بیانیے کی وراثت؟….رؤف طاہر
شہباز صاحب کی اس بات پر ہمیں یقین ہوا، ہم کو اعتبار آیا کہ بدھ کی سہ پہر الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرے میں وہ اس لیے شریک نہ ہو سکے کہ لاہور سے اسلام آباد آنے والی پرواز موسم کی خرابی کے باعث منسوخ ہو گئی تھی۔ لیکن ”کامن سینس‘‘ رکھنے والا کوئی عام آدمی بھی اسے قبول کر لے گا؟
جناب احسن اقبال کو قدرت نے منطق اور استدلال کی صلاحیت سے وافر مقدار میں نوازا ہے، اُس شام انہیں بھی، شہباز شریف صاحب کے حوالے سے اسی سوال کا سامنا تھا، اور سچ بات یہ ہے کہ ٹاک شو کے اینکر (اور ہم جیسے ناظرین کو بھی) مطمئن کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ بے لحاظ اینکر پوری تیاری کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اس روز کتنی پروازوں نے لاہور ایئر پورٹ سے اڑان بھری؟ کتنی پروازیں اسلام آباد سے روانہ ہوئیں؟ کتنی پروازیں لاہور، اسلام آباد کے درمیان تھیں؟ ایک شہباز شریف کی پرواز تھی جو موسم کی خرابی کے باعث منسوخ ہو گئی؟ لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔ اگر پرواز ایک بجے لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوتی تو راستے میں اسے خراب موسم درپیش ہوتا‘ اس لئے اسے منسوخ کرنا پڑا۔ لیکن آپ کسی کا منہ تو بند نہیں کر سکتے، ہم نے خود مسلم لیگی کارکنوں کو یہ کہتے سنا کہ شہباز شریف صاحب کو یہ رسک لینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ احتیاطاً وہ صبح کی پرواز سے روانہ ہو جاتے۔
”پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن‘‘ کا یہ پہلا ”عوامی مظاہرہ‘‘ تھا‘ جس کے ”الداعیان الی الخیر‘‘ میں خود شہباز شریف سرِ فہرست تھے۔ اس سے پہلے 25 جولائی کے الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے، ان جماعتوں کی سرگرمی بند کمروں کی آل پارٹیز کانفرنسوں تک محدود تھی۔ الیکشن کمیشن کے باہر اس احتجاجی مظاہرے کا فیصلہ بھی، آل پارٹیز کانفرنس ہی میں کیا گیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ منتخب ارکان اور ٹکٹ ہولڈرز کا مظاہرہ تھا‘ لیکن سیاسی کارکنوں کی خاصی بڑی تعداد بھی چلی آئی تھی اور یوں شرکا کی حاضری اور ان کے جوش و جذبے نے اسے خاصا متاثر کن بنا دیا۔ لیکن بعض سیاسی رہنمائوں کی عدم شرکت نے اس کے تاثر کو قدرے گہنا دیا تھا۔ اے این پی کے قائدین اور کارکنوں کی شرکت بھی بھرپور تھی، ان کا جوش و جذبہ بھی کم نہ تھا‘ لیکن خود جناب اسفند یار ولی کی غیر حاضری سوالیہ نشان بن گئی تھی۔ یہی معاملہ سراج الحق صاحب کا تھا۔ انہوں نے منصورہ میں مختلف وفود سے ملاقاتوں کو ”فرضِ کفایہ‘‘ بنا لیا، 25 جولائی کے الیکشن کو پاکستان کی تاریخ کے بد ترین الیکشن قرار دیتے ہوئی ان کا کہنا تھا: عمران خان نے ریاستِ مدینہ کا وعدہ کیا ہے تو اس کے لیے اسے وقت ضرور ملنا چاہیے۔ جناب آصف زرداری اور بلاول 25 جولائی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی کسی میٹنگ میں تشریف نہ لائے؛ البتہ ان میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی بھرپور رہی۔ (خدا کا شکر ہے کہ یہ میٹنگز ”بیرسٹر صاحب‘‘ سے محفوظ رہیں‘ ورنہ ان کی ذہانت و فطانت یہاں بھی کوئی گُل کھلائے بغیر نہ رہتی) بلاول نے الیکشن مہم کے آخری مرحلے میں اپنی سیاسی شخصیت کا بہت اچھا تاثر تخلیق کیا تھا۔ الیکشن کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ میٹنگز میں شرکت اس کے امیج کو مزید نکھار نے اور ابھارنے کا باعث بنتی‘ لیکن کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے Stakes، اس کی مجبوریاں اور اس کی Limitations دوسری جماعتوں سے مختلف ہیں۔ اس کے لیے اپنی ریڈ لائنز ہیں، جنہیں عبور کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
اصل چیز جو سیاسی و صحافتی حلقوں (اور خود مسلم لیگی کارکنوں میں بھی) بحث کا موضوع بنی، وہ جناب شہباز شریف کی عدم شرکت تھی۔ خراب موسم کی وجہ سے پرواز منسوخ ہو گئی تھی تو وہ سڑک کے راستے روانہ ہونے کا اعلان کرتے۔ موٹر وے کے راستے لاہور تا اسلام آباد ساڑھے تین، پونے چار گھنٹے کا سفر ہے، اور یہ مظاہرہ چار گھنٹے جاری رہا تھا۔ وہ راستے میں ہوتے تو ان کے انتظار میں اسے مزید طول دیا جا سکتا تھا۔ یہ مسلم لیگی کارکنوں (اور ووٹروں) کے لیے بھی Moral booster ہوتا‘ اور اس سے قائدِ حزب اختلاف کے طور پر بھی شہباز شریف صاحب کا امیج نکھرتا اور سنورتا۔
13 جولائی کو، میاں صاحب اور مریم کی لاہور آمد پر، شہباز شریف صاحب کی ”حکمت عملی‘‘ مسلم لیگی کارکنوں، اس کے ووٹروں اور ہمدردوں میں سوالیہ نشان بنی رہی تھی، اب الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرے میں عدم شرکت نے کچھ اور سوالیہ نشان لگا دیے ہیں اور یہ بنیادی سوال ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے کہ کیا شہباز شریف صاحب، اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد کے بیانیے کے حقیقی وارث بن سکیں گے؟ وہ بیانیہ، جس نے مسلم لیگی ورکر اور ووٹر کو (28 جولائی کے فیصلے کے بعد مایوسی سے دوچار کرنے کی بجائے) نیا حوصلہ اور نئی توانائی بخشی۔ کونسل آف نیشنل افیئرز کی ہفتہ وار نشست میں بعض دانشور 25 جولائی کے انتخابی نتائج کو نواز شریف کیبیانیے کی شکست قرار دے رہے تھے‘ لیکن یہاں دوسری رائے بھی تھی‘ بعض پری پول اور پوسٹ پول کارروائیوں کے باوجود ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹرز نے اس بیانیے کی توثیق اور تائید بھی تو کی تھی اور اسی سے ملتے جلتے بیانیے والی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ووٹوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو یہ تعداد دو کروڑ سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔
ایک تجزیہ یہ بھی تھا کہ نواز شریف اور مریم نے 13 جولائی کو وطن واپس آ کر مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ شہباز شریف اگلے دس گیارہ دنوں میں اسے اپنی انتخابی مہم کا بیانیہ بناتے تو (تمام تر مشکلات کے باوجود) مسلم لیگ بہتر پرفارم کر سکتی تھی۔ وہی بات جو خورشید ندیم نے بدھ کے کالم ” قائد حزب اختلاف؟‘‘ میں کہی، برادرم سلمان غنی نے اگلے روز اسے دنیا نیوز کے پروگرام ”کامران خان کے ساتھ‘‘ میں آگے بڑھایا۔ ہم بھی عام لوگوں میں گھومتے پھرتے ہیں، پولیٹیکل رپورٹنگ سے دستبرداری کے باوجود، خبریں سونگھنے والی ناک ابھی بے اثر نہیں ہوئی۔ کچھ ربط و ضبط مسلم لیگی دوستوں سے بھی رہتا ہے، لیکن سلمان تو شہر کے سرگرم ترین پولیٹیکل رپورٹروں میں شمار ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اس کے ”ذرائع‘‘ موجود ہیں۔ مسلم لیگ میں کارکنوں سے لے کر قیادت تک، مختلف سطحوں پر پائی جانے والی لہروں کو جتنا سلمان جانتا ہے، شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ خورشید ندیم کے کالم کے بعد، سلمان کا دنیا نیوز پر تجزیہ اور اگلے روز (آج جمعہ کے دن) دنیا میں شائع ہونے والا اس کا خبری تبصرہ مسلم لیگیوں اور خود شہباز صاحب کے لیے غور و فکر کا خاصا سامان رکھتا ہے۔
وہ جو شاعر نے کہا تھا: تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں۔
بعض ستم ظریف دوستوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایسے ہی ایک ستم ظریف نے ایک پرانا لطیفہ اور ساتھ دو ویڈیو کلپس ارسال کیں۔ الیکشن سے پہلے کے ایک کلپ میں شہباز شریف سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے ہیں: 25 جولائی کو ووٹ پر ڈاکہ مارا گیا تو اس کے نتیجے میں اٹھنے والے طوفان کو میں بھی نہیں روک سکوں گا، ووٹ کی عزت کی حفاظت کے لیے میں سب سے آگے ہوں گا اور سینے پر گولی کھانے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
دوسرا کلپ، گزشتہ روز اڈیالہ جیل سے باہر میڈیا سے گفتگو کا ہے، جس میں وہ موسم کی خرابی کو اسلام آباد نہ پہنچ سکنے کا جواز بتا رہے ہیں اور پھر وہ لطیفہ: دو پریمی کسی گوشۂ عافیت میں بیٹھے، وفا کے عہد و پیمان باندھ رہے تھے: ”میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ لائوں گا، سمندر کا سینہ چیر دوں گا، پہاڑوں سے ٹکرا جائوں گا‘‘… ”تو پھر پرسوں ملنے آئو گے ناں؟… ”ضرور آئوں گا، اگر بارش نہ ہوئی، موسم خراب نہ ہوا‘‘۔
بدھ (8 جولائی) کے جمہور نامہ میں سیالکوٹ کے حلقہ NA74 میں ووٹوں کے اندراج میں مجھ سے غلطی ہو گئی۔ یہاں علی زاہد (مسلم لیگ ن) اور چودھری غلام عباس (پی ٹی آئی) میں 3,501 ووٹوں کا فرق ہے (علی زاہد 97,235۔ غلام عباس 93,734)۔