منتخب کردہ کالم

بے نظیر اور مریم نواز .. کالم الیاس شاکر

بے نظیر اور مریم نواز .. کالم الیاس شاکر

بے نظیر بھٹو کی زندگی نشیب و فراز کی داستان کا دوسرا نام ہے… جیلوں میں قید رہیں‘ صعوبتیں برداشت کیں… جلا وطنی تو قدم قدم پر تھی… اپنے والد (ذوالفقار علی بھٹو) دو بھائیوں (شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو) کو اپنی زندگی میں ہی مرتے دیکھا… بہن (صنم بھٹو) آج تک پاکستان واپس نہ آئی… ماں (نصرت بھٹو) صدمے سے مر گئی۔ اتنی کرب ناک زندگی گزارنے‘ اور طوفانوں میں پرورش پانے والی بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ بے نظیر بھٹو بلا شبہ نڈر اور دلیر خاتون تھیں۔ ان کی ہمت اور بہادری پر ہی حبیب جالب نے لکھا تھا:
ڈرتے ہیں بندوقوں والے اک نہتّی لڑکی سے،
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے اک نہتّی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں، مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں،
ملا، تاجر، جنرل جیالے، اک نہتّی لڑکی سے
‘آزادی کی بات نہ کر، لوگوں سے نہ مل‘ یہ کہتے ہیں
بے حس، ظالم، دل کے کالے، اک نہتی لڑکی سے!!!
بے نظیر گُڈ گورننس سے محروم تھیں اسی لئے شاید نہتّی لڑکی والے حبیب جالب ان کے پہلے دور اقتدار میں یہ بھی لکھ چکے تھے:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
کتنے بلاول ہیں دیس میں مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پاکستانی قوم نے بے نظیر بھٹو کا دو بار اتنا شاندار استقبال کیا کہ آج تک کسی اور سیاستدان کو ایسا فقیدالمثال استقبال نصیب نہیں ہوا۔ اپریل 1986ء میں لاہور اور اکتوبر 2007ء میں کراچی کے ایئر پورٹس اپنے اندر لاکھوں لوگوں کو سمونے کا تجربہ کر چکے ہیں۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کسے کہتے ہیں‘ آج بھی ان تصاویر اور فوٹیجز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایک تنہا نہتّی لڑکی‘ جو اپنے باپ کی زندگی بچانے پاکستان کی سڑکوں پر نکل آئی تھی… اسی لئے تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ اپنے باپ کے برعکس وہ فطرتاً اپوزیشن کی لیڈر تھی… ذوالفقار علی بھٹو تو فقط کچھ سال ہی اپوزیشن میں رہے لیکن بے نظیر بھٹو کم و بیش تیس سالوں تک اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سینہ سپر رہیں… بس اس کا نتیجہ نکلا قید، جلا وطنی اور پھر قتل۔
حال ہی میں سینئر سیاستدان چوہدری نثار نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ”مریم نواز کا بینظیر بھٹو سے موازنہ درست نہیں، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ بینظیر بھٹو نے جیلیں کاٹیں اور صعوبتیں برداشت کیں‘ مریم نواز کو پہلے عملی سیاست میں حصہ لے کر خود کو ثابت کرنا ہو گا، بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں، انہیں لیڈر کیسے مانا جا سکتا ہے‘ مریم نواز کا کردار صرف میاں نواز شریف کی بیٹی ہونا ہے‘‘۔
ایسا ہی کچھ بے نظیر کے بارے میں تھا جب لوگوں نے بے نظیر کو صرف وزیر اعظم کی بیٹی کے طور پر اپنے باپ کے ساتھ غیر ملکی دوروں یا فیملی یا سرکاری تقریبات کی تصویروں میں دیکھا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اخبارات میں بھٹو خاندان اور ان کی پارٹی کے کسی فرد کی تصویر شائع ہونا جرم سمجھا جاتا تھا۔ اسی دور میں ”بھٹو کی تصویر بے نظیر‘‘ کا نعرہ وجود میں آیا۔
مریم نواز کا بے نظیر بھٹو سے موازنہ بنتا ہے یا نہیں۔ پنجاب سے اٹھنے والا یہ سوال اب دیگر صوبوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔ مریم نواز بھی ”فیملی کرائسز‘‘ کی وجہ سے اچانک سیاست میں آئیں۔ پاناما نے ان کی ساکھ ضرور خراب کی لیکن سپریم کورٹ اور پھر نیب کی جانب سے ”کلین چٹ‘‘ نے ان کی سیاست کو مکمل تباہی سے بچا لیا… لیکن موازنہ کیا جائے تو… ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو بے نظیر میدان میں آئیں‘ جبکہ نواز شریف کو نااہلی کی سزا سنائے جانے پر مریم نواز کو میدان میں آنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں بھائی قتل ہوئے جبکہ مریم نواز کے دونوں بھائیوں کے خلاف نیب ریفرنس دائر کئے گئے۔ بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو شدید علالت کا شکار ہوئیں… مریم نواز کی والدہ کلثوم نواز بھی ان دنوں شدید علیل ہیں۔ ایک قدر تو اتنی مشترک ہے کہ آپ واقعی حیران رہ جائیں گے۔ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری ہیں لیکن سیاسی مفاد کے لئے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بھٹو لکھا… مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر ہیں لیکن انہوں نے بھی سیاسی مفاد کے لئے اپنے والد کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ مریم نواز نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری لی‘ لیکن اس معاملے میں بے نظیر بھٹو بہت آگے تھیں… بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا… اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو پنجاب نے بنایا… نواز شریف کو بھی پنجاب نے تیار کیا جبکہ اب مریم نواز کو ”پنجاب کی بے نظیر بھٹو‘‘ بنانے کی پلاننگ کامیابی سے جاری ہے… وہ گرج چمک کے ساتھ تقاریر کر رہی ہیں… نعرے لگوانے میں بھی انہوں نے کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ مریم نواز اس وقت لاہور کے حلقہ این اے 120 کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں اور نواز شریف‘ کلثوم نواز‘ حسن‘ حسین نواز سب لندن میں ہیں۔ مریم نواز کی قسمت بھی بینظیر کی طرح ”بحرانوں‘‘ سے بھری ہوئی ہے… بینظیر کی طرح مریم کے بھی شوہر سے تعلقات مثالی نہیں ہیں… جس طرح بھٹو خاندان دو‘ تین دھڑوں میں تقسیم ہوا اسی طرح شریف خاندان بھی دو حصوں میں بٹ چکا ہے… غنویٰ بھٹو اور ممتاز بھٹو نے جس طرح بھٹو خاندان کا الگ دھڑا بنایا تھا‘ اسی طرح شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور چوہدری نثار علی خان نے بھی شریف خاندان کا ایک ”خفیہ دھڑا‘‘ تیار کر لیا ہے‘ جو کسی بھی وقت منظر عام پر آ سکتا ہے… جس طرح بے نظیر کو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنمائوں کی مخالفت کا سامنا تھا‘ اسی طرح مریم نواز کے راستے میں بھی مخالفت کے ”سپیڈ بریکرز‘‘ ہیں… چوہدری نثار علی خان سیاست میں ”وراثت‘‘ کے خلاف لڑنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ چوہدری نثار کو مریم نواز کا مخالف بنانے میں میاں صاحب کی پالیسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پہلے انہیں ”کچن کیبنٹ‘‘ سے نکال باہر کیا گیا… پاناما کیس کو نووارد پارٹی رہنمائوں کے حوالے کر دیا گیا… سینئر وزراء کے مشوروں کے موقع پر بھی انہیں بلانے کی ”زحمت‘‘ ہی نہیں کی گئی… آخر میں جب وزارتِ عظمیٰ کی ”ریوڑی‘‘ بانٹنے کا موقع آیا تو پارٹی مفاد پر کاروباری مفاد کو ”مقدم‘‘ سمجھا گیا۔ ایسے حالات میں مریم نواز کے لئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ چوہدری نثار بھی موقع کے انتظار میں ہیں… وہ ”سیاسی پریشر ککر‘‘ کی سیٹی کسی بھی وقت بجا سکتے ہیں‘ جس کے بعد ”پکے پکائے‘‘ چالیس سے زائد ایم این ایز ان کے ساتھ ہی تحریک انصاف کا رخ کر سکتے ہیں۔ مریم نواز کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی این اے 120 کی انتخابی مہم تک مرکوز ہے… لیکن نیب ریفرنسز پر فیصلوں کے بعد آئندہ انتخابات مریم نواز کی سیاسی بصیرت کا کڑا امتحان ثابت ہو سکتے ہیں۔