منتخب کردہ کالم

بے اختیار بلدیاتی ادارے

دنیا کے جمہوری ملکوں میں برسر اقتدار جماعتوں کی ساری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رہتی ہے کیونکہ ان ملکوں کے عوام اپنے منتخب نمائندوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں یا نہیں۔ اگرچہ مغربی جمہوریت بنیادی طور پر اشرافیائی مفادات کی محافظ ہوتی ہے لیکن عوام کی حمایت کے بغیر اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بھی جاری نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں حصول زر اور دولت کے انبار لگانے کی قانونی اور آئینی آزادی ہوتی ہے لہٰذا منتخب نمائندوں و حکمرانوں کی اولین ترجیح کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہی ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے نشان دہی کردی ہے اس جمہوریت میں بھی برسر اقتدار آنے کے لیے عوام کی حمایت ضروری ہوتی ہے، اس لیے حکمران طبقہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں چونکہ عوام سیاسی طور پر بیدار ہوتے ہیں لہٰذا پہلے تو وہ انتخابات میں امیدواروں کا سیاسی پس منظر دیکھتے ہیں، ان کی خدمات دیکھتے ہیں اور جس امیدوار سے وہ مطمئن ہوتے ہیں اسے ووٹ دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے بلدیاتی انتخابات جیت کر علاقائی عوام کے مسائل حل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بلدیاتی کارکردگی ہی وہ سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جو قانون ساز اداروں میں رسائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن ہماری شاہانہ جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کی زحمت کی جاتی ہے نہ بلدیاتی اداروں کو کام کرنے دیا جاتا ہے۔ 7-8 سال کے بعد پاکستان میں حکمران طبقات نے عدلیہ اور میڈیا کے سخت دباؤ کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات تو لشٹم پشٹم کرا دیے لیکن منتخب نمائندوں کو آئین کے مطابق انتظامی اور مالی اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں۔

کراچی کا منتخب میئر روتا پھر رہا ہے کہ بلدیاتی مسائل حل کرنے کے لیے نہ ہمارے پاس وسائل ہیں نہ اختیارات، پھر ہم علاقائی مسائل کس طرح حل کرسکتے ہیں؟ میئر کا حال ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ سا ہو کر رہ گیا ہے۔ ہماری جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں مخالفین پر مختلف الزامات کے تحت مقدمات بنا کر رکھ دیے جاتے ہیں ہمارے میئر صاحب پر بھی ایک نہ دو 39 مقدمات قائم ہیں جن کے تحت وہ جیل میں محبوس تھے، اپنا عہدہ سنبھالنے کے لیے انھیں جیل سے باہر آنا ضروری تھا اور جیل سے باہر آنے کے لیے سارے مقدمات میں ضمانت کرانا ضروری تھا۔ سو میئر صاحب کو اپنے خلاف درج 39 مقدمات میں ضمانت کرانا پڑی، تب کہیں جاکر وہ میئر کی کرسی پر بیٹھنے کے قابل ہوئے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مقدمات 20 سال پہلے قائم شدہ ہیں۔

ہماری جمہوری کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ شہر کا کچرا اٹھانے کا کام ایک چینی کمپنی کو دیا گیا ہے جو کراچی میں برسوں سے ڈمپ کچرا اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس قسم کی نااہلیوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جمہوری حکمرانوں کی ترجیحات میں عوامی مسائل کا حل شامل ہی نہیں۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے منتخب نمائندوں کے پاس نہ انتظامی اختیارات ہیں نہ مالی وسائل ہیں ایسے بے اختیار منتخب نمائندے بھلا کس طرح عوامی مسائل حل کرسکتے ہیں؟

کراچی میں رہنے والے ڈھائی کروڑ عوام پانی بجلی صفائی جیسی ضرورتوں سے محروم ہیں، کراچی شہر کچرے کا گڑھ بن گیا ہے گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سارا شہر گندے پانی میں ڈوبا ہوا ہے خاص طور پر مضافاتی علاقوں کی سڑکیں اور گلیاں گندے پانی سے اس طرح بھری ہوئی ہیں کہ یہاں سے گزرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اب چینی کمپنی کام شروع کرے گی تو عوام کو کچرے اور گندے پانی سے نجات ملے گی۔

کراچی میں سابق بلدیاتی میئر مصطفی کمال کے دور میں کراچی میں جو ترقیاتی کام ہوئے اس کی تعریف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی کی جاتی رہی ہے لیکن ہمارے سیاسی کلچر کا یہ اعجاز ہے کہ وہی میئر آج اپنا سارا وقت الزامی سیاست میں صرف کر رہا ہے۔ اس کلچر کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ روایتی طور پر الزامات اور جوابی الزامات میں اپنا سارا وقت لگا دیتی ہے۔

آج کل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے۔ بیرون ملک بینکوں میں جمع بھاری رقوم اور اربوں کی جائیدادوں کے الزامات اور جوابی الزامات سے میڈیا بھرا پڑا ہے یہی کلچر اب تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں عام ہو رہا ہے عوام حیرت سے اس الزامی اور جوابی الزامی سیاست کو دیکھ رہے ہیں، یہ اشرافیائی کلچر اب درمیانے طبقے کی سیاسی جماعتوں میں بھی در آیا ہے اور ان جماعتوں کے وقت کا بڑا حصہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں صرف ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جاگیردارانہ سیاست چونکہ الزامات اور جوابی الزامات کے پیروں پر کھڑی رہتی ہے لہٰذا یہی جاگیردارانہ کلچر عام ہو رہا ہے اس کا ایک مثبت فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ عوام اشرافیہ کے جرائم اور لوٹ مار سے واقف ہو رہے ہیں اور اشرافیہ سے ان کی نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی اختیارات دینے سے گریز کی وجہ بھی یہی ہے کہ جاگیردارانہ ذہنیت سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ موجود ہے جس کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے وہ متحرک بھی ہے لیکن بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے حوالے سے وہ بھی مجبور ہے کیونکہ اس کا فیصلہ پارٹی کی قیادت کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی میں نوجوان بلاول مرکزی حیثیت کے مالک ہیں اور 2018ء کے الیکشن جیت کر وزیر اعظم بھی بننا چاہتے ہیں، وزیر اعظم کے عہدے تک جانے کے لیے بلدیاتی اداروں میں خدمات انجام دینا پڑتا ہے خدمات نہ سہی اختیارات تو دے کر بلاول اپنے لیے عوام میں جگہ بنا سکتے ہیں۔