تباہی میں ایک عظیم لیڈر کی موت…عبداللہ نعیم
پچھلے تین دنوں سے پورا پاکستان بند پرا تھا۔ آج آخر کار لوگوں کو سکون ملا کہ پاکستان کھل گیا ہے ابھی یہ سکون ملا ہی تھا کہ ایک سینے کو چیڑنے والی خبر نے ہمارا سینا غم سے چیڑ دیا، ایک خوش خبری کے بعد اس بری خبر نے لوگوں کا چین مزید چھین لیا اتنا تو جلوسوں نے تین دنوں میں نہیں چھینا تھا کہ اس خبر نے ۳ منٹ میں چھین لیا ۔یہ خبر تھی کہ مولانا سمیع الحق جیسے عظیم عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے پہلے تو اس خبر پر یقین نہ ہوا دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مولانا سمیع الحق بچ جائیں لیکن اللہ نے انہیں اپنے پاس بلالیا تھا، پہلے پانچ منٹ تک ہم سوچتے رہے کہ صرف حملہ ہوا میڈیا بھی ابھی پوری طرح سے تحقیق نہیں کر پارہی تھی تب ہی ایک ٹی وی چینل نے خبر چلا دی کہ مولانا سمیع الحق شہید ہوگئے ہیں اس ٹی وی چینل کوہم نے جھوٹا سمجھا لیکن جب آہستہ آہستہ یہ خبر ہر ٹی وی چینل پر پھیلی توجا ن ہی حلق تک پہنچ گئی۔ اس کے الفاظ کچھ یوں تھے مولانا سمیع الحق کو ان کے راولپنڈی کے گھر میں گھس کے چاقوکے وار کیے ہیں ۔پھر آہستہ آہستہ تفصیل میں گئے تو مولانا صاحب اپنے بستر پر آرام فرما رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے لیے ان کے حافظ اور نوکر باہر گئے جب اندر آئے تو مولانا صاحب کو بستر پر خون سے لت پت دیکھا ۔میری آنکھوں میں یہ منظر سوچنے سے ہی اتنا خوفناک تھا ۔مولانا سمیع الحق ایک عالم تھے ان کے بہت سارے شاگرد تھے ان کی جان پہچان بہت زیادہ تھی ۔مختلف صحافی ان سے میل جول کرتے تھے ان میں اسد اللہ غالب، حامد میر، سلیم صافی،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور دیگر ان گنت صہافی تھے۔ ان کی دعا تھی کہ یہ شہید کہلائیں اور ان کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ رتبہ دے ۔۔آمین۔
آج کے اس جدید دور میں سوشل میڈیا بہت طاقت ور ہے ان تین دنوں کے دوران جو چیزیں میڈیا نہ دکھا سکی سوشل میڈیا نے عوام کو وہ بھی دکھا دیں ۔مختلف وڈیوذ ابھی اس میں گردش کر رہی ہیں جس کی کچھ ودیوز میں نے دیکھیں ان میں تحریک لبیک کے کارکن عوام کا ذاتی مال لوٹ رہے ہیں ،ان کی گاڑیاں جلا رہے ہیں، غریبوں کی موٹر سائیکل جلا رہے ہیں۔ اور ایک کیلے والے بچے سے اس طرح کیلے چھین رہے ہیں جس طرح چڑیا گھر میں بندر چھینتے ہیں ۔اس بچے کی کیا غلطی تھی کہ اس کی روزی روٹی چھین لی ۔ہلال کمانے نکلا تھا لیکن ان لوگوں نے اسے ہلال کمانے لائق نہ ھوڑا۔اس بچے میں ہمت تھی اتنے لوگ اسے لوٹ رہے تھے لیکن اپنے رب پر اس نے بھروسا رکھا۔اصل اللہ اور رسول کی اطاعت تو اس نے کی ۔ رسول کے نقش قدم پر چلا۔عفودرگزر سے کام لیا لیکن یہ مولوی جنہوں نے گستاخ رسول کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کی روزی چھینی ان کی سواریاں جلائیں۔ناجانے کتنوں کو زخمی کی انہوں نے ۔کیا یہی راستہ تھا ایک آسیہ کو پھانسی دلوانے کا اور رسول کی اطاعت کرنے کا ، ہمارے رسولﷺ نہایت امن پسند تھے۔کفار کے سانے کبھی بھی گصے کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ دل تک میں بھی گمان نہ رکھا اور ان کو معاف کر دیا ۔اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس آسیہ کو بھی معاف کردیں اگر سزا ہی دلوانی تھی تو اایک امن وامان والا طریقہ اپنا سکتے تھے عدالت میں جاسکتے تھے حکومت سے اپیل کرسکتے تھے اگر اس سے کچھ نہ ہوتا تو کچھ اور کرتے لیکن ان جلوسوں نے تین دن میں ملک کو موشی اور معاشرتی بحران کا شکار بنا دی ہے لاکھوں کڑوروں مسلمانوں کی روزی روٹی بند ہوئی ہے۔ان مالی نقصان ہوا ہے کئی افراد زخمی ہوئے ہیں ان میں پولیس بھی شامل ہے ان مولویوں نے موٹر سائیکل والوں پر سٹیل کے رعڈوں سے حملے کیے ہیں بسوں کو آگ لگا ئی ہے جس میں لاہور میں شہباز شریف صاحب کی ایک سپیڈو بس بھی ہے۔تین دن میں ملک پر قرضے تو ویسے ہی تھے اب اور بھر گئے ہیں پٹرول تک مہنگا ہو گیا ہے پاکستان بزنس میں پوری طرح سے تقریباڈوبنے کو قریب ہے۔اسلام نے ہمیشہ ہمیں امن کا راستہ اپنانے کا کہا ہے امن کی راہ میں ہر حد تک جانے کے بعد اگر کوئی مثبت بات نہ ہو تو پھر بھی انتظار کو ترجیح دی گئی ہے انہوں نے تو انتظار کا نام ہی مٹا دیا ہے اگر پاکستان کا ہر آدمی اپنی بات ماننے کے سرک پر آجائے تو یہ ملک فورا تباہ و برباد ہو جائے لاکھوں لوگ اپنی زمینیں کھوئے ہوئے ہیں میدکل کالجز کی بھی اتنی زیادہ شکایات ہین اور یہ سب عدالتوں میں چل رہے ہیں کچھ تاریخ بتاریخ کر کر کے ۲۰ سے ۲۵ سال پرانے ہوگئے ہیں کیون وہ کیوں نہیں نکلتے باہر اگر اس طرح جلوسوں سے ان کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو کیوں وہ گھر سے نہیں نکلتے کیا ان میں ہمت نہین یا طاقت نہین کے باہر نکلیں سڑک پر تباہی مچائیں یا وہ اکیلے ہیں نہیں وہ صبر کر رہے ہیں ،کہ شاید ان کا رب ان کو اس صبر کا ثواب دے گا لیکن ان مولویوں کی اس تباہی کا ہرجانہ کون بھرے گا حکومت سے میری گزارش کے یہ ہرجانہ بھر دے کیوں کہ جتنے کا ان لوگوں نے نقصان کیا ہے نہ یہ سارے مولوی اپنی پوری جائیدادیں بیچ کر بھی نہیں لوٹا سکتے ۔کئی گاڑیا ں تو جلائیں ہیں ۔اپنے نبی ﷺ کی شان کی گستاخی ہوئی تو کیا اس مسئلے کو حل کرنے کا یہی طریقہ تھا بالکل نہیں۔ان تین دنوں کے دوران جو لوگ صبح سے شام تک ٹریفک میں پنسے رہے تو اس میں ان کی کیا غلطی ہے۔دکانداروں سے ان کی روزی روٹی کا ذریعہ چھین لیا ۔اگر ہر کوئی اس طرح انتظار سے قاصر ہوکر سڑکوں پر آئے گا تو اس ملک نے ایک دن میں تباہ ہوجانا ہے۔اس تین دن کے عرصے کے دوران ناجانے کتنے لوگ ہسپتال جانے سے رہ گئے ہوں گے۔اور پتا نہیں کتنوں کی جان خطرے کا شکار ہوئی ہوگی۔
اگر سوچا جائے کہ مولانا سمیع الحق صاحب اگر ان تین دنوں میں سے کسی ایک دن شہید ہوئے ہوتے تو ان کی موت کی خبر ہین ایک دن بعد ملتی اور ان کو ہسپتال لے جا کر جانبر کرنے کی کوشش بھی نہ کی جاسکتی۔
پوری قوم یہ توقع کرتی ہے کہ مولانا سمیع الحق کو جنت نصیب ہو اور اس طرح کی جاہلانہ صورتحال کا ملک کو کبھی بھی سامنا نہ ہو۔۔۔آمیں