بیانیہ تو آزاد ہے!…خورشید ندیم
نواز شریف قید میں ہیں، لیکن ان کا بیانیہ نہیں۔ اس کی بازگشت شہر شہر اور قریہ قریہ سنی جا رہی ہے۔
پنجاب کے وزیرِ قانون نے شہباز شریف صاحب کے خط کا جواب لکھ دیا۔ میں پڑھ کر ششدر رہ گیا۔ اگر نگران حکومت کے بارے میں، کوئی غیر جانب داری کا گمان رکھنا بھی چاہے تو یہ خط اس کی راہ میں کھڑا ہو جائے گا۔ الفاظ کا انتخاب اور لہجہ دیکھیے: ”سابق حکومت نے جیلوں میں جو غسل خانے دیے، ہم وہی دے سکتے ہیں… شریف خاندان دس سالہ حکومت میں حالات کیوں بہتر نہ بنا سکا؟ سابق حکومت نے جیل کے غسل خانوں کو کیوں ٹھیک نہیں کیا؟‘‘ شہباز شریف صاحب کو ایسی درخواست کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ مریم نواز نے پسِ دیوارِ زنداں بھی اپنے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ ان کا وکیل عدالت کے علم میں لے آتا اور پھر اسے عدالت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا۔ یہ مقدمہ صرف نواز شریف کا امتحان نہیں ہے۔ عدلیہ، ریاست اور حکومت بھی معرضِ امتحان میں ہیں۔
آج انتخابات کی شفافیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مسلم لیگ کے امیدواروں کو ایک نہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ کچھ رکاوٹیں گفتنی ہیں، مثال کے طور پر مخالف سیاسی جماعت کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی۔ کچھ ناگفتنی، جیسے… خیر چھوڑیے، ایک زرعی ملک میں ان کی تو مثال بھی نہیں دی جا سکتی۔ مختصر یہ کہ انتخابات ایک نئے بحران کا دروازہ کھولتے دکھائی دیتے ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ اہلِ سیاست کو بھی اس کا اندازہ نہیں۔ تحریکِ انصاف کا مزاج تو سرے سے سیاسی نہیں‘ مگر پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام بھی اس احتیاط سے قدم رکھ رہے ہیں کہ جیسے کسی کی آنکھ کھل جانے کا اندیشہ ہو۔ بلاول بھٹو نسبتاً بہتر سیاسی شعور کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اہلِ سیاست کے مابین ایک نئے میثاق کی بات کی ہے۔ میرے نزدیک اس تجویز کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے اہلِ سیاست کی طرف رجوع ہے۔
ہمیں آج سب سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا ہے کہ سیاسی مسائل کسی ریاستی یا غیر ریاستی ادارے نے حل کرنے ہیں۔ سیاسی مسائل کو بالآخر سیاست دانوں ہی نے حل کرنا ہے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کسی اور سے حل چاہنا ایسا ہی ہے جیسے ایک جسمانی مرض کے علاج کے لیے تمام ڈاکٹر اور حکیم صاحبان کو نظر انداز کرتے ہوئے، مریض کو واپڈا والوں کے سپرد کر دیا جائے۔
اہلِ صحافت کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنا دماغی اور جذباتی توازن قائم نہیں کر پا رہے، الا ماشااللہ۔ وہ بھی ایک عام آدی کی طرح ہیجان کی کیفیت میں ہیں۔ ان کی طرف سے بھی ‘پکڑو، مارو، جانے نہ پائے‘ کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ کسی نظریاتی یا اصولی موقف کے لیے اہلِ صحافت ماضی میںکھڑے ہوئے مگر وقار کے ساتھ۔ آج ایک ہی اصولی موقف ہو سکتا ہے اور وہ ہے جمہوری اقدار سے وابستگی اور شفاف انتخابات۔ اس پر تو کم ہی ہیں جنہوں نے مورچہ لگایا ہو۔ سب ”چوروں کو پکڑنے‘‘ والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت جاتی ہے تو جائے، انہیں اس کی زیادہ فکر نہیں۔ اس باب میں قابلِِ قدر رجوع محترم ایاز امیر کا ہے۔ کل تک وہ بھی ‘مخملی ڈنڈے‘ کے حق میں تھے۔ آج مگر انہیں احساس ہو چلا ہے کہ ایک حد سے زیادہ ڈنڈے کا استعمال مضر ہوتا ہے، چاہے مخمل میں لپٹا ہوا کیوں نہ ہو۔ اب تو خیر مخمل کا تکلف بھی نہیں رہا۔
سول سوسائٹی بھی گومگو کا شکار ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے علاوہ کسی فورم سے آواز نہیں اٹھی۔ کوئی سیمینار نہیں ہوا جس میں صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہو۔ یہ خاموشی کیوں ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ کیا سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ ہر پیش رفت آئین کے مطابق ہے اور شفاف انتخابات ممکن ہیں؟ اگر آج سول سوسائٹی نے اس باب میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو پسِ مرگ واویلا اس کی ساکھ کو بہتر نہیں بنا سکے گا۔
آج اضطراب کا یہ منظر کیوں ہے؟ میرا تاثر ہے کہ ایک بنیادی حقیقت نظروں سے اوجھل ہو رہی ہے۔ نواز شریف صاحب ایک سیاسی شخصیت ہیں۔ ان کو ملک میں سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ ان کے خلاف فرد قراردادِ جرم، جزا و سزا کا کوئی عام مقدمہ نہیں‘ جس پر قانون کی حکمرانی کا واویلا کیا جائے۔ میں پورے تیقن سے کہتا ہوں کہ اس کا آخری حل سیاسی ہی ہو گا۔ عدالت جو بھی فیصلہ دے، اس سے قطع نظر، ان کا مقدمہ ایک دن سیاسی عدالت ہی میں پیش ہونا ہے۔ انتخابات ایک فطری سیاسی عدالت ہے۔ وہ لگنے جا رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس فطری راستے کو مکدر ہونے روکا جائے۔
ملائیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ لوگ مہاتیر محمد کی مثال دیتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ مہاتیر محمد کو کس طرح اپنی ایک سیاسی غلطی کی تلافی کرنا پڑی۔ 1980ء کی دھائی میں، انور ابراہیم ان کے دستِ راست تھے۔ دنیا انہیں ملائیشیا کا اگلا وزیر اعظم اور مہاتیر محمد کا جانشین سمجھتی تھی۔ اختلافات نے جنم لیا تو انور ابراہیم پر شدید اخلاقی نوعیت کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ ایک مذہبی شہرت اور پس منظر رکھنے والے کی سیاسی موت کے لیے یہ الزام کافی تھا۔
پہلی مرتبہ وہ پانچ سال جیل میں رہے۔ خیال کیا گیا کہ ان کا سیاسی سفر تمام ہو گیا۔ ان کی اہلیہ نے مگر سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ ایک بار رہا ہوئے۔ ان پر مقدمہ ثابت ہو گیا اور انہیں پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی بیوی نے مگر جماعت کو زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ امسال مئی کے انتخابات میں ان کی پارٹی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ انہوں نے مہاتیر محمد کو واپس بلایا۔ وہ انتخابی عمل کا حصہ بنے اور یہ فیصلہ ہوا کہ وہ عارضی طور پر وزیر اعظم ہوں گے اور انور ابراہیم کی اہلیہ عزیزہ نائب وزیر اعظم۔ انتخابات کے بعد، بادشاہ سے مہاتیر، انور ابراہیم کی سزا معاف کرنے کی درخواست کریں گے‘ اور وہ رہا ہو کر وزیر اعظم بنیں گے۔ آج انور ابراہیم رہا ہو چکے اور جلد ہی، وہ ملائیشیا کے وزیر اعظم ہوں گے۔ کل مہاتیر محمد نے انہیں ہٹایا اور آج وہی ان کو واپس لانے والے ہیں۔
اس سے ملائیشیا کے جو قیمتی ماہ و سال ضائع ہوئے، ان کا حساب شاید کوئی نہ دے سکے۔ انور ابراہیم کو چونکہ سیاسی عصبیت حاصل تھی، اس لیے ان کے خلاف مقدمہ جرم و سزا کا عام واقعہ نہیں بن سکا۔ اس معاملے کو بالآخر میدانِ سیاست ہی میں حل کرنا پڑا۔ یہ بھی آسمان کی ستم ظریفی ہے کہ مہاتیر محمد ہی کے ہاتھوں۔ کیا ہم اس واقعے سے سبق سیکھنے پر آمادہ ہیں؟
آج، بہت سی پابندیوں کے باوجود، نواز شریف صاحب کے بیانیے کا ابلاغ رکا نہیں۔ اس وقت، جب نون لیگ کو بد ترین حالات کا سامنا ہے، یہ سب سے مقبول جماعت ہے اور اکثریت نواز شریف صاحب کی غیر موجودگی میں، شہباز شریف صاحب کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ اس باب میں تازہ ترین سروے کا ذکر، 17 جولائی کو ”دنیا‘‘ ٹی وی کے پروگرام ‘نقطہ نظر‘ میں ہوا۔
ریاست، اہلِ سیاست، میڈیا اور سول سوسائٹی کو نوشتۂ دیوار پڑھنا چاہیے۔ اگرچہ خرابیوں کا دائرہ اتنا وسیع ہو چکا کہ انتخابات بھی سیاسی استحکام کو یقینی نہیں بنا سکتے؛ تاہم اصلاح کی طرف کھلنے والا اگر کوئی واحد راستہ موجود ہے تو وہ شفاف انتخابات ہی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے جذبۂ انتقام کو لگام دیں‘ اور عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔ انتخابات کے بعد ہمیں ایک نئے میثاق کی ضرورت ہو گی۔ ورنہ عدم استحکام کے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔ یہ میثاق کیا ہونا چاہیے، یہ وقت اس بحث کا نہیں۔ اس کا صحیح موقع بعد از انتخابات کا وقت ہو گا۔
میں اپنی بات پر اصرار کرتا ہوں کہ نواز شریف ایک سیاست دان ہیں اور ان کا معاملہ آج نہیں تو کل میدانِ سیاست ہی میں حل ہو گا۔ ان کے خلاف ریاستی اداروں کا استعمال ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ سب سے درخواست ہے کہ آج سیاسی عمل کو آگے بڑھنے دیں اور اس کی واحد صورت شفاف انتخابات ہیں۔ ورنہ آدمی تو قید ہو سکتا ہے، بیانیہ نہیں۔