دلائل کا رخ اِس جانب ہے کہ خاطرجمع رکھیے،پاکستان کے عوام اس طرح نواز شریف صاحب کے حق میںنہیں اٹھیں گے جیسے ترکی میں اردوغان صاحب کے حق میں اٹھے۔ میرے نزدیک یہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ یہ کسی فردِ واحد کی حمایت یا مخالفت کا سوال ہے۔ لوگ جمہوریت کے حق میں اورفوجی آمریت کے خلاف اٹھے۔ درست تقابل یہ ہے کہ انسانی معاشروں کوجمہوریت چاہیے یا مارشل لا؟ ترک عوام نے اپنی جان دے کر جمہوریت کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اہلِ سیاست ہی جمہوریت کا چہرہ ہوتے ہیں۔ ان کی کارکردگی ہی جمہوریت کے حق میں برہان بنتی ہے؛ تاہم جمہوریت محض اہلِ سیاست کی کارکردگی نہیں ہے۔ جمہوریت صرف گڈگورننس نہیں ہے۔یہ ایک انسان کے اس بنیادی حق کا اعتراف ہے کہ اسے ماں نے آزاد جنا ہے اور کوئی اسے زنجیریں نہیں پہنا سکتا۔ جمہوریت آزاد عدلیہ ہے۔ جمہوریت ذمہ دار میڈیا ہے۔ جمہوریت آزادی رائے کا حق ہے۔ جمہوریت میرے اس حق کا اعتراف ہے کہ اگر میں کسی حکمران سے خوش نہیں تو میں اسے اپنے ووٹ سے تبدیل کر سکتا ہوں۔ جمہوریت انسان کے فکری ارتقا کا حاصل ہے کہ انسان اس سے بہتر نظامِ حکومت دریافت نہیں کر پایا۔ وہ کر ہی نہیں سکتا تھا کہ اس پر آسمان سے اترنے والے الہام نے مہرِ تصدیق ثبت کی ہوئی ہے۔
میں نہیں جان سکا کہ پاکستان میں لوگ جمہوریت اور مارشل کا موازنہ کیسے کر تے ہیں؟ مجھے حیرت ہوتی ہے جب دانش ور نوازشریف اور راحیل شریف کا بطور لیڈر تقابل کرتے ہیں۔ نواز شریف کا تقابل عمران خان سے ہو سکتا ہے۔ یہ آصف زرداری سے ہو سکتا ہے۔ راحیل شریف صاحب کا تقابل ہو گا تو اشفاق کیانی صاحب سے ہوگا، جہانگیر کرامت صاحب سے ہوگا۔ حریف ایک ہی شعبے سے ہوتے ہیں۔امریکہ میں عام آ دمی یقیناً نہیں جانتا ہے کہ امریکی فوج کا سر براہ کون ہے۔ تاہم وہ یہ ضرورجانتا ہے کہ اسے اگر انتخاب کرنا ہے تو ہلری کلنٹن اور ٹرمپ میں کرنا ہے۔ سوچ کا یہی انداز ہے جو امریکہ کو ایک ترقی یافتہ قوم بناتا ہے۔ ترقی صرف معاشی میدان میں نہیں ہوتی، اصل ترقی ذہنی اور فکری ہے۔
پاکستان میں اگر لوگ مارشل لا کے خلاف نہیں نکلتے تو اس پر حیرت اور اظہارِ افسوس ہو نا چاہیے۔پاکستان میں عوام کو بتا نا چاہیے کہ اگر انہیں حقوق چاہیے تو انہیں جمہوریت کا دفاع کرنا ہو گا۔ جمہوریت کسی فردِ واحد کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ایک پاکستانی کی آزادی کا پروانہ ہے۔ جمہوریت ہی میں یہ ممکن ہے کہ اگر کسی کو نوازشریف پسند نہیں تو وہ کسی دوسرے کو لے آئے۔ آج تو پاکستانی عوام کو یہ بتا نے کی ضرورت ہے کہ ترکی کے عوام نے جس طرح اپنے حقِ آزادی کی حفاظت کی، انہیں بھی کرنی چاہیے۔ ملک آئین اور قانون سے چلتے ہیں۔ اگر آئین پر عمل نہ ہو تو اس کا علاج بھی جمہوریت ہی ہوتا ہے۔ مارشل لا آئین کو معطل کیے بغیر بروئے کار آ ہی نہیں سکتا۔ ہر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سب سے پہلے کوئی ‘پی سی او‘ جاری کرتا ہے جو آئین کی جگہ لیتا ہے۔ مارشل لا کا سادہ ترجمہ ہے: ‘لاقانونیت‘۔
پاکستان میں مارشل لا کیوں کامیاب ہوئے؟اس کی وجہ اہلِ سیاست، عدلیہ اور میڈیا ہیں۔ اہلِ سیاست نے مٹھائیاں بانٹیں۔ اہلِ صحافت نے آ مروں کو ‘مردِ حق‘ کے خطابات دیے اور عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو راہنما اصول مانا۔ ترکی میں اہلِ سیاست نے‘ جو اردوغان کے شدید ناقد ہیں، فوجی اقتدار کو مسترد کیا۔ یہاں تک کہ فتح اللہ گولن نے بھی جنہیں اردوغان صاحب اس بغاوت کا اصل مجرم قرار دے رہے ہیں۔ اردوغان پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ بیٹا ایک بڑے سکینڈل میں ملوث ہے۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ ان پر بادشاہ بننے کا جنون سوار ہے۔ اس دور میں ایک ہزار کمروں کا صدارتی محل کسی جمہوریت پسند کے لیے قابلِ قبول نہیں۔یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اگر عوام فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تو وہ کسی فردِ واحد کے اقتدار کے لیے نہیں، اپنے آزادی رائے کے حق کے لیے قربان ہونے پر آمادہ تھے۔
اس میں شبہ نہیں کہ گڈ گورننس کے بغیر جمہوریت ادھوری ہے۔ اگر حکمران اس کا مظاہرہ نہ کر پائیں تو پھر لوگ بیزار ہوتے ہیں۔ یہ بے زاری حدسے بڑھ جائے تووہ اس بات ہی سے لاتعلق ہو جاتے ہیں کہ قصرِ اقتدار میں کون بیٹھا ہے، سیاست دان یا فوجی۔یہ بے حسی باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔ اہلِ دانش کا کام ہے وہ لوگوں کو اس سے نکالیں۔ انہیں بتائیں کہ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں ایک سے زیادہ راستے ہوتے ہیں۔ آ مریتوں میں انتخاب نہیں ہوتا۔اس لیے وہ تو کسی صورت مسئلے کا حل نہیں ۔
انسانوں کو راہنمائی کی وہیں ضرورت ہو تی ہے جہاں ان کے لیے انتخاب مشکل ہو۔قرآن مجید نے حرام حلال کا قانون بتایا کہ طیبات حلال ہیں اور خبائث حرام۔انسانی فطرت کو بھی اس کا شعور ودیعت کر دیا۔ نبیﷺ نے اس کی شرح کر دی۔ فطرت سور کے بارے میں ابہام کا شکار تھی کہ مویشیوں (بہائم) میں شمار ہوتا ہے اوردرندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ اسے حلال سمجھا جائے یا حرام؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر بتا دیا کہ حرام ہے۔ یوں ابہام کو ختم کر دیا۔عام آدمی کا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ امورِ دنیا و سیاست میں فطرت کے اصول پر چلتا ہے۔اسے وہاں راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ابہام ہو۔جمہوریت یا مارشل لا بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے کہ خوبیاں خامیاں آمروں میں ہوتی ہیں اور سیاست دانوں میں بھی۔ یوںعام آدمی خود حرام حلال کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہ اہل دانش ہیں جنہیں بتانا ہے کہ جمہوریت اور مارشل لا میں، ‘حلال‘ کیا ہے اور ‘حرام‘ کیا۔ پاکستان کے آئین میں بھی صاف لکھا ہوا ہے۔ کم از کم اس کا ہی ابلاغ ہو جائے۔
آج قوم کی ضرورت ہے کہ اسے بعض بنیادی امور میں باشعور بنایا جائے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ملک کو کون سا نظام چاہیے: آمریت یا جمہوریت؟ اسے اصلاً تقابل کن کے مابین کر نا ہے؟ نواز شریف، عمران خان اور زرادری میں یا نوازشریف اور راحیل شریف میں؟ حکمرانوں کے انتخاب میں اخلاقیات کی کیا اہمیت ہے اور کیوں اس بات کو پیش نظر رہنا چاہیے؟ مغرب کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی نظامِ اقدار کے باب میں لوگوں کو یکسو کر دیا ہے۔اس کا ثمر سماجی اور سیاسی استحکام ہے۔آج ہمیں بھی اسی کی ضرورت ہے۔
یہ کوئی خوش خبری نہیں کہ اگر پاکستان میں مارشل لا لگتا ہے تو عوام ترکی کی طرح نہیں اٹھیں گے۔اللہ نہ کرے کہ ہم پر وہ وقت آئے لیکن اہلِ دانش کی ذمہ داری عوام کی شعوری تربیت اور انہیں یہ بتاناہے کہ خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر انہیں کیا کرناہے۔یہ کسی فرد کا نہیں، ایک بنیادی قدر کا معاملہ ہے۔ضیاالحق مر حوم ممکن ہے شخصی خوبیوں کے اعتبار سے بھٹو صاحب سے بہتر ہوں مگر انہوں نے اس ملک اور معاشرے کو جو نقصان پہنچایا ہے،بھٹو صاحب اس کا عشرِعشیر بھی نہیں پہنچا سکے۔اگر پاکستان میں کوئی واقعہ ہوتا اورعوام لاتعلق رہتے یا اہلِ دانش اس کا جواز ڈھونڈتے ہیں تو یہ صدمے کی بات ہوگی کسی خوش خبری کی نہیں۔
مشرف صاحب نے جس دن مارشل لا نافذ کیا، میں اپنے مرحوم دوست خلیل ملک کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ملک کے ایک بڑے صحافی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل وہ اپنے اخبار کے صفحہ اوّل پر یہ اداریہ لکھیں کہ ہمیں ماشل لا قبول نہیں تو یہاں فوجی آمریتوں کا روازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ افسوس کہ اس وقت جابر سلطان کے سامنے کسی نے کلمہ حق نہیں کہا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ آج بھی ایسا ہوا تو کلمہ حق کہنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ہاں یہ دلائل تراشنے والے بہت ہوں گے کہ یہ اہلِ سیاست کے کیے کی سزا ہے۔ پاناما نہ ہوتا تو مارشل لا بھی نہ ہوتا!