بہت کام رفو کانکلا….نسیم احمد باجوہ
مصحفی ؔسے میرا پرانا تعارف ہے۔ میری اُردو ادب کی تاریخ سے واجبی واقفیت ہے‘ پھر بھی میں اپنے آپ کو مصحفیؔ کے مداحوں میں شمار کرتا ہوں۔ غالبؔ‘میر تقی میرؔ‘ مومنؔ‘ سودا ؔاور انیسؔ و دبیرؔ جیسے بڑے شاعروں کا ہم عصر ہونے کی وجہ سے مصحفیؔ کو وہ شہرت نہ مل سکی جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ باقاعدگی سے بادام کھانے کے باوجود مجھے ان کا صرف ایک شعر یاد ہے‘ جو تقریباً 60 سال پہلے پڑھا تھا۔
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
اس شعر کا دوسرا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا۔مصحفی کی توجہ اپنے دل پر مرکوز تھی اور کالم نگار کی وطن عزیز کی ہر لحظہ بگڑتی معاشی حالت پر۔ کمال کی بات ہے کہ ہم صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات کے جھمیلے سے گزر رہے ہیں‘ مگر کوئی بھی سیاسی جماعت نہ معاشی مسائل کا ذکر کرتی ہے اور نہ ان کا حل بتاتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ایک بھی ماہر معیشت نہیں۔ کوئی بھی سیاسی راہنمابہترین ماہرین معیشت سے رابطہ کرنے‘ ان سے صلاح مشورہ کرنے اور ان کی راہنمائی میں اپنا معاشی پروگرام مرتب کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتا۔ ملاقات تو کجا‘ لگتا ہے کہ ان کے پاس ماہرین کے فون نمبر بھی نہیں ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس دانشوروں اور معاشی ماہرین کا مشاورتی ادارہ (Think Thank) نہیں ہے اور نہ کبھی تھا۔ فوجی آمروں نے کم از کم یہ توکیا کہ ڈاکٹر محبوب الحق جیسے لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا۔ ایوب خان نے غلام فاروق کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر صنعتی ترقی کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچادیا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم‘پھر ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو مرحوم اور اب نواز شریف صاحب‘ سارے کے سارے عوام دوست معاشی ماہرین کے مشوروں سے محروم تھے اور بدترین معاشی پالیسی ہی ان کی ناکامی کی بڑی وجہ بنی۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس کمال کے معاشی ماہرین ہیں۔ وہ کتابیںاور کالم لکھ کر اپنی بے حد قیمتی رائے بھی ظاہر کرتے رہتے ہیں مگر نقار خانہ میں طوطی کی آواز کو کوئی سیاسی جماعت نہیں سنتی ۔ میرے ذہن میں چند معاشی معاہرین کے نام ستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ شاہد جاوید برکی اورعابد حسن (یہ دونوں ورلڈ بینک کے سابق عہدے دار ہیں) ‘ ڈاکٹر عشرت حسین‘ ڈاکٹر محمد یعقوب‘ ڈاکٹر شمشاد اختر (یہ دونوں سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ہیں) اور یقینا اور بھی معاشی ماہرین ہوں گے۔ سال میں دو تین بار ایک دن کے لئے میں جب بھی کراچی جائوں تو ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی صاحب کے گھر بن بلایا مہمان بن کر پہنچ جاتا ہوں ۔ نہ پرانی جان پہچان‘ صرف ہم خیالی کا رشتہ‘ مگر اس سے زیادہ مضبوط رشتہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ وہ اس محبت سے ملتے ہیں اور میرے ناقص علم میں اتنا اضافہ کرتے ہیں کہ میں لندن واپس آتے ہی ان سے دوبارہ ملاقات کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے حال ہی میں ایک اور کمال کا مضمون لکھا عنوان تھا ”کب راج کرے گی خلق خدا‘‘ فیض صاحب
(جنہوں نے یہ مصرع لکھا)‘ یہی سوال اُٹھاتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ خدا نہ کرے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے مداح (جن میں یہ کالم نگار سر فہرست ہے)‘ بھی یہی سوال دہراتے جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں۔ پاکستان بنانے کا ایک ہی مقصد تھا کہ خلق خدا کا وہ حصہ جو ہندوستان میں مسلم اکثریت کے صوبوں میں رہتا تھا‘ اسے اپنے اوپر خود راج کرنے کی نعمت دلوائی جائے‘ قوت ِاخوت ِعوام کے توسط سے ۔ دنیا میں سب ممالک کی تعداد گنی جائے تو 185 کے قریب بنتی ہے‘ سب کا اپنا اپنا ترانہ ہے‘ مگر حفیظ جالندھری نے ہمارا جو ترانہ لکھا وہ اس لحاظ سے ساری دنیا میں فقید المثال ہے کہ ہمارا منشور‘ ہمارا نصب العین اور ہمارے آدرش بڑی فصاحت اور بلاغت سے بیان کر دئیے گئے ہیں۔ صرف سکول کے بچوں کو نہیں ہر پاکستانی کو اپنے دن کا آغاز اپنا ترانہ سن کر کرنا چاہئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک عہد نامے پر دستخط کریں جس کے نکات میں معیشت کو دستاویزی بنانا‘ کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا‘ ناجائز رقوم سے ملک کے اندر موجود اثاثوں کو ٹیکس معافی (Amnesty) دینے کی بجائے ان پر ٹیکس اور سرکاری واجبات وصول کرنا‘ ہر قسم کی آمدنی کو ٹیکس کے دائرہ میں لانا‘ جی ایس ٹی کی شرح کو 5 فیصد کرنا‘ پٹرولیم لیوی ختم کرنا اور جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7 فیصد مختص کرنا لازماً شامل ہوں۔ ان اقدامات کے بغیر معیشت اور عام آدمی کی حالت میں بہتری اور قومی سلامتی کا تحفظ ممکن نہیں ۔
برطانوی ہفت روزہ جریدہ دی اکنامسٹ نے اپنی 16 جون کی اشاعت میں پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی پر جو بہت اچھا مضمون لکھا‘ اس کا عنوان تھا’In need of re-stitching‘ (یعنی رفو گری کی ضرو رت)۔ 1918 ء میں برطانوی راج کی فوج کے ایک انگریز افسر کو اپنے ادھڑے ہوئے فٹ بال کی مرمت کی ضرورت پیش آئی تو وہ اسے سیالکوٹ میں ٹینس ریکٹ اور کرکٹ بیٹ بنانے والے کاریگروں کے پاس لے گیا۔ انہوں نے نہ صرف اس فٹ بال کی مرمت کرکے اسے قابلِ استعمال بنا دیا بلکہ ایک نئی صنعت کی بنیاد بھی رکھ دی۔ اس سال کے پہلے تین دنوں میں سیالکوٹ کی ڈرائی پورٹ سے کھیلوں میں استعمال ہونے والے جو گیند برآمد کئے گئے ان کا وزن 920 ٹن تھا۔ اس سال روس میں ہونے والے فٹ بال کے ورلڈ کپ کھیلنے والوں میں ہماری ٹیم شامل نہیں تھی مگر ورلڈ کپ میں استعمال ہونے والے سارے کے سارے فٹ بال سیالکوٹ میں بنائے گئے تھے۔
اکنامسٹ کی ماہرانہ رائے میں معاشی بحران کی بڑی وجہ گھٹتی ہوئی برآمدات (سیالکوٹ میں بنائے گئے سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کی اچھی برآمد کے باوجود) اور بڑھتی ہوئی درآمدات ہیں۔تیل اور اس کی مصنوعات کی درآمد کے بڑھتے ہوئے بِل نے اونٹ کی کمر پر تنکا نہیں بلکہ بھاری درخت رکھ دیا ہے۔ جاری اکائونٹ (Current Account) کا خسارہ ہماری کل قومی پیداوارکا5.3 فیصد ہو گیا ہے جو نہ صرف خطرناک حد تک زیادہ ہے بلکہ تشویش ناک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روپے کی قدر تیزی سے گرتی جا رہی ہے‘ جس کی وجہ سے مہنگائی بھی اسی تناسب سے بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف جون کے مہینہ میں روپے کی قدر 5 فی صد کم ہوئی ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر دو سال پہلے 19 ارب ڈالر تھے جو اب گھٹ کر صرف دس ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ سٹینڈرڈ چارٹر بینک کے بلال خان کے تجزیہ کے مطابق اگر حساب لگایا جائے کہ پاکستان نے ڈالر میں کتنی رقم ادا کرنی ہے اور ڈالر میں کتنی رقم وصول کرتی ہے تو ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر لکیر سے نیچے یعنی منفی ہیں‘غالباً اکائونٹنسی کی زبان میں اسے دیوالیہ ہونا کہتے ہیں۔پاکستان کے جب بھی دیوالیہ پن کی دہلیز تک پہنچا‘ اس کی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنے آپ کو وقتی بحران سے بچا لیا۔ اس بار ہم نے آئی ایم ایف کی بجائے چین سے تین ارب ڈالربھاری سود پر قرض لئے ہیں تاکہ واجب الادا قرضوں کی قسط ادا کر سکیں۔
اسحاق ڈار پورے پانچ سال سابق وزیراعظم (میاں نواز شریف) کے دور میں ہمارا وزیر خزانہ رہا‘ وہ ہمارے اوپر کئی ارب روپے کے قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دینے کا ذمہ دار ہے اوراب جعلی بیماری کا بہانہ بنا کر یہاں مجرموں کی طرح لندن کی جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب جانتے ہیں کہ اسحاق ڈار کو برطانیہ سے پاکستان لے جانا دو ڈیم بنانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے‘ مگر کتنا اچھا ہو کہ ہم نہ صرف دو ڈیم بنا لیں بلکہ اسحاق ڈار کو بھی کٹہرے میں کھڑا کریں۔
اب آیئے اپنے موجودہ بحران پر غور کریں۔ چین سے لئے جانے والے قرضے ہم چین کی مصنوعات کو درآمد کرنے پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت قرض کی مے پینے میں اپنی پیش رو پر بازی لے جاتی ہے مگر یہ نہیں جانتی (جو غالب یقینا جانتے تھے) کہ ہماری یہ مہلک غلطی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارا روم جل رہا ہے اور ہمارا ہر Neru (روم کا حکمران) بنسری بجا رہا ہے۔ اس کا صرف ایک علاج ہے ہم اپنی بند آنکھیں کھولیں۔ زخموں سے چور دل کو دیکھیں‘ رفو گری کی طرف توجہ دیں‘ فوری توجہ‘ زیادہ سے زیادہ توجہ۔ بہت سا خون بہہ چکا ہے‘ جوباقی رہ گیا ہے اسے بچا لیں۔ ہمارے دل میں صرف ایک زخم نہیں‘ اس لئے رفو گری کا بہت کام کرنا ہوگا۔