ہو سکی۔
اس میں کچھ شبہ نہیں کہ مشکلات، مصائب، امتحانات، تکالیف اور چیلنجز قوموں کی راہ میں سنگِ میل کی طرح آتے ہیں‘ اور گزر جاتے ہیں، لیکن ہر سنگِ میل دراصل منزل کے مزید قریب تر ہونے کا سندیسہ بھی دے جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہر نیا موسم بھی تو ایک سنگِ میل کی طرح ہی ہوتا ہے، جس میں منزل مزید قریب تر ہوتی چلی جاتی ہے، لیکن شرط صرف اتنی ہوتی ہے کہ سفر درست سمت میں شروع کیا گیا ہو‘ ورنہ اگر سفر ہی اُلٹ سمت میں جاری ہو تو ہر سنگِ میل منزل سے مزید دوری کی علامت بنتا چلا جاتا ہے۔ 2017 کا جنوری اور فروری گزرے بھی کئی دن ہو چکے ہیں، موسم خزاں ختم ہونے کے بعد اب موسم بہار بھی اپنے جوبن پر آ رہا ہے، لیکن یہاں سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ نئے موسم بہار میں ہم منزل سے قریب تر ہو رہے ہیں یا ہم اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں؟ یہ جاننا کچھ مشکل بھی نہیں۔ موسم خزاں کا سارا دفتر اور ساری میزان ہمارے سامنے ہے۔ جی ہاں! 2016ء کے آخر سے شروع ہونے والے موسم خزاں کی حکمرانی ختم ہوتے ہی گزشتہ سال اور پچھلے موسموں کی ساری ہنگامہ آرائیاں، حشر سامانیاں، ہلاکت خیزیاں اور ساری وحشتیں بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ پچھلے موسموں میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا لٹوا بیٹھے اور کیا باقی بچا ہے؟ کیا کچھ چھوٹ گیا اور کیا کچھ پسِ انداز کیا جا سکا؟ یہ سب کچھ اب گزرے موسموں کی تاریخ بن چکا ہے۔ ابھی تو 2017ء کے عنوان سے اس سال کے روشن سورج کی سنہری کرنیں زمین پر اترتے صرف سوا دو ماہ ہوئے ہیں۔ آنے والے پونے دس ماہ ابھی منتظر ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی ہے؟ اور کیا پالیسی بنائی گئی ہے؟ موسم بہار سے شروع ہونے والے اگلے سفر کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ ہاتھ میں قلم لے کر یہ نوٹ کرنے بیٹھ گیا ہے کہ یہ قوم آئندہ کے لیے کیا عہد اور کیا عزم کرتی ہے؟ آنے والے مہینے یہ جاننے کیلئے بے چین ہیں کہ یہ مسافت طے کرنے کیلئے کتنا زادِ راہ اکٹھا کیا گیا ہے؟
قارئین محترم! کیا ہم ہزاروں برس پہلے گزرنے والی سابین اور رومی اقوام سے بھی گئے گزرے ہیں کہ ایک عزم اور ایک عہد کرکے ایک نئے دور کی بنیاد نہیں رکھ سکتے؟ یقینا ایسا نہیں ہے، بلکہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ گزشتہ برس کی میزان میں ہمارے حصے میں خسارے کے سوا کچھ نہیں آیا تو ضروری نہیں کہ اس سال بھی ہمارا دامن خالی ہی رہے۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ گزشتہ برس کے آخر میں ایک عزم کیا گیا کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کرایا جائے گا۔ لاہور میں پی ایس ایل فائنل کرانے کے اعلان کے ساتھ ہی اس پر دھماچوکڑی مچ گئی۔ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں نے اِس کی اتنی مخالفت کی کہ پی ایس ایل کے فائنل پر آخری لمحے تک لاہور میں دھماکہ ہونے کی امید کرتے رہے تاکہ اُن کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہو جائے اور اُنہیں اپنے مخالفین پر انگلیاں اٹھانے کا موقع مل سکے۔ لوگوں کے گھروں کی چراغ بجھنے کی امید رکھنے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ موسم بہار ہے، جس میں ہر طرف اور ہر صورت صرف اور صرف پھولوں کو کھلنا ہوتا ہے! بھلا بہار کے موسم میں شاخوں پر پھول کھلنے اور برگ و بار آنے کی جگہ پت جھڑ کا موسم مہکنے کی امید کیسے پوری کی جا سکتی تھی؟ کاش موسم بہار میں اس طرح کا منفی عزم کرنے والوں نے قوم سابین سے ہی کوئی سبق سیکھا ہوتا؟