تاحیات نااہلی … آرٹیکل 62(1) (ایف)…سعد رسول
معزز سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک پانچ رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (f) (‘صادق اور امین‘ کلاز) کے تحت نااہلی کی مدت سے متعلق مقدمے کا تفصیلی فیصلہ سنا دیا ہے۔
یہ فیصلہ… جس کے نتیجے میں مِنجملہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہے … ہمارے سیاسی قبیلے میں کسی کے لیے بھی حیرت کا باعث نہیں بنا۔ بعض افراد کی جانب سے معزز عدالت پر روایتی تنقید کے باوجود اس فیصلے کے قانونی استدلال یا اس کے نتائج پر کم ہی اعتراض ہو سکتا ہے۔
اس کالم کی گنجائش اتنی نہیں کہ اس فیصلے کے تمام پہلوئوں کا تفصیلی تجزیہ کیا جا سکے پھر بھی چند معاملات ایسے ہیں جو خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔
معزز عدالت کے آئینی استدلال کی جزئیات پر غور کرنے سے پہلے اس امر کی نشان دہی کرنا اہم ہے کہ فیصلے میں نواز شریف کا ذکر (بالکل) نہیں کیا گیا۔ مقدمہ نواز شریف کی جانب سے دائر نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر نواز شریف کے حوالے سے بحث نہیں کی گئی۔ اس کا فیصلہ (بالخصوص) نواز شریف کے خلاف نہیں کیا گیا۔ نواز شریف کی تاحیات نااہلی اس فیصلے کا نتیجہ ہے۔ پس (بد نیتی پر مبنی) یہ بیانیہ کہ یہ فیصلہ ”نواز شریف کے خلاف‘‘ ہے، سراسر بے جا (واقعتا اور قانوناً) ہے۔
مقدمے کا سروکار فقط اس قانونی مفروضے سے تھا (اس سے قطعِ نظر کہ کون اس کے دائرے میں آتا ہے): چوں کہ آئین کے آرٹیکل (62) (1) (f) کے تحت نااہلی کی مدت کے بارے میں خاموش ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ زمانی دورانیہ کتنا ہونا چاہیے؟
اس معاملے پر (بطور خالصتاً قانونی مفروضے کے) معزز عدالت نے فاضلانہ اور مفصل استدلال کے ساتھ جامع غور و خوض کیا، جسے کاملاً لائقِ اعتبار محترم جسٹس عمر عطا بندیال نے تصنیف کیا ہے۔ جسٹس عطا بندیال نے (عدالت کے لیے لکھتے ہوئے) ابتدا ہی میں واضح کر دیا کہ ”یہ اہم سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر اس کے خلاف کسی عدالت نے قرار دیا ہے کہ وہ ہوش مندی یا راست بازی سے عاری ہے یا بد کار ہے یا بد دیانت ہے یا امین نہیں ہے تو کیا آرٹیکل 62 (1) (f) کی رو سے عائد ہونے والی نااہلی دائمی ہے۔‘‘ معزز عدالت نے یہ معاملہ فقط اس باعث لیا تھا ”… کیوں کہ آئین کا آرٹیکل 62 (1) (f) نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کرتا …‘‘۔
عدم تعین کے اس قانونی مفروضے کے ساتھ جسٹس عطا بندیال مختلف وکلا کے دلائل کا ملخص پیش کرتے ہیں جس میں بنیادی طور سے دو متضاد نزاعات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ایک طرف یہ دلیل دی گئی تھی کہ چوں کہ آئین کا آرٹیکل 62 (1) (f) مدت کا ذکر خصوصاً نہیں کرتا اس لیے اسے ”دائمی پابندی‘‘ پڑھا جانا چاہیے۔ دوسری طرف دلیل یہ پیش کی گئی کہ چوں کہ ”اخلاقی برائی‘‘ پر مبنی کسی جرم کے ارتکاب پر نااہلی کی مدت ”پانچ سال‘‘ مقرر کی گئی ہے (آرٹیکل 63 (1) (h) کے تحت)، لہٰذا ”صادق اور امین‘‘ کلاز کے تحت (اس میں اخلاقی برائی کے عناصر شامل ہیں) نااہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
ان (اور دوسرے) دلائل کا تجزیہ کرتے ہوئے جسٹس عطا بندیال لکھتے ہیں کہ ”صادق اور امین‘‘ کا آئینی تقاضا بنیادی طور سے قرآنی مآخذ اور حضرت محمدﷺ کی سیرت سے اخذ کیا گیا ہے اس لیے ”عام فانی انسان اس کے مساوی نہیں ہو سکتے‘‘۔ تاہم بوجوہ ایک آمر کی جانب سے یہ تقاضا آئین میں داخل کیے جانے کے بعد ”منتخب‘‘ پارلیمانوں نے اس میں ترمیم یا اخراج کے بے شمار مواقع دستیاب ہونے کے باوجود اسے قانون کی کتابوں میں موجود رہنے دیا۔
جسٹس عطا بندیال نے یہ مفروضہ رد کرتے ہوئے کہ ”صادق اور امین‘‘ کلاز کو ”اخلاقی برائی‘‘ کی ذیل میں پڑھا جانا چاہیے، نشان دہی کی کہ آرٹیکل 62 (1) (f) اور آرٹیکل 63 (1) (h) ”مختلف اور الگ‘‘ ہیں، لہٰذ ا ”آئین کے تحت اپنا مختلف مقام، معانی اور اثر‘‘ رکھتے ہیں۔ آرٹیکل 63 (1) (h) ”جرم کی ذمہ داری کے نتائج سے متعلق‘‘ ہے تو آرٹیکل 62 (1) (f) کسی ”دیوانی‘‘ خطا کے مقدمات میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔
درایں حالات جیسا کہ معزز عدالت پہلے چار مواقع پر قرار دے چکی ہے (نظائر)، جسٹس عطا بندیال لکھتے ہیں، ”یہ امر معقول ہے کہ (آرٹیکل 62 (1)(f) کے تحت) انتخابی نمائندے پر لاگو کی جانے والی نااہلی اتنی مدت برقرار رہنا چاہیے جتنی مدت (کسی مجاز عدالت) کی جانب سے اس کا اطلاق مؤثر ہو۔‘‘ جسٹس عطا بندیال نے پرزور دلیل دیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ ”اگر ایسا اعلان حتمی اور واجب ہے تو آئین کی رو سے کسی بھی مقننہ کے انتخابات لڑنے سے نااہل قرار دیا جانا دائمی بن جاتا ہے،‘‘ جس کے نتیجے میں منجملہ نواز شریف تاحیات نااہل قرار پاتے ہیں۔
اس نتیجے کے لیے زیادہ واضح استدلال (مختصر) اضافی نوٹ میں پیش کیا گیا ہے، جسے جسٹس شیخ عظمت سعید نے تصنیف کیا ہے، اور جو اپنی جگہ ایک مکمل فیصلہ ہے۔ درحقیقت جسٹس عظمت سعید کے نوٹ کا واضح پن اور صراحت تقریباً باقی تفصیلی استدلال کو سطحی بنا دیتی ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید کا نوٹ قانونی ٹیکنیکل امور (نیز مرکزی فیصلے کی مذہبی بنیاد) سے گریز کرتے ہوئے آئین کی شق کی زبان پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نشان دہی کرتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت کسی ”صادق اور امین‘‘ شخص کی نااہلی ”کسی عدالت کی جانب سے اس کے برخلاف قرار نہ دیے جانے‘‘ سے مشروط ہے۔ اسی طرح ”واضح، قانونی اور منطقی نتیجہ تب تک رہے گا جب تک سبب‘ بالفاظِ دیگر عدالت کا اعلان لاگو ہے، اس کا اثر‘ بالفاظِ دیگر نااہلی بھی لاگو رہے گی۔‘‘ انھوں نے (یقینی صراحت سے) بجا لکھا ہے کہ ”کوئی عاقل شخص اس کے برخلاف سنجیدگی سے خواہش نہیں کر سکتا۔‘‘
اس دلیل پر اختصار سے بات کرتے ہوئے کہ معزز عدالت کو آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت بیان کردہ مدتوں کی روشنی میں آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت ایک خاص مدت کا تعین کرنا چاہیے تھا، جسٹس شیخ عظمت سعید واضح کرتے ہیں کہ ”اس عدالت کو آئین کی تعبیر کا اختیار تو حاصل ہے لیکن اس میں ترمیم کا نہیں۔‘‘ نتیجتاً وہ لکھتے ہیں کہ ”ہم آئین کے آرٹیکل 62 (1)(f) میں ایسی نااہلی کی مدت پڑھ نہیں سکتے جسے اس میں بیان نہیں کیا گیا۔‘‘ مزید برآں اس دلیل کے جواب میں کہ دائمی نااہلی ”نامتناسب اور قدرے سخت‘‘ ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید لکھتے ہیں کہ ”یہ ستم ظریفی‘‘ ہے کہ اس مقدمے کے کئی فریقوں نے… جو پارلیمان کے رکن تھے یا رہے ہیں… آرٹیکل 62 (1)(f) کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے لیے قانون سازی نہیں کی اور اب معزز عدالت سے کہ رہے ہیں کہ وہ ان کی بجائے ”قانون سازی‘‘ کرے۔
معزز عدالت کا فیصلہ مکمل پڑھنے سے انسان یہ ناگزیر نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ نواز شریف، جہانگیر ترین (اور آرٹیکل 62 (1))(f) کے دائرے میں آنے والے دوسرے پارلیمنٹیرین) قانون سازی کے معاملات میں اپنی کاہلی کے خود شکار ہو گئے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں تک بھی انھوں نے آئین کی شقوں (خصوصاً اہلیت/ نااہلی سے متعلق شقوں) کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بہرحال ایک ایسے ملک میں جہاں جاتی امرا اور لاڑکانہ کے شاہی خاندان حکومت کرتے ہوں، وہاں بادشاہ کے خلاف (علمی) آئینی شقوں کے اطلاق کی جرأت کون کر سکتا ہے؟ کس میں اتنی جرأت ہے کہ بادشاہ کو بتائے کہ اس نے لباس نہیں پہن رکھا؟ ایک ایسی جمہوریت میں جو بادشاہ کے حواریوں کے سوا کچھ نہ ہو، قانون کی غیر واضح شق کیا طاقت رکھتی ہے؟ آخر ایک تتلی طوفان کو کس طرح دعوتِ مبارزت دے سکتی ہے؟
شکر ہے تقریباً ستّر سال کی بے دست و پا جمہوریت اور انفرادی جاگیروں کے بعد ہمارے آئین اور ریاستی اداروں نے طاقت کے سامنے سچ بولنے کی جرأت کی ہے۔ ہم قانون سازوں کی حکمرانی کی بجائے قانون کی حکمرانی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک خاموش انقلاب آنے کو ہے۔ وہ انقلاب جو ‘سٹیٹس کو‘ کی مورچہ بند قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالے گا … فقط قانون کے اطلاق اور نفاذ کے ذریعے۔ اس اہم ترین ساعت میں ہمارے قانون اور آئین کو ان سب کی مدد ضرورت ہے جو اَب تک ایک طرف خاموش بیٹھے تھے۔