پرسوں سے ایک فلمی گانا بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے۔ اس گانے میں جو ظاہر ہے فلم میں ہیرو نے ہی گایا ہو گا‘ اپنی محبوبہ کو اپنی سچی اور کامل محبت کا یقین دلاتے ہوئے گاتا ہے۔ اس کے بول تھے ؎
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
برادر ملک کے ساتھ ہماری محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ فوج کو آنے کے بینر یہاں لگے تھے اور فوج آ گئی ترکی میں۔ ترکی میں بغیر عوامی حمایت اور اچھی بھلی چلتی ہوئی عوام دوست جمہوریت کو بلڈوز کرنے کا منصوبہ اس بری طرح نا کام ہوا کہ باغی نہ صرف نا کام ہوئے بلکہ عوام کے ہاتھوں باقاعدہ ذلیل و رسوا بھی ہوئے۔ اس نا کام بغاوت سے جہاں عوام کی طاقت کا ایک محیرالعقول منظر دیکھنے میں آیا وہیں مغرب اور مغرب کے کاسہ لیسوں کی منافقت، جھوٹ اور دوسرے معیار بری طرح کھل کر سامنے آئے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ہر چوتھے دن حکومت کی رخصتی کی تاریخ دینے والے اینکرز نے اپنی اس مہارت کو ترکی پر بھی آزمانا شروع کر دیا۔ ملک عزیز میں تو خیر یہ ڈرامہ عرصے سے جاری ہے اور اینکرز حضرات شیخ رشید کی طرح ایک کے بعد دوسری تاریخ دینے کے عادی ہو چکے ہیں؛ تا ہم ترکی والے معاملے میں ڈرامہ چند گھنٹے بعد ہی اختتام پذیر ہو گیا‘ لہٰذا ان کے اندازوں کا دھڑن تختہ ہو گیا اور ان کو اس سلسلے میں نئی تاریخ دینے کی مہلت ہی نہ مل سکی جو انہیں پاکستان میں حاصل ہے۔ کس کس اینکر کا نام لکھوں؟چار ٹویٹ حاضر ہیں۔ ”اردوان چلا گیا‘‘ …ڈاکٹر شاہد مسعود۔ ”سرکاری نشریات میں انقلاب کی کامیابی کا اعلان۔ اردوان کا عہد ختم‘‘…کامران خان۔ ”ممکن ہے ترک صدر پاکستان میں سیاسی پناہ لے لیں‘‘… مبشر لقمان ۔ ”شاید اردوان ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ اب وہ کہاں جائیں گے؟‘‘ …جیسمین منظور۔
اس ناکام انقلاب نے کئی چہرے عیاں کر دیے ہیں۔ مغرب کے، مغرب کے کاسہ لیسوں کے ‘ لبرلز کے ‘دنیا بھر کے یہودیوں کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا ہاؤسز، اخبارات اور چینلز کے جو بلا تصدیق عجیب عجیب خبریں دے رہے تھے۔ سی این این، بی بی سی، فاکس نیوز اور اسی طرح کے دیگر نشریاتی ادارے اردوان کو ماضی کا حصہ بنا چکے تھے۔ وزیراعظم علی یلدرم کو سابق قرار دے رہے تھے۔ مبصر فرما رہے تھے کہ اردوان کہاں جائیں گے؟ ایک کہہ رہا تھا کہ انہوں نے جرمنی سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے جو رد کر دی گئی ہے۔ ایک صاحب فرما رہے تھے کہ وہ لندن جا رہے ہیں ۔ ایک اور مبصر ایران کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ سڑکوں پر مزاحمتی ہجوم کو مغربی میڈیا انقلاب کو خوش آمدید کہنے والے قرار دے رہا تھا؛ حالانکہ پیچھے سے اللہ اکبر کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ مجھے واٹس ایپ پر کچھ ترقی پسندوں کے خوشی بھرے پیغامات آئے کہ جمہوریت کے نام پر جمہوریت کش عہد کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ ایک پیغام آیا کہ سول ڈکٹیٹر اپنے انجام کو پہنچا۔ ایک اور میں کہا گیا کہ فوج نے یہ قدم جمہوری روایات کو بچانے کیلئے اٹھایا۔ ایک اور ترقی پسند نے لکھا کہ اردوان کے عہد میں ترکی کی نظریاتی اساس برباد کر دی گئی تھی ‘فوج کا یہ اقدام دراصل ترکی کی نظریاتی اساس کی بحالی کیلئے ہے۔ عجیب منافقوں سے پالا پڑا ہے۔ جہاں پر عوام اپنے حکمرانوں سے حقیقی تنگ ہیں ‘وہاں پر یہ سب لوگ فوج کو گالیاں نکالنے میں مصروف ہیں اور جہاں پر عوام اپنے حکمرانوں کا حق حکمرانی قائم رکھنے کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ رہے تھے ‘وہاں جمہوریت کیلئے ہمہ وقت مرے جانے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے تھے کہ ترکی میں اردوان اسلامی نظریات کا حامل ہے اور فوج کمال اتاترک کے لبرل ازم کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے۔
اردوان کی اسلام پسندی کی دشمنی میں لبرلز یہ بھول گئے کہ خود پاکستان میں بیٹھے ہیں اور معاملہ ترکی میں در پیش ہے جہاں لوگ ان کی گفتگو سن کر نہیں بلکہ اپنے حقائق کی روشنی میں ردعمل کا اظہار کریں گے۔ اس کا سارا کریڈٹ اس جمہوریت کو جاتا ہے جس کا ثمر خوشحالی ہے‘ ترقی ہے اور عوامی بہبود ہے۔ لوگوں کا طرز زندگی بہتر ہوا ہے اور خوشحالی باقاعدہ نظر آتی ہے۔ حکمرانوں کو دعوے نہیں کرنے پڑتے اور لوگوں کو اعداد و شمار سے دھوکہ نہیں دیا جا رہا۔ سلام ہے ترکی کے عوام کو اور اپوزیشن کو۔ ترکی کی تینوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں نے جمہوریت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا نہ کہ فوجی انقلاب کا۔ بے شک ان کا یہ اقدام اردوان کے ساتھ محبت کا اظہار نہ تھا مگر جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا مظہر تھا۔ سارے عوام، اردوان کے حامی اور مخالف‘سب باہر نکلے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خواہ حکومت اردوان کی تھی مگر اس جمہوریت نے عوام کو اجتماعی بہتری کے راستے پر ڈالا تھا۔ اہل ترکی کو جمہوریت کا ثمر ملا تھا اور انہوں نے من حیث القوم جمہوریت کو بچانے کی سعی کی تھی؛ تا ہم ایک بات یاد رہے کہ کسی بھی برے یا بھلے نظام حکومت کا چہرہ حکمران ہوتے ہیں ‘اگر حکمران جمہوریت کے نام پر استحصال، لوٹ مار، کرپشن، ذاتی مفادات اور عوام کے بارے بے حس ہوں تو پھر کوئی بھی جمہوریت کو بچانے کے لیے باہر نہیں نکلتا۔
ہمارے ہاں جمہوریت نام ہے خاندانی حکمرانی کا‘ لوٹ مار کا‘کرپشن کا‘ ذاتی مفادات کا اور آخر کار این آر او کا۔ بھٹو کا تختہ الٹا تو مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ پی این اے فوجی حکومت کا حصہ بن گئی۔ بینظیر کی پہلی حکومت برطرف ہوئی تو مسلم لیگیوں نے خوشی سے بھنگڑے ڈالے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت ختم ہوئی تو پیپلز پارٹی نے جشن منایا کہ ان کی باری آنیوالی تھی۔ مشرف نے نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو جمہوریت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی دعویدار بینظیر بھٹو نے خوشی کا اظہار کیا اور سیاستدانوں کی ایک پوری کھیپ گجرات کے چوہدریوں کی سرگردگی میں مارشل لاء کے درپر سجدہ ریز ہوئی اور من کی مراد یعنی حکومت پائی۔ میں پاکستان میں فوج کے آنے کا حامی نہیں کہ یہ مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید کئی مسائل کا پیش خیمہ ہے مگر سچ یہ ہے کہ اگر یہ صورتحال پاکستان میں ہوتی تو لوگ اوّل تو باہر ہی نہ نکلتے اور اگر نکلتے تو جشن منانے، بھنگڑا ڈالنے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے کیلئے کہ یہاں جمہوریت نے حکمرانوں کو لندن میں جائیدادیں، دبئی میں بنگلے، فرانس میں ولاز، امریکہ میں زرعی فارمز اور سوئٹزر لینڈ میں بنک بیلنس عطا کیے ہیں۔ عوام کا وہی حال ہے جو پہلے تھا بلکہ شاید پہلے سے بھی برا کہ کم از کم پہلے انہیں اتنا عدم تحفظ کا احساس ہر گز نہیں تھا جس کا وہ اب شکار ہیں۔
یہاں جمہوریت نے عوام کو خوش کن وعدوں، سہانے خوابوں اور جھوٹے دلاسوں کے علاوہ اور کیا دیا ہے؟ عوام کے سامنے لوٹ مار ہو رہی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ نظام عدل کی موت واقع ہو چکی ہے مگر صرف توہین عدالت کے خوف سے لوگ اس مردہ نظام کو مردہ قرار دینے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں زرداری اپنے دور میں بے گناہ قرار پاتا ہے اور عدالتوں میں سرخروہوتا ہے اور میاں صاحبان اپنے دور اقتدار میں کلین چٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ اسحاق ڈار بری ہو جاتا ہے اور اسد کھرل رینجرز کی حراست سے فرار کروا دیا جاتا ہے۔ جہاں دو بڑی جمہوری پارٹیاں اپنی اپنی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے میثاق جمہوریت نامی ایک ایسی دستاویز پر دستخط کر دیتی ہیں جو انہیں آئندہ کرپشن کرنے کے لیے ایک دوسرے کے تعاون کا یقین دلاتی ہے۔ جہاں جمہوری سفر کا آغاز ہی این آر او سے ہوتا ہے اور ہزاروں لوگ کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات سے بری قرار پاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے پاس اس وقت محض سادہ اکثریت ہے۔ جب وہ دوتہائی اکثریت کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ حکمران تھے اور ان کو وزیراعظم ہاؤس سے اٹھا کر اٹک جیل بھجوا دیا گیا تھا تو ان کے لئے کتنے متوالے نکلے تھے؟ خدا نہ کرے کہ پاکستان میں ایسی صورتحال پیش آئے لیکن بفرض محال یہاں سڑکوں پر ٹینک آ جائیں تو پھول پیش کرنے والوں کے ہجوم ہوں گے جو ٹینکوں کو وی (V)کا نشان بنا کر خوش آمدید کہیں گے۔ مسلم لیگی ‘ترکی میں نا کام فوجی انقلاب پر جس طرح خوشی کا اظہار اور اسے گلیمرائز کر رہے ہیں‘لگتا ہے کہ یہ انقلاب اردوان کے خلاف نہیں میاں نواز شریف کے خلاف نا کام ہوا ہے۔
ہمارے منافق لبرلز مصر میں مرسی کا تختہ الٹنے پر‘ ایک جمہوری حکومت کو بندوق کے زور پر ختم کرنے پر خاموش رہتے ہیں۔ محض فیس ٹائم پر ایک پیغام سے کہ ”ایک قوم کی مانند چوراہوں پر اکٹھے ہو جاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ ہم یہ قبضہ جلد ہی واگزار کروالیں گے۔ میں اپنے عوام کو بلا رہا ہوں کہ وہ میدان میں آئیں اور ان کو دندان شکن جواب دیں۔‘‘ یہ ایک چھوٹا سا پیغام تھا جو فیس ٹائم پر دیا گیا اور اسے سی این این تک نے نشر کر دیا۔ رہی سہی کسر مساجد میں ہونے والے اعلانات نے پوری کر دی۔ یہ پہلی بار ہوا کہ اردوان کے حامی اسلام پسندوں نے مسجدوں کو جمہوریت اور حکومت کے حق میں استعمال کیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف یہ کہ تاریخ کا حصہ ہے بلکہ پوری دنیا نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ شرمندگی کے مارے ہوئے لبرلز کا ایک گروہ اب یہ کہہ رہا ہے کہ یہ اردوان کا ڈرامہ تھا‘اس کا اپنا بنایا ہوا جعلی انقلابی سکرپٹ تھا۔ شرم آنی چاہیے اور ڈوب مرنا چاہیے ایسے تبصرہ نگاروں کو اور تجزیہ کاروں کو جو بے ایمانی اور جھوٹ کے اس درجے پر فائز ہوں۔
ترکی میں جمہوریت کی بقا کے لیے جہاں اردوان کے حامی باہر نکلے ‘وہیں ترکی کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اپنا سارا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ڈا لا۔ سابق صدر عبداللہ گل نے سی این این کے ذریعے عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کی اور اسی طرح سابق وزیراعظم احمد اوغلو نے الجزیرہ پر باہر نکلنے کی کال دی۔ 1517ء میں مارٹن لوتھر نے پروٹسٹنٹ تحریک کو پرنٹنگ پریس کے ذریعے، 1979ء میں آیت اللہ خمینیؒ نے اپنے فرانس میں ریکارڈ کردہ آڈیو پیغامات کے ذریعے کامیاب بنا کر شاہ کا تختہ الٹا۔ اردوان نے ترکی میں جمہوریت اور اپنی حکومت کو اس سوشل میڈیا کے ذریعے تحفظ دیا جس کے خلاف وہ خود سخت اقدامات کر چکا تھا مگر عوام کی طاقت نہ ہوتی تو سب کچھ بیکار تھا۔
ہمارے حکمرانوں کو ترکی میں فوج کی ہزیمت اور عوام کی فتح پر اسلام آباد میں خوش ہونے کے بجائے پاکستان کے عوام کو ان جمہوری ثمرات سے بہرہ مند کرنا ہو گا جس کے باعث ترکی کے عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جمہوریت کی رکھوالی کی۔ اگر موجودہ حالات میں یہاں کوئی آ گیا تو عوام ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے بجائے ٹینکوں کے آگے بھنگڑے ڈالیں گے اور اگر عوام لیٹے تو ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے بجائے ٹینکوں کے پیچھے لیٹیں گے تاکہ واپسی کا راستہ بند کر دیں‘ بعد میں خواہ ساری عمر روتے ہی کیوں نہ رہیں۔