بیانیہ کس باغ کی مولی ہے؟…خالد مسعود خان
اس وقت ملک میں بیانیے کی ”بھسوڑی‘‘ پڑی ہوئی ہے۔ اور یہ بھسوڑی میاں نواز شریف اور اس کے سیاسی مخالفین سے زیادہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے حامیوں کے درمیان ہے۔ میرا خیال ہے درج بالا فقرہ تھوڑا غلط ہو گیا ہے۔ یہ بیانیے والی بھسوڑی میاں نواز شریف‘ اس کے حامیوں اور اکیلے میاں شہبازشریف کے درمیان پڑی ہوئی ہے۔ میاں شہباز شریف کا فی الوقت کوئی ساتھی نظر تو نہیں آ رہا‘ لے دے کے ایک چوہدری نثار علی خان تھے۔ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں ان کی جیپ کے ٹائر صرف پنکچر نہیں ہوئے‘ بلکہ بری طرح پھٹ گئے تھے اور اب وہ خاموشی سے اپنی ایک صوبائی نشست پر اپنی آزاد حیثیت رکھ کر عزت بچا رہے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔ میاں شہباز شریف اپنے بیانیے سمیت اکیلے ہیں۔ رہ گیا ‘حمزہ شہباز تو وہ شہباز شریف کے بغیر ٹکے کا نہیں ہے۔ ایسے بعض لوگ شہباز شریف کے لیے بوجھ ‘یعنی Liability قرار دیتے تھے۔ اب وہ سچ ثابت ہو رہا ہے۔
اب مسلم لیگ کے حامی وہ بات کہہ رہے ہیں‘ جو مسلم لیگ کے ناقدین کہا کرتے تھے‘ اور وہ لوگ جو اب یہی بات کہہ رہے ہیں‘ تب ایسی باتیں کرنے والوں کے لتے لیا کرتے تھے۔ میں نے ایک دن مسلم لیگ ن کے بڑے توپ قسم کے حامی ایک صحافی سے محض اپنی معلومات میں اضافے کے لیے پوچھا کہ کیا میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے درمیان کوئی سوچ کا ‘ پالیسی کا یا سیاسی فکر کا کوئی اختلاف ہے؟ وہ صحافی بڑے زور سے ہنسا اور کہنے لگا: یہ بھی سیاست ہے۔ میاں! یہ جو آپ کو بظاہر دو مختلف نقطہ نظر کی سیاسی سوچ ان دونوں بھائیوں کے درمیان نظر آ رہی ہے‘ یہ دراصل آپ کی سمجھ سے باہر ہے۔ دونوں بھائیوں نے اس طرح ہر دو طرح کی سوچ رکھنے والے اپنے سیاسی مقلدین کو انگیج کر رکھا ہے۔ انقلابیوں اور جوشیلے فسادیوں کو میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف نے اپنے نقطہ نظر کا اسیر کر رکھا ہے اور دھیمے مزاج کے صلح جو سیاسی ورکروں کو میاں شہباز نے اپنی فکر سے باندھ رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دو قطبین والوں کو دونوں بھائیوں نے ایک پارٹی سے منسلک کر رکھا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے میں خود اس دلیل سے قائل ہو گیا۔ ہماری سیاست میں کیا نہیں ہوتا؟ ایک بھائی ایک طرف سے الیکشن لڑ رہا ہے اور دوسرا دوسری پارٹی سے۔ نتیجہ یہ کہ کوئی بھی ہارے یا جیتے۔ اسمبلی کی رکنیت بہر حال گھر میں رہے گی۔
دل کا وسوسہ چین نہیں لینے دیتا۔ لاہور گیا تو ایک اور دوست صحافی سے یہی سوال کر مارا۔ ہمارا یہ دوست صحافی میاں صاحبان کے بڑا قریب ہے اور قریب کیا؟ اندر کا بندہ ہی سمجھیں۔ دونوں بھائیوں سے قریبی تعلقات‘ تاہم ہر اس شخص کی طرح جو کسی حوالے سے بھی مسلم لیگ سے ہمدردی‘ محبت یا تعلق رکھتا ہے‘ مسلم لیگ کی لیڈر شپ بلا شرکت غیرے و اپنے میاں نواز شریف کے سر سجاتا ہے۔ ہمارا یہ دوست صحافی بھی میاں شہباز شریف کو کسی لیڈر کی بجائے اپنے لیڈر کا برادرخورد سمجھتا ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں دیتا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آج کل فیملی میں (میاں صاحب کی)دو کیمپ ہیں۔ ایک طرف میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف ہے اور دوسری طرف میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ میری بات سن کر یہ والا دوست بھی پہلے والے کی طرح ہی زور سے ہنسا ‘لیکن اس کا جواب بالکل مختلف تھا۔ کہنے لگا: ممکن ہے مریم نواز اور حمزہ شہباز کی حد تک یہ بات تھوڑی بہت درست ہو کہ کزن وغیرہ کی آپس میں مقابلہ بازی ہو جاتی ہے‘ لیکن میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کے خلاف سوچیں! آپ کو ان دونوں بھائیوں کی باہمی محبت اور تعلق کا اندازہ ہی نہیں۔ جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں ‘وہ دراصل دونوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں۔ ان کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں۔ شہباز شریف صرف میاں نواز شریف کا چھوٹا بھائی ہی نہیں ‘بلکہ برخوردار ہے۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کا کتنا احترام کرتا ہے۔ میاں نواز شریف بعض اوقات اسے باقاعدہ ڈانٹ پلاتا ہے‘ جھڑکتا ہے‘ دبکے مارتا ہے۔ میاں شہباز شریف سر جھکائے ایسے سب کچھ سنتا ہے‘ جیسا کوئی نہایت ہی تابعدار بیٹا‘ اپنے باپ کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا ہو۔ میں نے پوچھا :تو کیا یہ سب افواہیں ہیں؟ وہ دوست کہنے لگا: بالکل افواہیں ہیں۔ پھر اس دوست نے قربت اور محبت پر مبنی ایک پنجابی محاورہ بولا۔ کہنے لگا : خالد صاحب! دونوں کا یہ حال ہے کہ ”ان کے درمیان سے ہوا نہیں گزرتی‘‘۔ اب وہی دوست بیانیے کے اختلاف پر میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ مسلم لیگ‘ اس کے حامی‘ اس کے ووٹر اور سپورٹر‘ سب کے سب میاں نواز کے ساتھ ہیں۔ اس کے بیانیے کو سنے بغیر‘ اسے سمجھے اور تسلیم کیے بغیر‘ غیر مشروط‘ مسلم لیگوں کے نزدیک میاں نواز شریف ان کا ”بھٹو‘‘ ہے‘ جس کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ میاں شہباز شریف کی کل حقیقت یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کا بھائی ہے۔ اگر میاں نواز شریف اس کے اوپر ہاتھ رکھ دیں‘ تو ہما‘ اگر ہاتھ اٹھا لیں تو بوم‘ لیکن اس میں میاں نواز شریف کا بیانیہ کہاں سے آ گیا؟ لوگ تب بھی اس کے ساتھ تھے‘ جب وہ چالیس صندوق‘ صدیق پہلوان اور گھر والوں کو لے کر بغیر کسی کو اطلاع دیئے یا اعتماد میں لیے جدہ چلا گیا تھا۔ لوگ اس وقت بھی اس کے ساتھ تھے ‘جب وہ جلا وطنی کے کسی دس سالہ معاہدے سے مکمل انکار کرنے کے باوجود اس کی موجودگی مان بھی گئے اور اس کے تحت دوبارہ پاکستان سے سعودیہ بھجوا دیئے گئے‘ لیکن ان سے محبت کرنے والے ان سے جڑے رہے۔ میاں صاحب نا اہل ہوئے ان سے محبت کرنے والے ان کے ساتھ رہے۔ میاں صاحب لندن گئے۔ تمام تر افواہوں کے باوجود وہ آ گئے‘ ان کے چاہنے والے ان کے ساتھ رہے۔ کسی کو ان کے بیانیے سے غرض نہ تھی۔ جب وہ اسٹیبلشمنٹ تابعدار تھے‘ تب انہیں ایک کروڑ اڑتالیس ووٹ ملے (الیکشن 2013ئ) اور اس الیکشن میں انہیں ایک کروڑ انتیس لاکھ ووٹ ملے‘ یعنی انہیں 2013ء کے مقابلے میں 2018ء کے الیکشن میں 19لاکھ ووٹ کم ملے‘ تو بیانیے کی مقبولیت کہاں گئی؟ خواجہ سعد رفیق کو کسی نے بیانیے کی وساطت سے نہیں‘ شیر کی وساطت سے ووٹ دیئے‘ یہی حال حمزہ شہباز کا تھا اور یہی شہباز شریف کا۔ جنوبی پنجاب میں اس بیانیے کو مقبولیت تو کیا ملتی‘ الٹا نقصان کا باعث بنا۔
میں بیرون ملک تھا اور میری ملاقات ایک نہایت معتدل‘ نرم خو‘ صلح جو اور ”بیببے‘‘ صحافی دوست سے ہوئی۔ وہ بھی اندر سے میاں نواز شریف سے محبت کرنے والے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ مانیں یا نہ مانیں‘ آپ یہاں میاں نواز شریف کے شیدائی ہیں۔ وہ کہنے لگے: آپ نے درست کہا۔ میں نے کہا: آپ کو میاں صاحب کی نا اہلی کا دکھ ہے۔ وہ بولے: یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا: آپ کو میاں نواز شریف کی نا اہلی سے زیادہ دکھ یہ ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک پکڑ میں نہیں آئے اور آپ کی خواہش ہے کہ میاں شہباز شریف بھی نا اہل ہو جائیں یا اندر ہو جائیں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: آپ کی یہ بات بھی سو فیصد سچ ہے۔
ہمارے ہاں قوم بیانیے کو چھوڑیں‘ بیان کو نہیں دیکھتی۔ ان کا لیڈر اسمبلی میں جھوٹ بولے‘ کسی کی محبت کم نہیں ہوتی۔ ان کا قائد ٹیلی ویژن پر جھوٹ بولے: کسی چاہنے والے کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا۔ وعدہ کر کے مکر جائیں اور کہیں کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے ‘کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ بیانیہ کس باغ کی مولی ہے؟