منتخب کردہ کالم

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا … ہارون الرشید

ہتھیلی

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا … ہارون الرشید

مسئلہ فقط غربت اور ناخواندگی نہیں ۔ قانون کی حکمرانی اور اس سے زیادہ اپنی مثال سے رہنمائی ہے۔ انسانی کردار کی تشکیل آسان نہیں ۔ ایک ایک دھاگا پرونا پڑتا ہے۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
گاہے بالکل سامنے کی سچائی کو آدمی پا نہیں سکتا ۔ اس کا اپنا اندازِ فکر ، اس کے تعصبات ہمالیہ ایسی رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ اہلِ علم اسی کو حجاب کہتے ہیں۔
مدتوں احمد پور شرقیہ کا المناک حادثہ یاد رکھا جائے گا۔ پورا ملک ہی محروم اور مفلس ہے مگر اندرونِ بلوچستان اور دیہی سندھ کی طرح جنوبی پنجاب اور بھی زیادہ ۔ وڈیروں ، سرکاری افسروں اور موقع پرست سیاسی لیڈروں کے رحم و کرم پر۔
حبیب جالبؔ کے اشعار پڑھنے مگر روایتی ہتھکنڈوں سے حکومت کرنے والے شہباز شریف کا فرمان ہے کہ یہ ستر برس سے چلی آتی غربت اور کرپشن کا کرشمہ ہے ۔ کیا واقعی ؟ کیا فقط خواندگی اور معاشی آسودگی معاشروں کو اخلاقی رفعت عطا کر سکتی ہے ؟ ہم عصر دنیا اور تاریخ اس کی تردید کرتی ہے۔
سوڈان میں جرائم کی شرح پاکستان سے کہیں کم کیوں ہے ، اقتصادی طور پر جو فرو تر ہے ، خانہ جنگی اور عالمی استعمار کا شکار۔ روزمرہ قتل ، ڈکیتی ، اغوا اور دہشت گردی کے واقعات وہاں کیوں رونما نہیں ہوتے ؟ پولیس ایسی سفاک اور عدالتیں بے نیاز کیوں نہیں؟ جمہوریت بھی برائے نام ہے کہ دو عشروں سے ایک جنرل برسرِ اقتدار چلا آتا ہے۔
اٹھارہ برس ہوتے ہیں ، دریائے نیل کے کنارے خرطوم کے ایک سنار سے سونے کی دو چھوٹی چھوٹی بالیاں اور چاندی کی دو انگوٹھیاں خریدیں۔ انگوٹھیوں کی قیمت خاص طور پہ بہت کم تھی ، پاکستان سے پچیس فیصد ۔ گائیڈ سے ، جو یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا، پوچھا: کیا کھوٹ تو نہیں اس میں ؟ حیرت سے وہ دیکھتا رہا اور پھر اس نے کہا : نہیں ، یہ تو ممکن نہیں ۔ اگر ایسا وہ کرے تو پکڑا جائے اور سزا پائے۔
قانون کی حکمرانی اور اقدار کی پاسداری وہ ماحول تخلیق کرتی ہے، جرم جس میں پنپ نہیں سکتا۔ صرف سزا ہی نہیں ، معاشرے میں تذلیل کا خوف ہی جرائم کا سدّباب کرتا ہے ۔ قانون کی گرفت آسودہ معاشروں میں بھی ٹوٹ جائے تو مجرم بے خوف ہو جاتے ہیں ۔ پچھلی صدی کے آخری عشرے میں نیو یارک کا ہارلم اس کی مثال تھا‘ دن کی روشنی میں بھی عام لوگ جہاں جاتے ہوئے گھبرایا کرتے ۔ ریاست آخر بروئے کار آئی ۔ جیولانی نام کا ایک میئر منتخب ہوا تو نوسربازوں ، لٹیروں اور ٹھگوں کے لیے اس نے پوری باز پرس، (Zero tolerance) کا اعلان کیا ۔ اعلان ہی نہیں ، جس طرح کہ خادمِ پنجاب تھانوں ، تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے لیے آئے دن کیا کرتے ہیں ، عمل بھی ۔ پرانا ہارلم اب تاریخ کا حصہ ہے۔
زیادہ تر سیاہ فام باشندے ملوث تھے ۔ تعلیم سے محروم ، گوری آبادی کے غلبے پر نا خوش و ناراض ۔ افریقی باشندوں میں اسلام کے فروغ نے بھی جرائم کے سد باب میں ایک کردار ادا کیا۔ بار بار مقامی حکومتوں نے اس کا اعتراف کیا۔ عالی جاہ محمد کے ساتھ مصروفِ عمل چترال کے شیر محمد نے 1983ء میں مجھے بتایا : ان میں سے جب کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو منشیات سے توبہ کر لیتا ہے ، آوارگی سے بھی ۔ پانچ سو کلومیٹر سے بھی اگر کسی کی رفیق پیچھا کرتے ہوئے پہنچتی ہے تو وہ ڈٹا رہتا ہے ” میں اب مسلمان ہو چکا ہوں ‘‘۔ ان کے لیڈر ان کے لیے مثال تھے، ہمارے مذہبی رہنمائوں جیسے نہیں ، جو فقط خطاب کے خوگر ہیں۔ تضادات کے مارے ۔ بعض تو ایسے کہ گھن آتی ہے۔ اگر کوئی تنقید کی جسارت کرے تو منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے ان کے کارندے آپ پہ پل پڑتے ہیں۔ خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ کے مارے ہوئے لوگ۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے : اتنا قرآن وہ پڑھیں گے کہ تم (اصحابؓ) نہیں پڑھتے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
ایسے ہی کاروباری لوگ ہیں ، ایسے ہی دانشور اور ایسے ہی سیاسی لیڈر۔ سیاسی قیادت پہ تنقید زیادہ ہوتی ہے ، دوسروں کا خیال ہمیں کم آتا ہے ۔ مل جل کر وہ معاشرے اور ترجیحات کی تشکیل کرتے ہیں ۔
رلا دینے والا سہی مگر آخر کار یہ ایک حادثہ تو ہے ۔ اتفاق سے پٹرول کا ایک ٹینکر الٹ گیا۔ آس پاس کی بستیوں کے مفلس لوگ تیل پر پل پڑے کہ ان کی کوئی تربیت نہیں ۔ تربیت کرنے والے مفکرین کرامِ علما اور لیڈروں کو اپنی ذات ہائے گرامی ہی سے کبھی فرصت نہیں ملی۔ اغلب یہ ہے کہ کسی نے سگریٹ سلگایا اور جہنم زار تخلیق ہو گیا ۔
ہر حادثے میں ایک سبق ہوتا ہے ۔ غور کرنا چاہیے اور اللہ توفیق دے تو زیادہ گہرائی میں ۔ تکلیف دہ ہو گا مگر غور کیجیے کہ انگریز کی حکومت ہوتی تو کیا ہوتا؟ ظاہر ہے کہ بروقت پولیس پہنچتی اور مقامی افسر، شاید بلدیاتی نمائندے اور سیاسی لیڈر بھی۔ اگر یہ پچاس اور ساٹھ کے عشرے کا پاکستان ہوتا تو شاید تب بھی۔ کوئی ڈی ایس پی، کوئی اسسٹنٹ کمشنر یا شاید ڈپٹی کمشنر ۔ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پٹرول کی آگ کیسی خوفناک ہوتی ہے ۔ عارضی باڑ ارد گرد نصب کر دی جاتی، دو چار پولیس والے متعین کر دئیے جاتے ۔
انتظامیہ غیر فعال ہوتی گئی ہے۔ بلدیاتی ادارے تو کبھی فعال تھے ہی نہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور بے بس ہوتے گئے۔ شریفوں کی حکومت میں اور بھی کہ فقط میاں محمد نواز شریف اور جناب شہباز شریف دکھائی دیں ۔ بد دلی جب پھیلتی چلی جاتی ہے تو گھن کی طرح انتظامیہ کو کھا جاتی ہے ۔ بد دلی کا شکار ہو کر لوگ بے عمل ہوتے چلے جاتے ہیں ، لا تعلق، بیزار اور قسمت کے رحم و کرم پر جینے والے۔
لندن اور نیو یارک ہی نہیں ، دبئی ، خرطوم اور کوالالمپور میں بھی کانسٹیبل کی پشت پہ ریاست کارفرما نظر آتی ہے ۔ کوئی پھنے خان اخبار نویس ہو ، وکیلوں کا کوئی لیڈر ، کوئی سیاستدان یا حاکم ، ٹریفک سگنل توڑے تو بچ کر نکل نہیں سکتا۔ حمزہ شہباز ایسے شہزادوں کا تو ذکر ہی کیا ، ایم این اے ، ایم پی اے یا با رسوخ اخبار نویس کی راہ بھی ہمارا کوئی کانسٹیبل روک سکتا ہے ؟
مثالیں ذہن میں ابھر رہی ہیں مگر میں گریز کرتا ہوں ۔ حکمران پارٹی کے دانشور پاگل ہو رہے ہیں اور ان کے حریف بھی ۔ ان سے زیادہ میڈیا سیل۔ ادھر کوئی بات ناپسند ہوئی، ادھر گالیوں کی بوچھاڑ شروع ۔
عمر ابن خطابؓ کے بارہ سالہ سنہری دور میں، پانچ سال قحط کے تھے۔ لوٹ مار کے کتنے واقعات اس دور میں رونما ہوئے؟ چھوٹی سی بچّی چلی جاتی تھی ۔ امیرالمومنینؓ نے پوچھا : کون ہے یہ ؟ سننے والے دنگ رہ گئے ۔ کہا: آپ کی پوتی ہے امیر المومنین۔ کم خوراکی نے اس کا چہرہ بدل ڈالا تھا۔
مسئلہ فقط غربت اور ناخواندگی نہیں ۔ قانون کی حکمرانی اور اس سے زیادہ اپنی مثال سے رہنمائی ۔ انسانی کردار کی تشکیل آسان نہیں ۔ ایک ایک دھاگا پرونا پڑتا ہے۔
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے