منتخب کردہ کالم

تحریک انصاف کی سیاست

2014ء کی ناکامی کے بعد عمران خان نے پاناما لیکس کے حوالے سے جو تحریک شروع کی تھی وہ بھی آخر کار ناکامی کا شکار ہوگئی اور کارکن ایک بار پھر مایوسی کا شکار ہوگئے۔ اب اس طرف سے نا امیدی کے بعد خان صاحب 2018 کے الیکشن کی تیاری کرتے نظر آرہے ہیں اب یہ بات یقینی ہے کہ 2018 میں عام انتخابات ہوجائیں گے۔

اگرچہ پیپلزپارٹی کے نئے رہنما بلاول بھٹو زرداری بڑے زور شور کے ساتھ سیاست میں آرہے ہیں، لیکن پیپلزپارٹی اپنی مسلسل غلطیوں اور بری شہرت کی وجہ سے تنزلی کے جس مقام پر آگئی ہے، اس کے پیش نظر اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ پی پی ایک بار پھر عوام کی حمایت خصوصاً پنجاب کے عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔جناب زرداری کی آمد سے پی پی کے حلقوں میں جو گہماگہمی نظر آرہی ہے اس کا کوئی بامعنی فائدہ پی پی کو ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔

اس منظر نامے میں عمران خان کی انتخابی حکمت عملی کیا ہوگی، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ملک کی آدھا تیتر آدھا بٹیر سیاست کے پس منظر میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پی پی نے مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کے ساتھ جس گرینڈ الائنس کا اعلان کیا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ مسلم لیگ (ق) کا کوئی قابل ذکر ووٹ بینک نہیں۔ البتہ اب بھی تحریک انصاف عوام میں نسبتاً ایک مقبول جماعت ہے آج بھی عمران خان ملک کے کسی شہر میں جلسہ کرتے ہیں تو عوام کی ایک بھیڑ جمع ہوجاتی ہے لیکن ملک کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر مسلم لیگ ن اب بھی پنجاب کی ایک بڑی سیاسی قوت ہے اور برسراقتدار بھی ہے جس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ اس تناظر میں عمران خان کی حکمت عملی کیا ہوگی اس کا جائزہ لینے سے پہلے 2014 کی تحریک کی ناکامی پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو کے بعد جس سیاسی لیڈرکو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی وہ عمران خان ہیں، عمران خان پندرہ سال سے سیاست میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہے تھے لیکن ان کی حیثیت بارہویں کھلاڑی کی سی رہی۔ 2014 میں جب عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا تحریک شروع کی تو وہ مقبول عوام ہوگئے تحریک انصاف عوام میں بڑے پیمانے پر روشناس ہوئی۔ عمران خان اور طاہر القادری کا مشترکہ مطالبہ تھا ’’گو نواز گو‘‘ ہمارے ملک کا حکمران طبقہ ہمیشہ عوامی مسائل سے لا تعلق رہا اس لیے عوام حکمران طبقے سے بھی نالاں تھے۔

بجلی کی لوڈ شیڈنگ دہشت گردی نے عوام کی زندگی مشکل کردی تھی اور عوام اس کی ذمے داری حکومت پر ہی ڈال رہے تھے جب عمران خان اور طاہر القادری نے ’’گو نوازگو‘‘ کا نعرہ لگایا تو عوام عمران خان اورطاہر القادری کے ہمنوا اس لیے ہوئے کہ شاید حکومت کے جانے سے ان کے مسائل حل ہونے کی کوئی صورت نکل آئے۔

اس حوالے سے عمران خان خان کی پہلی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے طاہر القادری کے ساتھ ایسی شراکت داری نہیں کی جو عوام میں یہ تاثر پیدا کرے کہ دونوں رہنما ایک پلیٹ فارم سے ایک عزم کے ساتھ تحریک چلارہے ہیں۔ اسلام آباد میں جب عوام نے ان دونوں رہنماؤں کو الگ الگ مقامات پر دھرنا دیتے ہوئے دیکھا تو انھیں یہ احساس ہوا کہ ان دونوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں ۔

اس تاثر سے عوام میں بد دلی پیدا ہوئی۔ اس حوالے سے ان دونوں رہنماؤں کی ایک مشترکہ غلطی یہ تھی کہ انھوں نے شخص واحد نواز شریف کو اپنا ہدف بنایا۔ تعلیم یافتہ اور با شعور طبقہ جانتا تھا کہ صرف موجودہ حکمرانوں کے جانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوںگے کیوںکہ ان کی جگہ کوئی دوسرا حکمران لے لے گا۔ ملک کا تعلیم یافتہ اور باشعور طبقہ جانتا تھا کہ اسٹیٹس کو توڑے بغیر عوام مسائل کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکتے ۔

طاہر القادری انقلاب کی اور عمران خان نئے پاکستان کی مبہم باتیں اور نعرے لگارہے تھے لیکن انقلاب کی نوعیت کیا ہوگی اور نیا پاکستان کیسا ہوگا اس حوالے سے ایک ابہام موجود تھا۔ تیسری غلطی عمران خان کی یہ تھی کہ وہ عوام کے بجائے امپائرکی انگلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دھرنے کی طوالت نے بھی نہ صرف کارکنوں میں بلکہ عوام میں بھی مایوسی پیدا کردی تھی۔

عمران خان کو جن بزرگوں نے یقین دلایا تھا کہ امپائر ان کی نیا پار لگائے گا وہ غلط فہمی کا شکار تھے۔ ان ساری غلطیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھرنا تحریک ناکام ہوئی، سیاسی کارکن اور عوام بد دل ہوگئے اس کی بڑی وجہ عمران خان کی غلط حکمت عملی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے قومی ایشوزکی سیاست کرنے کے بجائے ہمیشہ نان ایشوزکی شکایت کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نعرہ نئے پاکستان کا لگاتے رہے اور اتحادی ان جماعتوں کو بناتے رہے جو پرانے پاکستان کی سیاست کرتی ہیں۔

پاکستان کے عوام 69 سالوں سے جن مصائب کا شکار ہیں۔ اس سے عوام کو نجات نہ کوئی اتحاد دلاسکتا ہے، نہ انقلاب اور نہ نئے پاکستان کے نعرے۔ جو انتخابی اتحاد بنیں گے وہ اسٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کے ہی بنیں گے ۔

اس مایوس کن صورت حال میں صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے اسٹیٹس کو کی مخالف جماعتوں کا اتحاد اگرچہ اسٹیٹس کو کی زبانی مخالفت کئی جماعتیں کررہی ہیں لیکن اسٹیٹس کو کی حقیقی مخالف صرف ترقی پسند جماعتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ ترقی پسند جماعتیں اگرچہ کمزور پوزیشن میں ہیں لیکن عمران خان ان جماعتوں سے اتحاد بناتے ہیں جن میں پاکستان ورکرز پارٹی ایک متحرک پارٹی ہے تو یہ اتحاد بامعنی بھی ہوگا اور عمران خان کے ساتھ ترقی پسند پارٹیاں بھی مضبوط پوزیشن میں آجائے گی۔ زرعی اصلاحات انتخابی بامعنی اصلاحات جیسے اہم قومی مسائل کو بنیادی مسائل بناکر سیاست کا آغاز کرنا چاہیے۔