منتخب کردہ کالم

بی بی کی کہانی‘ ایک صحافی کی زبانی (جمہور نامہ) رئوف طاہر

کراچی پریس کلب میں مجاہد بریلوی کی کتاب ”فسانہ رقم کریں‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ عشروں پہلے پاکستان میں لیفٹ کی سیاست چین نواز اور روس نواز دھڑوں میں تقسیم تھی۔ یہی معاملہ لیفٹ کی طلبہ تنظیموں کا تھا۔ تب مجاہد بریلوی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے روس نواز دھڑے سے منسلک تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد صحافت کے کوچے کا رخ کیا۔ اس دوران مختلف شخصیات کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ ”فسانہ رقم کریں‘‘ ان ہی میں سے بعض شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ پہلا مضمون بے نظیر بھٹو سے مجاہد کی ملاقاتوں پر مشتمل ہے۔ جس میں محترمہ کی شخصیت کے مختلف پرت سامنے آتے ہیں۔ چند ملاقاتوں کا احوال :۔
ایک دن شام صاحب نے کہا‘ آج آپ کو بی بی سے ملواتے ہیں۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ بڑی سی میز پر افطاری کے سارے لوازمات تھے۔ ہم میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ بی بی توجہ سے دیکھتیں مگر جب شام صاحب نے کہا کہ یہ کابل میں افغان صدر نور محمد ترہ کئی کا انٹرویو لینے جا رہے ہیں تو بی بی نے بڑے تجسس سے کہا ”میر‘‘ (مرتضیٰ بھٹو) بھی وہاں ہو گا۔ آپ افغان صدر سے ملیں تو بھٹو صاحب کی رہائی کے لیے اپیل کرنے کا بھی کہیں۔ افطاری کے بعد چائے کا دور چلا تو ماحول کافی ریلیکس ہو چکا تھا۔ 70 کلفٹن کا منشی ہفتے بھر کا حساب لے کر آیا تو بی بی نے سرزنش کی ”دو ماچس ایک دن میں کیسے خرچ ہوا؟‘‘ اگلے دن کے سودا سلف کا بھی پوچھا۔ پھر شام صاحب سے بھٹو صاحب کی رہائی کی مہم کے لیے تبادلہ خیال کرنے لگیں۔
اپریل 1986ء میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد جب کراچی میں پہلی ملاقات ہوئی تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ دسمبر 1989ء میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بی بی سی سے پہلی ملاقات آسٹرین قونصل خانے میں ہوئی۔ اس زمانے میں ہر سال یکم جنوری کی صبح کو یہ بڑی شاندار رنگا رنگ تقریب ہوئی تھی۔ شہر کے تاجروں‘ سیاستدانوں اور سفارت کاروں کا ایک ہجوم تھا جو بی بی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑا تھا۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی‘ ہیلو مجاہد کیسے ہو؟ بی بی نے مجھے اسلام آباد آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا‘ ہمیں میڈیا آپ کی ضرورت ہے‘ میں نے بڑی انکساری سے چند الفاظ میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا‘ میں کراچی میں ہی خاصا خوش و خرم وقت گزار رہا ہوں۔
بی بی کا پہلا دور پلک جھپکتے گزر گیا۔ گیارہ سال سے اقتدار کے پیاسے جیالے دنوں اور ہفتوں میں‘ برسوں کی قربانیاں کیش کرانے پر تلے تھے۔ ایک آدھ بار اسلام آباد جانا ہوا مگر کوئی در ایسا نظر نہ آیا جس کے راستے بی بی سے ملاقات کی راہ کھلتی۔
اکتوبر 1994ء میں بی بی دوسری بار اقتدار میں آئیں تو انہیں وزیراعظم ہوئے تیسرا یا چوتھا دن تھا کہ پی ایم ہائوس سے فون آیا‘ آج شام سات بجے آپ کی وزیراعظم سے ملاقات ہے۔ ایئرپورٹ پہنچنے پر علم ہوا کہ جہاز لیٹ ہے‘ یوں جب وزیراعظم ہائوس پہنچا تو آٹھ بج چکے تھے۔ ایک صوفے پر ڈھیروں فائلیں لیے ناہید خاں نظر آئیں جنہوں نے مجھے اطلاع دی کہ وزیراعظم ڈنر پر چلی گئی ہیں۔ اب تو اگلے ہفتے ہی آپ کو وقت ملے گا۔ ناہید خان کے پہلو میں کھڑے سفید وردی میں ملبوس ایک اے ڈی سی کو نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے کہا‘ آپ چند منٹ انتظار کریں‘ میں وزیراعظم کو اطلاع دیتا ہوں۔ کچھ ہی دیر میں اے ڈی سی اطلاع دیتے ہیں کہ میں صبح دس بجے پہنچ جائوں۔ وزیراعظم کل جہاں جا رہی ہیں‘ آپ ہیلی کاپٹر “A” میں ہوں گے۔ اگلی صبح ہیلی پیڈ پر پہنچا تو ناہید خان نے اطلاع دی کہ آپ میڈیا ٹیم کے ساتھ ہیلی کاپٹر “B” میں ہوں گے۔ پشاور کے قریب کسی فیکٹری کا افتتاح تھا‘ وزیراعظم کے پہنچتے ہی سینکڑوں جیالوں نے انہیں گھیر لیا۔ وزیراعلیٰ آفتاب شیرپائو بھی ان کے قریب نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ فوجی وردی میں ملبوس ایک اہلکار کی آواز سنائی دی جو مجھے تلاش کر رہے تھے۔ انہوں نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا‘ آپ ہیلی کاپٹر “A” میں کیوں نہیں تھے۔ وزیراعظم سخت ناراض ہیں۔ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری جنرل قیوم اپنے جلو میں لے کر آگے بڑھے اور صوفے پر وزیراعظم کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔ وزیراعظم نے جنرل قیوم سے کہا کہ اگلے
ہفتے ایران اور ترکی کے دورے میں مجھے شامل کریں۔
ایران کے سفر میں تہران سے مشہد جاتے ہوئے وزیراعظم نے بڑی شستہ زبان میں مجھے کہا ”کمٹ منٹ‘‘ اپنی جگہ مگر اب ہمیں ”میڈیا منیجرز‘‘ کی ضرورت ہو گی کیونکہ ساری دنیا میں یہی رواج ہے۔ سندھ میں ”میڈیا منیجر‘‘ کی حیثیت سے مجھے کام کرنا ہے۔ میں نے کہا‘ آپ کو کمیٹڈ صحافیوں اور دانشوروں کی زیادہ ضرورت ہے اور یہ بغیر کسی معاوضے اور مراعات کے آپ کا ساتھ دیں رہے ہیں۔ ”منیجرز‘‘ اور ”لفافہ صحافی‘‘ صرف اقتدار کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایران کے بعد ترکی میں آفیشل ڈنر پر ملاقات ہوئی تو میرے ہاتھ میں نقرئی گلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ مجاہد انجوائے کر رہے ہو۔ بی بی کی دونوں حکومتوں میں میرا یہ پہلا اور آخری بیرونی سفر تھا۔
بی بی کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد میاں نوازشریف کو اقتدار میں آئے سال بھر ہو چکا تھا۔ بی بی اور آصف علی زرداری پر مقدمات کی بھرمار تھی۔ ان کے اکائونٹ ”سیز‘‘ کر دیئے گئے تھے۔ بی بی نے بلاول ہائوس میں چند صحافیوں کو آخری ملاقات کے لیے بلایا‘ اپنے پاس رکھے بیگ کو اٹھاتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں میرے پاس بچوں کی فیس کے پیسے نہیں۔ یہ ”بھٹوز‘‘ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں ابھی جا تو ضرور رہی ہوں مگر ایک ”فاتح‘‘ کی حیثیت سے واپس آئوں گی۔ بوجھل قدموں کے ساتھ میں بلاول ہائوس سے نکلا تو مجھے احساس تھا کہ اب برسوں بی بی سے ملاقات نہ ہو گی۔
غالباً دسمبر 1999ء کی بات ہو گی۔ لندن سے واجد شمس الحسن کا فون آیا‘ بشیر ریاض بھٹو خاندان پر کتاب مرتب کر رہے ہیں۔ انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہو گی۔ 31 دسمبر کی شام سردی سے ٹھٹھرتے لندن میں پہنچا تو میلنیئم ایئر سلیبریشن اپنے شباب پر تھی۔ بشیر ریاض اپنی صبح کا آغاز ذرا جلدی کر دیتے ہیں۔ ایک بڑا سا صندوق رسالوں‘ کتابوں اور تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔ لندن کے دو پھیروں اور مہینوں کی ریاضت کے بعد کتاب مرتب ہو گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں دبئی جا کر اسے بی بی کو پیش کروں۔
دبئی میں کم و بیش 4 سال بعد ملاقات ہو رہی تھی‘ بی بی نے بڑی محبت سے چائے اور گرما گرم سموسے پیش کئے‘ اس دوران کتاب کی ورق گردانی بھی کرتی رہیں اور اگلے دن ڈنر کی دعوت دی۔ اگلے دن بی بی کا انداز بدلا بدلا سا لگا۔ ضیا اصفہانی‘ بی بی کو بتا رہے تھے کہ امریکی مشرف سے ناراض ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی دوران کسی اسٹرالوجسٹ کا فون آیا جو بی بی کو بتا رہا تھا کہ مشرف کی پیدائش اگست 1943ء ہے اور ایسے لوگوں کے لئے مارچ کا مہینہ اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ بی بی یہ باتیں بڑی دلچسپی سے سن رہی تھیں۔
بیش (بشیر ریاض) کی کتاب میں کم از کم دو باب ایسے تھے‘ خاص طور پر مرتضیٰ بھٹو سے بی بی کے تعلقات اور دوسرا ان کے پہلے دور حکومت میں جیالوں کا کردار‘ جس پر مجھے یقین تھا کہ وہ پڑھ کر خوش نہیں ہوں گی۔ ”یہ کتاب بیش نہیں لکھ سکتا‘‘ بی بی کی آواز میں تیزی بھی تھی اور تلخی بھی۔ مرتب کرنے کے دوران اس میں تم نے وہ کچھ ڈالا جو ہمارے مخالفین کہتے آئے ہیں۔ اسی دوران بی بی نے لندن بیش کو فون بھی ملوایا اور طنز سے بھرپور لہجے میں کہا‘ ویل بیش بڑا اچھا کتاب لکھا ہے۔ بی بی نے دو ٹوک انداز میں کہا‘ یہ کتاب اس طرح شائع نہیں ہو گی۔ میں نے ان صفحات کو سرخ قلم سے انڈر لائن کر دیا ہے۔ یہ سب صفحے نکال دو‘ اور ہاں ڈنر کا وقت ہو گیا ہے۔ سندھ سے بڑے میٹھے آم آئے ہیں۔ اس دوران میرے اندر کا صحافی باہر آ چکا تھا۔ میں نے کہا‘ بی بی اگر بیش جیسا آپ کا اتنا قریبی دوست آپ کی پارٹی اور حکوموں کے بارے میں یہ خیالات رکھتا ہے تو اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ آپ کی پارٹی اس وقت کہاں اور کس حال میں کھڑی ہے۔
ڈنر میز پر رکھا کھانا ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ یوں بھی میری بھوک مر چکی تھی۔ اچانک بی بی نے کتاب کو بیگ میں رکھتے ہوئے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا‘ ہاں! یہ چاکلیٹ لو۔ کھانے کی ڈش دیتے ہوئے وہ مسلسل میری دل جوئی کرتی رہیں۔ بی بی کی شخصیت کی اب ایک نئی پرت کھل رہی تھی۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ میں اپنے ٹکٹ پر پاکستان سے آیا ہوں۔