منتخب کردہ کالم

تب بھی جیتنا عمران ہی کو تھا….رؤف طاہر

تب بھی جیتنا عمران ہی کو تھا….رؤف طاہر

پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے انتخاب میں شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کر چکی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) اپنے عہد پر قائم رہی۔ بدھ کی صبح نیب عدالت میں میاں نواز شریف کی پیشی کے موقع پر شہباز شریف سمیت متعدد مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ اپنے قائد سے ملاقات کے لیے موجود تھے، جس کا کہنا تھا کہ وہ یہاں سے سیدھے پارلیمنٹ ہائوس جائیں اور سپیکر کے لیے پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ اور ڈپٹی سپیکر کے لیے ایم ایم اے کے اسعد محمود کو ووٹ دیں۔
25 جولائی کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ لائحہ عمل کے حوالے سے خاصی متحرک اور پُر جوش نظر آئی، اگرچہ باپ، بیٹا ان اجلاسوں سے دور رہے لیکن ان کی اشیرباد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے دیگر اہم قائدین کی شرکت کافی بھرپور تھی۔ ایسے ہی ایک اجلاس میں کئے گئے اہم فیصلوں کا اعلان بھی خود پیپلز پارٹی کی شیری رحمن نے کیا۔ 2 اگست کی اس میڈیا بریفنگ میں مسلم لیگ (ن)، ایم ایم اے اور دیگر اپوزیشن جماعتوںکے مرکزی قائدین بھی دائیں بائیں موجود تھے‘ جنہوں نے ”پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن‘‘ کے نام سے ایوانوں کے اندر اور باہر مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ، سپیکرشپ اور ڈپٹی سپیکرشپ پر (بالترتیب) مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے (مشترکہ) امیدوار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے صدر (شہباز شریف) کو وزارتِ عظمیٰ کے الیکشن میں اتارنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا تھا۔ یہ خود سید خورشید شاہ اور یوسف رضا گیلانی تھے جن کا اصرار تھا کہ مسلم لیگ شہباز صاحب کو میدان میں لائے، اس سے اپوزیشن کی seriouseness کا تاثر قائم ہو گا‘ لیکن کیا زرداری صاحب کا ہدف کچھ اور تھا، جس سے ان کے سینئر رفقا بھی بے خبر تھے؟ کہا جاتا ہے، زرداری صاحب اور ہئیت مقتدرہ کے درمیان بلی چوہے کا کھیل جاری ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں کراچی آپریشن میں ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن اور عزیر بلوچ جیسے اپنے قریبی رفقا کی پکڑ دھکڑ پر زرداری صاحب بھڑک اٹھے اور ”تم تین سال کے لیے ہو، ہمیں (سیاستدانوں کو) ہمیشہ رہنا ہے‘‘ ،کی یاد دہانی کے ساتھ ”اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ پھر چپکے سے ان کی بیرونِ ملک روانگی کی خبر آ گئی۔ نواز شریف کو پاناما کا سامنا تھا۔ ادھر الیکشن بھی قریب تھے، جب زرداری صاحب لَوٹ آئے۔ اب ان کا اصل ہدف نواز شریف تھے۔ ایک تقریر میں وہ انہیں ”پاکستان کا سب سے بڑا ناسور‘‘ بھی کہہ گزرے۔ ان کا اعلان تھا کہ ملاقات تو کیا، وہ نواز شریف کی کال بھی ریسیو نہیں کریں گے۔ اس دوران سپر ماڈل گرل ایان علی، ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن کو ملنے والے ریلیف کو بعض دانشور زرداری صاحب کی اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ بلوچستان میں تبدیلی اور سینیٹ انتخابات کے مطلوبہ نتائج (صادق سنجرانی ماڈل) کا سہرا بھی زرداری صاحب اپنے سر باندھنے لگے۔
25 جولائی کے انتخابات میں زرداری+بلاول کی پیپلز پارٹی نے کچھ بھی نہیں کھویا تھا۔ سندھ میں وہ پہلے سے بہتر پوزیشن میں آ گئی تھی (یہاں جی ڈی اے کے ہیوی ویٹس دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں)۔ قومی اسمبلی میں بھی اس کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے سینیٹ میں بھی وہ بہت مؤثر پوزیشن حاصل کر چکے تھے۔ اس الیکشن میں بلاول کی لانچنگ بھی ہو گئی۔ اب ان کا ہدف 2023ء کا الیکشن ہے۔
لیکن زرداری صاحب کے لیے ”ستیّ خیراں‘‘ نہیں۔ ان پر لٹکتی تلواروں میں کمی نہیں آئی۔ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ والے کیس میں، انور مجید اور ان کے صاحبزادے کی گزشتہ روز گرفتاری، زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جس کی آواز قریب تر آتی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے، یہ بلی اور چوہے کا کھیل ہے جو جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کے اعلان پر سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ کا تبصرہ معنی خیز ہے، ”ہمیں زرداری صاحب کی مجبوریوں اور مسائل کا احساس ہے‘‘۔
پیپلز پارٹی نے زرداری صاحب کے خلاف شہباز شریف کے برسوں پرانے بیانات کو اس فیصلے کا جواز بنایا ہے (ہمیں یاد پڑتا ہے کہ میاں نواز شریف کے توجہ دلانے پر شہباز شریف نے ان بیانات پر معذرت کر لی تھی) سوال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی نے سپیکر (اور ڈپٹی سپیکر) کے انتخاب میں Abstain کرنے کی پالیسی کیوں اختیار کی (وزارتِ اعلیٰ کے الیکشن میں بھی یہی پالیسی ہو گی)
زرداری صاحب ”مردِ مفاہمت‘‘ کی شہرت رکھتے ہیں۔ خود بے نظیر صاحبہ (اور بیگم نصرت بھٹو بھی) زمینی حقائق کے مطابق مفاہمت آمادہ رہتیں۔ ایئر مارشل اصغر خاں 1977ء کی انتخابی مہم میں بھٹو کو ہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا کرتے تھے، لیکن ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف دونوں بیگمات کو ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر ایئر مارشل کے ساتھ بیٹھنے میں عار نہ تھی۔ ضیاء الحق با وردی صدر کے طور پر موجود تھے، جب بے نظیر صاحبہ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ مرتضیٰ کو اس سے شدید اختلاف تھا۔ رائو رشید مرحوم سنایا کرتے تھے کہ ایک فیملی میٹنگ میں بہن بھائی میں شدید تکرار ہوئی۔ مرتضیٰ کا کہنا تھا: تم پاکستان کیوں جا رہی ہو؟… وزیر اعظم بننے کے لیے، بے نظیر کا جواب تھا۔ مرتضیٰ نے سوال کیا: ضیاء الحق کی صدارت میں پرائم منسٹرشپ؟… بے نظیر کا جواب تھا So what? محترمہ، 1985ء کے الیکشن کے بائیکاٹ کو بڑی غلطی قرار دیا کرتیں کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے، اور انہوں نے 1985ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کر کے ایک بڑے امکان کو ضائع کر دیا تھا۔ 1988ء سے 1999ء تک نواز شریف اور بے نظیر، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے اور پھر حالات کا جبر انہیں میثاق جمہوریت تک لے آیا… میثاق جمہوریت کا آئیڈیا، اس ملاقات میں سامنے آیا تھا جب بے نظیر بھٹو صاحبہ اپنے دیرینہ سیاسی حریف سے ملاقات کے لیے جدہ کے سرور پیلس تشریف لائی تھیں (زرداری صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے)۔
خود زرداری صاحب 2008ء کے عام انتخابات کے بعد جاتی امر تشریف لائے۔ بڑے میاں صاحب کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد نواز شریف کے ساتھ نئے سیاسی سفر کے عہد و پیمان کئے۔ انہیں اپنا بڑا بھائی قرار دیا اور کہا کہ یہ دوستی آئندہ نسلوں تک چلے گی، بلاول اور حسن، حسین تک۔ بختاور اور مریم نواز تک… نائن زیرو جا کر انہوں نے اسی طرح کے جذبات کا اظہار ایم کیو ایم کے قائد کے لیے کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ”شہدا قبرستان‘‘ بھی گئے، ان میں بیشتر وہ تھے جو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی باہمی لڑائیوں میں جان سے گئے تھے۔ کیا جناب زرداری کو نواز شریف کے ساتھ معاہدہ بھوربن بھی یاد دلانے کی ضروت ہے، جس میں 30 دن کے اندر 3 نومبر 2007ء والی عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد معاہدہ اسلام آباد، جس میں مشرف کی سبکدوشی کے بعد 24 گھنٹے کے اندر ججوں کی بحالی کا پیمان تھا۔ اور پھر وہ اس سے بھی یہ کہہ کر منحرف ہو گئے کہ وہ سیاسی معاہدہ ہی تو تھا، کوئی حدیث تو نہیں لکھ دی تھی۔ محترمہ کے قتل کے بعد انہوں نے جس قاف لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا، بعد میں اسی کو نائب وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے ساتھ شریکِ اقتدار کر لیا۔
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کا الیکشن جاری ہے۔ پیپلز پارٹی 2 اگست کے اعلان کے مطابق شہباز شریف کو سپورٹ کرتی، تب بھی جیتنا عمران ہی کو تھا، لیکن یہ عمل یوں یکطرفہ نہ ہو جاتا اور کھیل میں دلچسپی برقرار رہتی۔ یاد آیا، اپنی جماعت اسلامی بھی اپنے اکلوتے رکن اسمبلی کے ساتھ اس عمل میں غیر جانبدار ہے؛ البتہ مولانا فضل الرحمن کے 14 ارکان شہباز شریف کو سپورٹ کر رہے ہیں۔