منتخب کردہ کالم

بیجنگ کے فارن آفس میں ….رئوف طاہر

بیجنگ کے فارن آفس میں ….رئوف طاہر

چین کے آٹھ روزہ سرکاری دورے کے آخری دو دن ہم پھر بیجنگ میں ہیں۔ جمعرات کی یہ سہ پہر یہاں کافی سرد ہے لیکن ہم برادر ملک کے فارن آفس سے گرما گرم جذبات و احساسات کے ساتھ واپس ہوٹل پہنچے ہیں۔ شاعر کو گلہ تھا۔ ؎
میں نے بصد خلوص بڑھایا تھا اپنا ہاتھ
وہ ہاتھ میرے ہاتھ میں آیا تو سرد تھا
لیکن فارن آفس کے صدر دروازے پر ڈیپارٹمنٹ آف ایشین افیئرز کے ایک اعلیٰ افسر مسٹر لیوفنگ فئے سے ہاتھ ملاتے ہوئے دونوں طرف محبت بھرے جذبات کی حدت اور شدت بہت گہری تھی۔
کانفرنس روم میں اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مسٹر لیوفنگ بتا رہے تھے کہ وہ حالیہ مہینوں میں متعدد بار اسلام آباد اور گوادر جا چکے ہیں لیکن شدید خواہش کے باوجود لاہور جانے کیلئے وقت نہ نکال سکے۔ ”سنا ہے‘ لاہور بہت خوبصورت ہے‘ محبت کرنے والے پاکستانیوںکا شہر۔لاہور کا وزٹ میرا خواب ہے۔ امید ہے‘ یہ جلد تعبیر کو پہنچے گا۔
مسٹر لیوفنگ کو ہماری آمد سے پہلے ہی ہمارے متعلق بنیادی معلومات مل چکی تھیں مثلاً یہ کہ دس اخبار نویسوں پر مشتمل وفد میں سب کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ کہہ رہے تھے‘ میں لاہور سے آنے والے اپنے دوستوں کا خیر مقدم کرتا ہوں‘ لاہور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا دارالحکومت ہے۔ پنجاب کا دارالحکومت جو ملک کا سب سے ترقی یافتہ اور متحرک صوبہ ہے۔ ان کے بقول‘ اخبار نویسوں کے یہ دورے ”پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ‘‘ کے حوالے سے بہت اہم اور مفید ہیں۔ پاکستان اور چین دوستی کے لازوال رشتے سے منسلک ہیں‘ ایسی دوستی جو وقت کی ہر آزمائش پر پورا اتری۔
Time tested Friendship۔ کسی بھی موسم میں محبت کے یہ پھول مرجھائے نہیں۔ ہم دونوں ملکوں کے باسی دو مختلف زبانیں بولتے ہیں‘ ہمارے چہرے مہرے بھی مختلف ہیں لیکن ہمارے دلوں کی دھڑکنیں یکساںہیں۔ ہمارے ذہن بھی ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔
اور پھر بات CPECکی طرح مڑ گئی‘ چینی سفارتکار کا کہنا تھا ”ون بیلٹ‘ ون روڈ‘‘ کے عالمی منصوبے میں (جس میں 60ممالک شامل ہیں) CPECکی بنیادی اہمیت ہے۔ یہ ون بیلٹ‘ ون روڈ کا پائلٹ پراجیکٹ ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کے دورۂ پاکستان (2015) میں اسے حتمی شکل ملی۔ یہ دونوں ملکوں کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا منصوبہ ہے۔ (ہمیں یاد آیا‘ معزول وزیراعظم نواز شریف اسے خطے کے تین‘ ساڑھے تین ارب انسانوں کے مقدر کو بدلنے والا منصوبہ قرار دیتے تھے) مسٹر لیوفنگ کہہ رہے تھے‘ CPECمیں 50 سے زائد منصوبے ہیں‘ جن میں سے 19پر کام شروع ہو چکا ہے۔ پنجاب اپنے حصے کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے غیر معمولی تیز رفتاری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ساہیوال میں انرجی کا کول پراجیکٹ اس کی شاندار مثال ہے۔ اس کے باعث ”پنجاب سپیڈ‘‘ کی نئی اصطلاح وجود میں آئی‘ دوسروں صوبوں کو بھی اسے مثال بنانا چاہئے۔ پاکستان میں CPEC پر کام کی رفتار اطمینان بخش ہے‘ لیکن یہاں کا پرانا انفراسٹرکچر مزید تیز رفتاری میں ایک مسئلہ ہے۔
چینی سفارتکار اب ایک اور اہم معاملے کی طرف آئے‘ وہ کہہ رہے تھے‘ ہم CPECکے حوالے سے مخالفانہ آوازیں سنتے ہیں‘ ان میں کچھ آوازیں ”اندرونی‘‘ ہیں (جو وقت کے ساتھ مدھم پڑتی جا رہی ہیں) اور کچھ آوازیں ”بیرونی‘‘ لیکن ان آوازوں پر ہمیں کوئی تشویش یا خوف نہیں۔ یہ آوازیں ”فطری‘‘ نہیں‘ لیکن یہ ہمارے عزم اور ارادے کو متزلزل نہیں کر سکتیں۔
ایک سوال گوادر ائیرپورٹ اور گوادر ایکسپریس وے کی تعمیر کے حوالے سے تھا‘ چین کی طرف سے یہ اعلان جولائی میں ہوا تھا‘ لیکن تین ماہ گزر جانے کے باوجود اس سلسلے میں زمین پر کوئی پیس رفت نظر نہیں آتی۔ چینی سفارتکار کا کہنا تھا‘ اس حوالے سے کاغذی کارروائی مکمل ہو چکی۔ امید ہے‘ اس پر کام کے آغاز میں مزید تاخیر نہیں ہوگی۔
CPECکے خلاف بیرونی آوازوں کے حوالے سے کیا مسٹر لیوفنگ کا اشارہ امریکی وزیر دفاع کے ایک حالیہ بیان کی طرف تھا‘ جس میں اس کا کہنا تھا کہ CPEC (پاکستان اور انڈیا کے درمیان) ایک متنازعہ علاقے میں گزر رہا ہے؟ چینی سفارت کار نے یاد دلایا کہ ان کے ملک کی طرف سے اس پر فوری ردعمل دے دیا گیا تھا۔ اس میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں‘ بس اتنا کافی ہے کہ کسی تیسرے ملک کو دو ملکوں کے مابین معاملات میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہئے۔
ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک نے پھر انگڑائی لی ہے۔ مظفروانی کی شہادت نے کشمیری عوام بالخصوص وہاں کے نوجوانوں کو ایک نیا عزم بخشا ہے۔ کشمیری مائیں اور بیٹیاں بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی پیلٹ گنز ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو بینائی سے محروم کر چکیں‘ لیکن آزادی کے جذبوں کو سرد نہیں کر سکیں۔ وہ جو ادا جعفری نے کہا تھا۔ ؎
قافلے لٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں
لوٹنے والوں نے کیا عزم سفر بھی لوٹا؟
مسٹر لیوفنگ کا کہنا تھا‘ مسئلہ کشمیر پر چین کاموقف بہت واضح ہے۔ دونوں ملکوں کو مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا چاہئے اور خلوص نیت کے ساتھ اس دیرینہ مسئلے کا پرامن اور قابل عمل حل ڈھونڈنا چاہئے۔ مسٹر لیوفنگ نے لمحے بھر کو توقف کیا اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہنے لگے‘ پاکستان کے مخلص دوست کی حیثیت سے ہم بہرحال پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
پاکستان کے داخلی سیاسی حالات ا ور CPEC کا مستقبل؟
مسٹر لیوفنگ کا کہنا تھا‘ پاک‘ چین دوستی‘ دو ملکوں کے درمیان‘ دو قوموں کے درمیان دوستی ہے۔ یہ تقریباً 70 سال پر محیط ہے۔ اس دوران حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ جہاں تک پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا تعلق ہے‘ ہم ان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دوست ملک میں Disturbance پر ہماری تشویش فطری ہے۔
CPEC پاکستان کی ترقی اور یہاں کے عوام کی خوشحالی کا عظیم منصوبہ ہے اور پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ کے نہایت اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ تاریخ کے خوش قسمت ترین لمحوں میں سے ایک لمحہ ہے‘پاکستانی قیادت اور عوام کو یہ سنہری موقع ضائع نہیں جانے دینا چاہئے۔
پاکستانی صحافیوں کے اس وفد میں شامل شہباز انور خاں سے پاک‘ چین دوستی کے حوالے سے فی البدیہہ نظم ہو گئی تھی۔ ملاقات کے اختتام پر انہوں نے یہ نظم پیش کرنے کی اجازت چاہی‘ ساتھ ساتھ چینی زبان میں ترجمہ بھی ہوتا رہا۔ ؎
یہ پاک چینی دوستی
ہے روشنی ہی روشنی
پیار کی فضا میں جیسے
جاگتی ہے زندگی۔ یہ پاک چینی دوستی
ہوں آسماں کی وسعتیں
یا ہوں زمین کی تہیں
ہر ایک سمت‘ ہر اک طرف
ہیں رفعتیں ہی رفعتیں
شعورو فہم و آگہی۔ یہ پاک چین دوستی
یہ امن کی نقیب ہے
دلوں کے یہ قریب ہے
جو اس کا ترجمان ہے
وہی تو خوش نصیب ہے
یہ کہہ رہی ہے ہر گھڑی۔ یہ پاک چین دوستی
گلوں میں بھی نکھار ہے
فضا بھی خوشگوار ہے
چمن‘ چمن‘ کلی‘ کلی
ہے رنگ و نور میں بسی۔یہ پاک چین دوستی