منتخب کردہ کالم

تازہ دم آرمی چیف اور پُرانی جنگ .. کالم صولت رضا

دو ہزار سولہ کے گیارہویں مہینے کی انتیسویں تاریخ کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے تبدیلی کمان کی تقریب میں روایتی سٹک بری فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کی اور لاتعداد خیر خواہوں کی خواہشات کی لاج رکھتے ہوئے عزت و وقار کے ساتھ جنرل ہیڈ کوارٹرز سے رخصت ہو گئے ۔ یہ انتظامی لحاظ سے معمول کی تقریب تھی لیکن اس کے انعقاد سے قبل سیاست اور صحافت کے حاضر سروس پیادے اور ریٹائرڈ شہ سوار گتھم گتھا ہو چکے تھے ۔ انتظار جنرل راحیل شریف کی مدت ِ ملازمت میں توسیع کا تھا کیونکہ اُن کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی شفاف وردی پر سابق صدر آصف علی زرداری سے تین برس کی توسیع کا تمغہ سجا چکے تھے ۔ اس توسیع کے بعد سول ملٹری تعلقات ربطِ باہمی کی معراج پر تھے تاہم یہ کیفیت ابتدائی دور تک ہی محدود رہی اس کے بعد بتدریج گرم جوشی روایتی اُتار چڑھاؤ کی زد میں تھی۔ پیپلز پارٹی کے وزرائے اعظم نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ‘‘ صدارتی ”جمہوریت کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ آخر کار وزرائے اعظم ایک عالی مرتبت چیف جسٹس کی حُسن ِ نظر کا شکار ہو گئے ۔ یہ دونوں آج بھی عدلیہ کی نظر اُتارنے کا نسخہ تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے تین سالہ دور میں استقامت کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی ادا کئے ۔ خاص طور سے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ اور روایتی دشمن کودو ٹوک اور بروقت جواب دینے کے انداز نے اُنہیں عوامی سطح پر ہمیشہ سر بلند رکھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو گا کہ جب جنرل راحیل شریف کی والہانہ انداز میں میڈیا میں رونمائی نہیں ہوئی ۔ اس کیفیت کے باعث حالت ِ جنگ کا مجموعی تاثر وقوع پذیر ہونے والے واقعات
کے زیر ِ اثر ہی رہا۔ عوام آج بھی جاری جنگ کے انجام کے بارے میں گومگو کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال سے نبرد آزما ہو نا تازہ دم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یقیناپہلی ترجیح ہو گی۔
جنرل راحیل شریف کا بھرپور دور پُر آشوب سیاسی اور عسکری واقعات سے بھی مزین ہے ۔ خاص طور سے اسلام آباد میں طویل المیعاد دھرنا کے موقع پر حکومت نواز سیاست کاروں نے ہائی کمان کے چند سینئر افسروں پر الزام تراشی کا بازار گرم کئے رکھا۔چند ایک ریٹائر ڈ آرمی افسروں کو بھی نشانے پر لیا۔ اس سیاسی مہم کا مقصد بنیادی طور پر خود کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے متوقع جھٹکے سے ماضی کی طرح گرتے ہوئے گراف کو بہتر بنانا تھا۔ جنرل راحیل شریف مشترکہ اجلاس میں کی گئی نوک دار تقاریر برداشت کرتے رہے ۔ یہ ایک صبر آزما مرحلہ تھا ، لوہا گرم تھا صرف ایک بھرپور چوٹ کی ضرورت تھی۔ آرمی چیف نے اپنے رویے اور عمل سے رائج الوقت جمہوریت کو مزید توانائی فراہم کی۔ برسوں سے حکومت اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے سیاست کاروں نے سکھ کا سانس لیا ۔ابھی کشمکش جاری تھی کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں ننھے بے قصور طالب علموں کے قتل ِ عام کا اندوہناک واقعہ پیش آگیا جس نے سیاسی اور عسکری قیادت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ حسب ِ توقع آل پارٹیز کانفرنس کادور چلا اور اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ۔ جنرل راحیل شریف کی زیرِ قیادت پاک افواج نے متعدد عسکری اہداف حاصل کئے تا ہم بعض اہداف جن کی حصول کے لئے ترجیحات کی از سر ِ نو ترتیب درکار تھی وہ تا حال سیاسی بے توجہی کا شکار ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان پر شفاف عمل در آمد کا معاملہ وقت گذر نے کے ساتھ متنازع ہو گیا ہے ۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں روز ِ اول سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ پنجاب کے بارے میں جزوی استثنا کا تاثر پریشان کن ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے دورِ کمان میں متعدد بار پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی میں رینجرز آپریشن کی مانند شہری علاقوں میں کار روائیوں کا مطالبہ دہرایا گیا لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے طاقتور وفاقی اور صوبائی حکمرانوں نے اجازت نہیں دی۔ اس کیفیت کا زمینی فائدہ بھی مذکورہ سیاستدانوں نے ہی اُٹھایا۔
جنرل راحیل شریف آرمی کے5 1 ویں آرمی چیف تھے۔ وہ سابقہ آرمی چیفس کی مانند تاریخ کا ایک اور درخشاں باب بن گئے ہیں۔ اُن کے دور کا اب مورخ ہی بھرپور جائزہ لے گا۔ البتہ عملی اقدامات کے اثرات مدتوں محسوس کئے جائیں گے ۔ اُن کے اقدامات کے دفاع کی ذمہ داری اب آئی ایس پی آر پر عائد نہیں ہوئی ۔ شاید اس روایت کے پیش ِ نظر وطن ِ عزیز کی سیاست اور حکمرانی سے منسلک شخصیات اور خاندان آرمی چیف کی مدت ملازمت کو ذہن میں رکھ کر ذاتی خودنمائی اور نسلی تفاخر کے منفی رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔ ماضی میں سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان نے اس زمانے کی جمہوریت کی افواج کے خون پسینے سے آبیاری کی ۔ جنرل ٹکا خان کا انتخاب سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سوچ سمجھ کرکیا تھا ۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی آرمی کے آخر ی کمانڈر انچیف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن کو غیر تقریبی انداز میں رخصت کیا۔ اور جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد بلوچستان اور خیبر پختونخوا ( تب صوبہ سرحد) کی منتخب حکومتیں برطرف کر دی گئیں ۔ بلوچستان مین آپریشن شروع ہو گیا۔ کراچی سے پانچویں کور کا ٹیکٹیکل ہیڈ کوارٹر کوئٹہ منتقل ہو گیا ۔تب کوئٹہ میں کور کمانڈر ہیڈ کوارٹرز نہیں تھا۔
بلوچستان میں بھٹو صاحب کے حکم سے جاری کئے گئے انٹرنل سیکورٹی آپریشن سے ملتی جلتی کیفیت آج بھی محسوس کی جاتی ہے ۔ اب فرنٹیئر کور ( ایف سی ) پیش پیش ہے ۔ درمیان میں کچھ وقفے آئے صرف جنرل محمد ضیأ الحق کے زمانے میں واضح افاقے دیکھنے میں آئے ۔ جنرل ٹکا خان ریٹائر منٹ کے بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ پارٹی عہدِ یداربھی رہے ، الیکشن میں بھی حصہ لیا جیت نہیں سکے‘ گورنر پنجاب بنا دیئے گئے ۔ بھٹو صاحب سے بھرپور لگاؤ کا سفر جس کا آغاز مشرقی پاکستان میں آرمی آپریشن کی کمان سے شروع ہوا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہا۔ شاید یہ تذکرے ہم پر گراں گزرتے ہوں لیکن ماضی سے سبق ضرور حاصل کرنا چاہئے ۔
جنرل راحیل شریف کی بروقت ریٹائرمنٹ نے عسکری روایات کو مزید سر بلند کیا۔ اُنہوں نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے برعکس خود کو سیاستدانوں کی عطا کردہ توسیع سے دُور رکھا۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری ملازمت میں توسیع کے اثرات کیا ہوتے ہیں ؟ خاص طور سے اگر اس میں سیاسی لین دین کا نمک بھی دکھائی دے ۔ ہوسکتا ہے سیاست میں کسی شخصیت یا خاندان کی عدم موجودگی متعلقہ پارٹی کو متاثر کرے ، لیکن افواج میں ‘‘سیکنڈ اِن کمان” ہر لمحہ موجود ہوتا ہے ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے توسیع کا جام جس انداز میں نوش ِ جاں کیا اُسے کسی سطح پر سراہا نہیں گیا ۔
اب تازہ دم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو پیچیدہ نوعیت کا چیلنج در پیش ہے ۔ اُنہیں ایک ایسی پُرانی جنگ کو انجام تک پہنچانا ہے ، جس میں وطن ِ عزیز کے ہزاروں معصوم شہری اور پاک افواج کے بہادر افسر اور جوان شہید ہو چکے ہیں ۔ مالی نقصانات اور مہلک سماجی اثرات اس کے علاوہ ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر جنگ کا مقصد جاری جنگ کو ختم کرنا ہوتا ہے ۔ طویل جنگ کے باعث نظم و ضبط سے آزاد‘ کرائے کاغیر فوجی لڑاکا مزید مضبوط ہوتا ہے ۔ خاص طور سے شہری علاقوں میں پولیس سے ماورا طویل آپریشن کبھی سودمند نہیں رہے ہیں ۔ آرمی چیف کو یہ تاثر بھی دُور کرنا ہے کہ صرف کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں قائم ایپکس کمیٹیاں ہی فعا ل ہیں اور پنجاب میں دہشت گردی اور امن و امان کے تناظر میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔
جنرل قمر جاوید باجو ہ اعلیٰ ترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔ آرمی میں اُنہیں کمان ، سٹاف ، تربیت اور انتظامی امور کے بھرپور تجربے کے باعث عزت اور وقار سے دیکھا جاتا ہے ۔ہمیں اُمید رکھنی چائیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا دور ِ کمان ہر لحاظ سے وطن عزیز کے لئے کامرانی ، سکون اور ترقی کا پیغام لائے گا۔