منتخب کردہ کالم

تاحیات نا اہل پرویز مشرف اب تک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں

جہانگیر

تاحیات نا اہل پرویز مشرف اب تک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں
ہر کوئی کریز سے باہر نکل کر چوکے چھکے لگانا اپنا حق سمجھتا ہے لیکن دوسروں کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں، وکیل کہہ رہے ہیں وہ اس ترمیم کے خلاف تحریک چلائیں گے جو پارلیمنٹ نے منظور کی ہے اور جس سے ’’ایک شخص‘‘ کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ حالانکہ وکلاء کا میدان عدالتیں ہیں، ان کو اپنی تگ و تاز عدالتوں تک رکھنی چاہئے، ویسے بھی یہ قانون کا معاملہ ہے، بہتر ہے اسے قانونی طریقے سے ہی حل کیا جائے، وکلاء اگر عدالتوں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکلیں گے تو بھی ضروری نہیں کہ معاملہ ان کی مرضی کے مطابق حل ہو، ایک وکیل صاحب نے ایک جج صاحب کی توہین کی اور ان کے نام کی تختی اتار کر پھینک دی تھی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اس حرکت کا نوٹس لیا تو وہ اور بپھر گئے اور طلبی پر بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ جس دن انہوں نے ہائی کورٹ میں توہین عدالت کے الزام میں پیش ہوکر وضاحت کرنی تھی، اس دن وکلاء نے احاطۂ عدالت میں ہنگامہ کر دیا۔ اب تک یہ کیس ملتوی چلا آرہا ہے، نہ تو توہین عدالت کا الزام واپس لیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے برعکس کوئی فیصلہ ہوا ہے، لیکن یہ امر واضح ہے کہ ایک قانونی معاملے کو قانون ہاتھ میں لے کر اور طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی، حالانکہ قانون دانوں کا یہ منصب نہیں کہ وہ اس قانون کو پاؤں تلے روندیں جس کے ذریعے کمایا ہوا رزق وہ کھاتے ہیں، یہ صرف ایک معاملہ نہیں ہے، بہت سے دوسرے کیسوں میں بھی وکلاء نے ججوں کی توہین کی، انہیں کمرۂ عدالت میں بند کرکے باہر سے تالا لگا دیا اور بعد میں بڑوں کی مداخلت سے یہ معاملہ حل ہوا۔ بات ہو رہی تھی ایک قانونی ترمیم کی، جس سے فائدہ اٹھا کر میاں نواز شریف اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ یہ قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے جو آزاد اور خود مختار ادارہ ہے لیکن بہت سے سیاستدان بھی اسے یہ حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں، وہ بھی نہیں جو اس ایوان کے اندر بیٹھے ہیں، مثلاً عمران خان ہی کو لے لیں، انہوں نے ہزاروں مرتبہ کہا کہ پارلیمنٹ میں چور اچکے اور ڈاکو بیٹھے ہیں، وہ ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے للکارا مار کر کہا، ایاز صادق، تم ہمارے استعفے منظور کیوں نہیں کرتے، ہم نے استعفے دئیے ہیں، یہ ہمارا معاملہ ہے تم کون ہوتے ہو ہمارے استعفے نامنظور کرنے والے۔ یہ فوراً منظور کرو، یہ ہمارا مطالبہ ہے، ہم چوروں، ڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، وہ سپیکر کو ’’مسٹر سپیکر سر‘‘ کہنے سے بھی انکار کرچکے، لیکن ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ چوروں ڈاکوؤں کی اسی اسمبلی کے ایک عہدے قائد حزب اختلاف کے حصول کے لئے اب عمران خان کی جماعت کے ایک رہنما شاہ محمود قریشی کو کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل جانا پڑا ہے۔ اب انہیں احساس نہیں کہ جس اسمبلی میں سارے چور ہیں، اس کا اپوزیشن لیڈر بننے کا کیا فائدہ؟ اسی اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا ہے جس نے ایک نااہل شخص کو دوبارہ پارٹی صدر بنا دیا ہے، اب انہیں اس پر اعتراض ہے اور وہ اس معاملے کو عدالت میں لے کر جا رہے ہیں۔ کیا خوبصورت تضاد ہے کہ وکلاء اپنا میدان چھوڑ کر سڑکوں پر آنا چاہتے ہیں اور جو پہلے سے سڑکوں پر ہیں وہ عدالتوں میں جاکر یہ فیصلہ کرانا چاہتے ہیں کہ جو قانون پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟ یہ قانونی مسئلہ ہے اور جب کسی عدالت میں جائے گا اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا بھر کی پارلیمنٹس جو قانون سازی کرتی ہیں، اس کا انہیں کوئی الہام ہوتا ہے اور کیا وہ کسی ڈیوائن گائیڈنس کی روشنی میں کام کر رہی ہوتی ہیں؟ دنیا کی ہر پارلیمنٹ کے قانون دان اپنے ملک اور اپنے معاشرے کے لئے قانون بناتے ہیں۔ آپ ذرا ان قوانین پر ایک نظر ڈالیں تو آپ پر منکشف ہوگا کہ یہ سارے قوانین، پاکیزہ اور دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہوتے۔ ان قوانین میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو انسانی جبلت کے بھی خلاف ہوتے ہیں، لیکن پارلیمنٹس ایسے برے قانون بھی بناتی ہیں۔ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان بھی جو قانون سازی کرتے ہیں، وہ یہاں کی روایات اور سیاسی و معاشرتی ضرورتوں کے مطابق ہوتی ہے۔ ملک کا ایک تحریری آئین ہے جس کی روشنی میں قانون سازی ہوسکتی ہے۔ آئین کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا، لیکن ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ قانون کو سرد خانے میں رکھ کر من پسند قانون سازی کرلی گئی اور جب ایسا ہوگیا تو آئین بحال کر دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے عہد میں ہونے والی قانون سازی کی تاریخ پر نظر ڈال لیں اور اگر آپ کو توفیق ملے تو قومی اسمبلی کی لائبریری میں جاکر اس وقت ہونے والی قانون سازی کی ریکارڈنگ سن لیں، آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ اب سارا فوکس نواز شریف پر ہے لیکن جس شخص کو عمر بھر کے لئے الیکشن لڑنے کا نااہل قرار دیا گیا ہے، اس کی جانب کسی کا دھیان نہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف بدستور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر ہیں، کبھی کسی نے اس پر اعتراض کیا؟ الیکشن کمیشن نے کوئی خط لکھا کہ وہ نااہلی کے باوجود صدارت سے کیوں چمٹے ہوئے ہیں، سارا زور نواز شریف پر ہی چلتا ہے؟ اب تو جنرل بھی اس قانون کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 2013ء میں انہوں نے جس حلقے سے بھی کاغذات نامزدگی داخل کئے، مسترد ہوگئے۔ ایک حلقے میں تو انہیں عمر بھر کے لئے الیکشن لڑنے کے نااہل قرار دیا گیا، لیکن کبھی نہیں سنا کسی سیاست دان نے کہا ہو کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی سربراہی کیونکر کر رہے ہیں، لیکن اب پارلیمنٹ کے منظور کئے ہوئے ایک قانون پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اس حد تک توبات ٹھیک ہے کہ اگر عدالت نے یہ تشریح کر دی کہ یہ قانون آئین کی روح کے خلاف ہے اور اسے ختم کرنے کا حکم دے دیا تو صورت حال بدل جائے گی، لیکن عدالتیں قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، لوگوں کی خواہشات کے تابع نہیں، لیکن دانشوروں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ یہ نیا قانون آئین سے متصادم ہے، کس بنیاد پر یہ نہیں معلوم، بس ان کا فرمایا ہوا مستند ہے، اس لئے وہ لٹھ لے کر اپنی یہ بات منوانا چاہتے ہیں۔ اپنی بات پر اصرار اور دوسروں کو ہر قیمت پر غلط قرار دینے کا یہ رویہ مستحسن نہیں ہے، انسانوں کی آرا مختلف ہوتی ہیں اور غلط بھی ثابت ہو جاتی ہیں اور درست بھی۔ جسٹس محمد منیر بہت لائق فائق جج تھے، کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے ایک فیصلے کی وجہ سے آج تک ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟