منتخب کردہ کالم

’’تاریخی خط‘‘ … الیاس شاکر

ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) نے کہا تھا ”میری کرسی بہت مضبوط ہے‘ مجھے کوئی ہلا نہیں سکتا‘ کوئی ہٹا نہیں سکتا‘‘۔ اس پر پی این اے کے سربراہ مفتی محمود (مرحوم) نے جواب دیا ”کرسی واقعی مضبوط ہے لیکن کرسی پر بیٹھا ہوا شخص مضبوط نہیں‘ کمزور ہے‘‘۔ اس واقعہ کو 39 سال بیت گئے‘ لیکن اگر بھٹو کی جگہ آج کے حکمرانوں اور مفتی محمود کی جگہ عمران خان کو رکھا جائے تو یہ صورتحال آج کی ہی معلوم ہوتی ہے۔ بھٹو نے اپنی حکومت بچانے کے لئے طاقت کا ہر حربہ استعمال کیا۔ آج میاں نواز شریف بھی وہی کر رہے ہیں۔ 2 نومبر کے دھرنے سے قبل ایسا ”ٹیمپو‘‘ بنایا جا رہا ہے کہ دھرنا اپنے وقت سے پہلے ہی شروع ہو جائے… ”لاک ڈائون‘‘ سے پہلے ”کریک ڈائون‘‘ کا دھواں دھار افتتاح کیا گیا ہے… حالات کو اس ”موٹر وے‘‘ پر ڈالا جا رہا ہے جو صرف ون وے ہے اور واپسی کا راستہ منزل ہی تبدیل کر دیتا ہے۔ کل بھی یہ مصرعہ لکھا گیا اور آج بھی لکھا جا رہا ہے… مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اسلام آباد کا سیاسی موسم روز بروز گرم ہوتا جا رہا ہے۔ عدالتی فیصلے ”ڈھال‘‘ کا کام کر رہے ہیں۔ عمران خان عوام کی طاقت سے اپنے سیاسی احتجاج کو منظم کرکے اسلام آباد پر ”سیاسی حملہ‘‘ کرنا چاہ رہے ہیں‘ اور اندرونی طور پر بے چین حکومت بظاہر اطمینان کے ساتھ ”سرکاری محلات‘‘ میں بیٹھ کر سرکاری ملازمین اور پولیس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کیا سرکاری نوکروں کو سیاسی احتجاج روکنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب آئین کو سمجھنے والا کوئی بھی شخص دے سکتا ہے۔ حکومت‘ انتظامیہ اور پولیس سیاسی ایجی ٹیشن کے مقابل اس وقت آتی ہے جب کوئی گروہ لا اینڈ آرڈر (امن و امان) کا مسئلہ پیدا کر رہا ہو… یا قومی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہو… اور جب انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہو تو حکومت ”محدود پیمانے‘‘ پر پولیس اور انتظامیہ کو استعمال کر سکتی ہے لیکن اگر وہ کسی سیاسی عمل کو روکنے کے لئے ایسا کرتی ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ آئین کو چیلنج کر رہی ہے… جس سے ملک میں افراتفری جنم لیتی ہے… اور حالات آہستہ آہستہ اس قدر بے قابو ہو جاتے ہیں کہ 1977ء یاد آ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مواقع جب جب آتے ہیں بہت کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ تبدیلی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ آج بھی ایک طرف حکومت کی طاقت ہے تو دوسری جانب نہتے عوام ہیں۔ 1977ء میں جب مایوسی حد سے بڑھ گئی تو اس وقت کے ایک مقبول رہنما اصغر خان نے مسلح افواج کو ایک خط لکھا تھا‘ اور انہیں کچھ مشورے دیئے تھے۔ اس خط کے خاص خاص نکات یہ ہیں۔
25 اپریل1977ء
میرا یہ پیغام ڈیفنس سروسز آف پاکستان کے چیف آف اسٹاف اور افسروں کے نام ہے۔ آپ کا یہ فرض ہے کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کا دفاع کریں اور خود پر متعین اعلیٰ افسران کے قانونی احکامات کی انجام دہی کریں۔ قانونی اور غیر قانونی احکامات میں تمیز کرنا ہر افسر کا فرض ہے۔
اب تک آپ یہ جان چکے ہوں گے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن ایک سازش تھی‘ جس میں موجودہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شاطرانہ کردار ادا کیا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ کن حالات میں بلوچستان میں فوجی ایکشن کیا گیا اور یہ ایکشن کتنا غیر ضروری تھا۔ آپ شاید گزشتہ سال دیر‘ صوبہ سرحد میں کئے گئے فوجی ایکشن سے بھی آگاہ ہوں گے۔ اگر آپ کو قومی مفادات سے کوئی دلچسپی ہے تو آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ الیکشن مہم میں عوام نے موجودہ حکومت کو زبردست طریقے سے مسترد اور نامنظور کر دیا ہے۔ عوام کی طرف سے موجودہ حکومت کو مسترد کر دینے کے باوجود آپ موجودہ الیکشن کے نتائج پر حیران ہوئے ہوں گے کہ پاکستان قومی اتحاد‘ جسے عوام کی زبردست تائید حاصل ہے‘ صوبہ پنجاب کی 116 نشستوں میں سے صرف آٹھ نشستیں جیت سکا۔ آپ یقینا یہ بھی جانتے ہوں گے کہ متعدد لوگوں کو اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ کیا آپ اسے ایک اتفاقی امر کہیں گے کہ وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف کسی شخص نے کاغذات نامزدگی داخل ہی نہیں کئے۔ جن لوگوں نے کاغذات داخل کرنے کی کوشش کی انہیں چند راتیں پولیس کی حراست میں رہنا پڑا‘ جن میں سے ایک کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔
آپ میں سے جن لوگوں کی ڈیوٹی 7 مارچ کے الیکشن کے سلسلے میں متعین کی گئی تھی وہ جانتے ہوں گے کہ دھاندلی کتنے وسیع پیمانے پر ہوئی ہے۔ قومی اتحاد کے امیدواروں کے لاکھوں بیلٹ پیپروں کو بیلٹ بکسوں میں سے نکال لیا گیا‘ جو 7 مارچ کے انتخابات کے بعد پاکستان کی گلیوں اور کھیتوں میں پائے گئے۔ صوبائی انتخابات کے موقع پر 10 مارچ کو جب قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی تو آپ نے ویران اور صحرا زدہ پولنگ اسٹیشن دیکھے ہوں گے۔ اس کے باوجود حکومت کے ذرائع نے اعلان کیا کہ ووٹ بھاری تعداد میں ڈالے گئے ہیں اور یہ ڈالے گئے ووٹ کل تعداد کا 60 فیصد سے زائد تھے اور پھر آپ نے اس تحریک کا بھی نظارہ کیا ہو گا‘ جو بھٹو کے استعفے اور عام انتخابات کے دوبارہ انعقاد کیلئے چلائی گئی تھی۔ ہاتھوں میں بچے اٹھائے ہزاروں عورتوں کا گلیوں میں نکل آنا ایسا منظر تھا‘ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہی عورتیں تھیں جن کے متعلق بھٹو کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اسے ووٹ دیئے تھے۔ اس تحریک نے چند دنوں میں یہ بات ثابت کر دی کہ عوام نے بھٹو اور اس کی حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔
ہمارے ہزاروں نوجوانوں کی موت اور مائوں بہنوں پر تشدد کے واقعات نے آپ کے سر شرم اور غم سے جھکا دیے ہوں گے۔ کیا آپ نے سوچا کہ لوگوں نے خود کو اتنی مصیبت میں کیوں ڈالا؟ مائیں گود میں بچے لئے گولیوں کا سامنا کرنے کیوں آئیں؟ والدین نے اپنے بچوں کو پولیس کی گولیوں اور لاٹھیوں کا سامنا کرنے کی اجازت کیوں دی؟ یقینا اس لئے کہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کیا گیا ہے۔ ان کے حکمرانوں نے انہیں قبول کرنے یا مسترد کرنے کا بنیادی حق دینے سے انکار کر دیا ہے۔ جب ہم نے عوام کو سمجھایا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ نے مسلح افواج کے افسر ہونے کی حیثیت سے جس آئین کا دفاع کرنے کا حلف اٹھایا ہے‘ اس آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل (3)218 کے مطابق کسی انتخابات کے سلسلے میں تشکیل کردہ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ الیکشن کے سلسلے میں ایسے انتظامات کرے جن کے نتیجے میں ایماندار، منصفانہ، آزادانہ اور قانون کے مطابق انتخابات ممکن ہو سکیں جبکہ وہ اس سلسلے میں بدعنوانیوں کو ختم کرے۔
ایک باوقار شخص کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنے فرائض کو انجام دیں۔ موجود حالات میں فرائض کا مطلب غیر قانونی احکامات کی اندھا دھند بجا آوری نہیں ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کا ہر شخص خود سے یہ پوچھے کہ وہ صحیح کر رہا ہے یا غلط۔ آپ کے لئے وہ وقت آ گیا ہے کہ اس اپیل کا ایمانداری سے جواب دیں اور پاکستان کو بچائیں۔ خدا آپ کی حفاظت کرے۔ …محمد اصغر خان
اصغر خان کے اس خط کی تقسیم کے بعد پورے ملک میں ہلچل مچ گئی تھی۔ سرکاری میڈیا اور اخبارات نے اصغر خان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ”فوج کو اقتدار پر قبضے کی دعوت دی ہے‘‘۔ اصغر خان نے اپنی وضاحت میں کہا کہ وہ ”فوج کو ایسی کوئی دعوت نہیں دے رہے‘‘ لیکن اُس وقت اُس وضاحت کو بیشتر حلقوں نے تسلیم نہیں کیا۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے سے دو روز قبل اصغر خان نے مفتی محمود کو اطلاع دی کہ حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور فوج کی کچھ تیاریاں محسوس ہو رہی ہیں۔ جب یہ بات ذوالفقار بھٹو تک پہنچی تو انہوں نے کہا کہ لوگ اپنا قد بڑھانے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا‘ فوج میری وفادار ہے اور میرے ساتھ ہے‘ چاروں فوجی سربراہان نے میری حمایت میں بیانات دئیے ہیں اور میری حکومت کو تسلیم کیا ہے لیکن دو دن بعد بھٹو کا اقتدار کے ”مین سوئچ‘‘ پر رکھا ہاتھ ایک جھٹکے سے ہٹا دیا گیا۔ وزیر اعظم ہائوس کے اندر اور باہر فوج چہل قدمی کرتی ہوئی نظر آئی… اور بھٹو صاحب ”حفاظتی تحویل‘‘ میں چلے گئے۔
محمد اصغر خان وہ خط یقیناً مختلف تناظر میں لکھا تھا؛ تاہم موجودہ حالات حکمرانوں سے تدبر کا تقاضا کر رہے ہیں۔