منتخب کردہ کالم

بے نظیر بھی بیٹی تھی ۔۔۔۔طیبہ ضیاءچیمہ

بے نظیر بھی بیٹی تھی ۔۔۔۔طیبہ ضیاءچیمہ
سب کو علم تھا کہ نواز شریف کی سیٹ انہی کے پاس جائے گی۔لیکن ہم نے بارہا لکھا کہ پندرہ بیس ہزار کے مارجن سے جیت کو نواز شریف کی ہار سمجھا جائے۔ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نواز شریف کی پینتیس سالہ پرانی سیٹ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ حمزہ شہباز کی غیر حاضری اور عدم دلچسپی کے باعث نواز شریف ووٹر کا ٹرن آﺅٹ متاثر ہوا جبکہ شہباز شریف بھی مسلسل غیر حاضر رہے۔ جیت بہر حال جیت ہوتی ہے۔ تمام وفاقی و صوبائی مشینری، سرکاری سہولیات کے باوجود کم مارجن سے جیت در حقیقت ہار ہے۔ نواز شریف کی سیٹ کا بھرم رہ گیا۔کلثوم نواز بھی صحتیاب ہو گئی ہیں۔ اب جلد وطن واپسی ہے جبکہ نواز شریف نیب کیسز کی وجہ سے خود ساختہ جلا وطن ہیں۔ واپسی تیل دیکھ تیل کی دھار دیکھ کے مطابق ہو گی۔ الیکشن کا ایک مرحلہ طے ہوا اگلا مرحلہ سابقہ خاتون اوّل کی وزیر اعظم ہاﺅس انٹری کا ہے۔ اس نئی صورتحال میں نواز شریف کی وزیر اعظم ہاﺅس انٹری چوتھی بار ممکن ہو سکے گی لیکن بطور مرد اوّل۔۔۔۔ سپریم کورٹ سے اپیلیں مسترد ہونے کی صورت میں کلثوم نواز کی جیت نواز شریف کی قانونی مددگار ثابت نہیں ہو سکے گی البتہ بیٹی کی جانشینی کا عملی آغاز ہو چکا۔ کم مارجن سے جیت اور ن کے برسوں پرانے ورکروں کے ٹرن آﺅٹ میں کمی نواز پارٹی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ عام انتخابات میں اس میں مزید کمی واقع ہو نے کا امکان ہے۔پارٹی کے اندر سے ٹوٹ پھوٹ شدت اختیار کرچکی ہے۔ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی ہارعمران خان کی غیر دانشمندانہ سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس دبنگ خاتون نے گوالمنڈی کی دیرینہ روائتی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ نے میں کسر نہیں چھوڑی۔ عمران خان خود اعتمادی کی بجائے خود احتسابی کا عمل شروع کریں تو شاید عام انتخابات میں ڈاکٹر یاسمین راشد کم مارجن بھی عبور کر سکیں۔ نواز شریف نے جیت کی خبر ملتے ہی لاہور سے اپنے بندوں کی گمشدگی کا الزام داغ دیا۔ پارٹی ورکروں کی گمشدگی کا ذمہ دار کس کو قرار دینا مقصود ہے ؟ عدلیہ اور فوج کی جس قدر توہین نواز شریف، مریم اور ان کی پارٹی نے کی ہے تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اور عدلیہ مسلسل در گزر کا مظاہرہ کر رہی ہے ؟ اسٹیبلشمنٹ کس بلا کا نام ہے ؟ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ اگر اس قدر قابل توہین ہیں تو پاکستان کو واقعی اندر سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ مسلم لیگ ستر برسوں سے حروف تہجی میں تقسیم ہے۔ مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت ہے لیکن مسلم لیگ ن سے م بننے جا رہی ہے۔ مریم کہتی ہیں میرے والد صادق اور امین ہیں۔۔۔۔ درست کہا ہر بیٹی کی نظر میں اس کا باپ صادق و امین ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کہتی تھیں اس کے بے قصور معصوم باپ کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ وہ دو سیاسی بیٹیاں ہیں جن کے باپ بے انصاف عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے؟اس عدلیہ سے ایک عام انسان کو انصاف کی کیا توقع ؟بے نظیر اور مریم کا دکھ اب کچھ کچھ سانجھا ہو گیا ہے لیکن نواز شریف نے دیر کر دی۔بے نظیر بھٹو کے دکھوں کو نواز شریف پارٹی نے بری طرح اچھالا اسے تڑپایا ستایا۔ وہ بھی کسی کی بیٹی تھی۔ہمیں آج بھی یاد ہے مشرف کا دور تھا۔ بے نظیر بھٹو ریاست اوہائیو میں ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے تشریف لائیں۔گوروں سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔دہشت گردی کے خلاف لیکچر کے دوران نواز شریف کے خلاف بھی بولیں۔ نواز حکومت کے زرداری اور بھٹو فیملی کے ساتھ ظلم و ستم کا ذکر کیا۔ لیکچر کے بعد سٹیج سے اتریں تو امریکی میڈیا نے گھیر لیا۔ ہمیں مشرقی لباس میں دیکھ کر مسکرا دیں اور ہجوم ہٹاتے ہوئے قریب بلایا اور کہا آپ پاکستانی لگتی ہیں۔ ہم نے نوائے وقت کا حوالہ دیا تو بولیں نواز شریف کے خلاف میری باتیں ناگوار محسوس ہوئی ہوں گی ؟ ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ہمارا محمد علی جناح کی مسلم لیگ سے تعلق ہے جو پورے پاکستان کا ہے آپ کا بھی۔ محترمہ نے بڑی گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ” ہم ڈکٹیٹروں کے ظلم کے عادی ہو گئے ہیں لیکن جمہوریت کی آڑ میں نواز حکومت نے جو ظلم میرے شوہر اورلوگوں پر کئے وہ کہیں سے جمہوریت نواز کہلانے کے حقدار نہیں “۔۔۔۔ماضی کے سیاسی دریچوں میں جھانکیں تو دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے مکافات عمل ابھی شروع ہوا ہے۔ عشق کے امتحان ابھی بہت باقی ہیں۔