تر کی میں فو جی بغا وت کو عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کرناکام بنا دیا ۔وزیر اعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ چھو ٹے سے گروپ نے بغا وت کی جسے عوام نے کامیاب نہیں ہو نے دیا اور انھوں نے ہر سال 15جو لا ئی کو’ جشن جمہو ریت‘ منانے کا اعلان کردیا ۔ما ضی میں پاکستان کی طر ح تر کی میں بھی فو جی بغا وت جسے عر ف عام میںما رشل لا کہا جا تا ہے وہاں کے جسد سیا ست کا ایک حصہ تھا لیکن تر کی میں کنعان ایورن کے بعد جمہو ریت مستحکم ہو تی چلی گئی۔کنعان ایورن نے 1980ء میں فو جی انقلاب کے بعد نو برس حکومت کی، تب سے اب تک جمہو ریت مسلسل مو جو د ہے۔تاہم 1997 ء میں وزیر اعظم نجم الدین اربکان کو فوج کی سفارشات مجبوراً ماننا پڑیں جن میں آٹھ سالہ لازمی تعلیمی پروگرام،یونیورسٹیز میں سکارف پر پابندی اہم تھیں لیکن ان سفارشات پر سجدہ سہو کرنے کے باوجود وزیر اعظم کو گھر کی راہ دیکھنا پڑی۔
فوجیوں کو گھر بھیجنے کا سہرا تر کی کے صدر رجب طیب اردوان اور ان کی پا رٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(اے کے پی) کو جا تا ہے۔ اردوان 2003ء سے بطور وزیر اعظم یا صدر بر سراقتدار ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوںنے تر کی کے بونا پارٹسٹ جرنیلوں کو نکیل ڈالی جوان کا کارنامہ قرار دیا جا تا ہے لیکن دوسر ی طرف مبصر ین ترکی کے موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی انھیں قرار دیتے ہیں۔ آ فر ین ہے تر کی کے جیالے عوام پر جو جرنیلوں کے ایک گروپ کی شورش کے خلا ف سڑکوں پر نکل آ ئے اورفو ج کے ساز شی ٹو لے کی بغاوت کو ناکا م بنا دیا ۔ تر کی کا لبر ل شہری طبقہ اردوان کے خواتین کے بارے میں بعض ریما رکس اور ان کے مذ ہبی لگا ؤ کی وجہ سے ان کی اسلامی جماعت سے متنفر رہتا ہے لیکن زیا دہ تر دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام ان کی جما عت کے حامی ہیں ۔اسی بنا پر جسٹس پا رٹی 2003ء سے اب تک تین انتخابات جیت چکی ہے۔ تاہم اردوان کی بڑ ھتی ہو ئی آ مرا نہ روش اور خطے میں کوتاہ اند یشا نہ خا رجہ پا لیسی نے بہت سے مبصر ین کو ما یوس بھی کیا ہے ۔اردوان نے اقتدار اور طاقت کے نشے میں مست ہو کر جمہو ریت پسند قوتوں کو دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے۔رواں سال کے اوائل میںانقرہ میں احتجاج کر نے والوں پر طاقت کابے دریغ استعمال کیا گیا جس سے75شہری ہلا ک اور 125زخمی ہوگئے۔ 2013ء تک ان کے رو حا نی رہنمااور اقتدار میں شامل فتح اللہ گو لن نے‘ جوان دنوں امر یکی ریاست پنسلوانیا میں خود سا ختہ جلا وطنی کی زند گی گز ار رہے ہیں‘یہ بھانپ لیا تھا کہ اردوان اپنے راستے سے ہٹ گئے ہیں ۔جس کے بعدسب سے پہلے ترکی کی پا رلیمنٹ میں ان کی گو لن تحر یک کے ارکان نے ہی اردوان ان کے بیٹے اور بعض وزراء کی کر پشن کی داستانوں کو طشت ازبام کیا تھا ۔گو لن چا لیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور عالمی سطح پرکا روبار کر نے کے علا وہ پاکستان سمیت کئی ملکوں میں سکولوں کے نیٹ ورک کے مالک ہیں نیز میڈ یا کے ادارے بھی ان کی ملکیت ہیں ۔اردوان نے انھیں انتقا می کا رروائیوں کا نشا نہ بنانے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑی ۔گز شتہ بر س تر کی حکومت نے گولن تحریک سے منسلک 22کمپنیوں پر قبضہ کر لیاجن میں 2ٹیلی ویثر ن سٹیشن بھی شامل تھے۔ رواں بر س کے دوران ہی تر کی کے بڑ ے اخبار ‘زمان‘ کو بھی یہ کہہ کر کہ گو لن کا حا می ہے قبضہ میں لے لیا گیا۔گو لن کا تر کی کی عدلیہ،پو لیس اور میڈ یا میں خا صا اثر ونفو ذ پا یا جا تا ہے ۔اس تنا ظر میں اتاتر ک ائیرپورٹ پر عوام سے خطاب کر تے ہوئے تر کی کے صدر کا یہ الزام کہ حا لیہ فوجی بغا وت کی ساز ش کے پیچھے گو لن کا ہا تھ ہے، قابل فہم ہے ‘ تاہم گو لن نے اس الزام کو سختی سے رد کرتے ہو ئے بجا طور پر کہا ہے جوشخص خو د فو ج کے مظالم کا شکا ر رہا ہو وہ کیو نکر کسی فو جی بغا وت کی حمایت کر سکتا ہے۔ اصولی طور پر اردوان کو تر کی کی بگڑتی ہو ئی اندرونی اور بیرونی صورتحال پر غور کر نا چا ہیے ۔گو لن کی حوالگی کے مسئلے پر انقرہ اورواشنگٹن کے تعلقات بھی مز ید کشید ہ ہو گئے ہیں ؛ حتی کہ تر کی کے ایک وزیر نے امر یکہ پر بغا وت کی سازش میں شامل ہونے کا الزام لگا دیا ہے ۔اس ‘کو‘ کے بعد یورپی یونین کی مکمل رکنیت حا صل کر نے کا خواب تو قصہ پارینہ بن گیا ہے لیکن اصل مسئلہ تر کی میں بڑھتی ہوئی دہشت گرد ی کا ہے۔ رواں بر س کے دوران اب تک تر کی میں دہشت گردی کے آ ٹھ بڑے واقعات ہو چکے ہیں جن میں سب سے سنگین اتاترک ائیر پو رٹ پر شب خون مارناتھا جس میں 41افراد ما رے گئے اور سینکڑوںزخمی ہوئے۔
تر کی کی اقتصادی صورتحال بھی مو جو دہ غیر یقینی حالات سے متا ثر ہو رہی ہے۔ کر دوں کو کچلنے کی پالیسی، عراق اور شام میں نیٹو کی کا رروائیوں کے لیے اپنے اڈوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ داعش کی درپر دہ حمایت سے بھی اردوان کی ساکھ متا ثر ہو ئی ہے۔ چند ما ہ قبل روس کے ایک جنگی جہا ز کو جو مبینہ طور پر ترکی کی فضا ئی حدود کی خلا ف ورزی کر رہا تھامار گرا نے پر ترکی اور روس کے تعلقا ت کشید ہ ہو گئے تھے ۔طیب اردوان کی ترکی میں صدارتی نظام کے نفاذ کی کوششوں کو بھی کچھ اچھا نہیں سمجھا جا رہا لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود اردوان اور ان کی پا رٹی کی عوام میں مقبو لیت بر قر ار ہے اور پارٹی پر ان کی مکمل گرفت ہے جسکی بنا پرچاہے وہ وزیر اعظم ہوںیا صدر با اختیا رہی ہیں ۔اس تناظر میں ترکی مو جو دہ فو جی بغا وت کی بظا ہر نا کامی کے باوجو د اندرونی طور پر خلفشار کا شکا رہے گا اور جمہوریت کے نام پر جمہو ریت کو ہی کچلنے کی کارروائیوں میںاضا فہ ہو گا ۔تر کی کا فو جی انقلا ب اتنے بھو نڈے انداز سے بر پا کیا گیا کہ اسے بعض تجز یہ نگار اردوان کی خو د تیا ر کر دہ سازش قر ار دے رہے ہیں۔غا لباً ایسا نہیں ہے لیکن اس ناکام بغاوت کو جواز بنا کر فو ج ،عدلیہ، میڈ یا اور سیا ست میں مخالفین کے خلا ف انتقا می کارروائیوںکا عمل تیز تر ہو جا ئے گا ۔
تر کی کے حالات پاکستان کے حکمرا نوں کے لیے بھی نو شتہ دیوار ہیں ۔پاکستان بھی ما ضی میں فوجی آ مر یتوں کو بھگت چکا ہے ۔آ خر ی شب خون 1999ء میں جنر ل پر ویز مشرف نے ما را تھا جس کے بعد پرویز مشرف 9برس تک اقتدار میں رہے۔پا کستان میں اب بھی ہر شعبے میں فو ج کا اثر ونفوذ اتنا زیا دہ ہے کہ ہز ار کوشش کے با وجو د میاں نواز شر یف کی حکومت نہ صرف سابق آ مر کے خلاف آ ئین کے آ رٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام رہی بلکہ انھیں طو عاً وکرہاًسابق آمر کو بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دینا پڑی ۔آ ج بھی مختلف کو نوں کھدروں سے فو ج کو اقتدار پر قبضہ کر نے کی ترغیب دینے کی آ وازیں اٹھ رہی ہیں حتیٰ کہ میڈ یا پر بعض سیاستدان اور تجز یہ کار کھلم کھلا حکومت جانے کی تا ریخیں دے رہے ہیں ۔ فوج کو دعوت دینے پر مبنی پو سٹر لگانے والوں اور ان کے ہم خیال عنا صر کو خوش ہو نا چا ہیے کہ پاکستان میں اس حد تک آ زادی اظہا ر ہے کہ ایسے لوگوں سے کو ئی باز پرس نہیں کی جاتی۔تر کی میں تو حکومت ٹیلی ویثر ن پر قبضہ کر سکتی ہے لیکن پاکستانی حکومت کا میڈیا کے کسی نجی ادارے یا پریس گر وپ پر قبضہ نا ممکنا ت میں شامل ہے۔ سیاست میں بھا نت بھا نت کی بولیاں بولنے اور گالیاں دینے والوں کے خلا ف بھی بظاہر انتقا می کارروائی نہیں کی جا تی ۔جہاں تک پاکستانی فو ج کا تعلق ہے تر کی کے بر عکس یہاں قریباً 35برس تک فو جی حکومتیں رہنے کے با وجو د کبھی فو ج کے ڈسپلن میں رخنہ نہیں آ یا ۔ یہاں جب بھی کر پشن اور نااہلی کے الزام میں کسی طا لع آز ما نے جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجاتو یہ اقدام فو جی سر براہ یا اس کے حواریوں کا خود کردہ تھا اور ذوالفقا ر علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے سوا پاکستانی عوام کسی فو جی مداخلت کے خلاف سڑکوں پر نہیں نکلے۔ جب جنر ل ضیا ء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پیپلز پارٹی کے جیا لے سڑکوں پر نکلے اور اس پاداش میں کو ڑے بھی کھا ئے اور سزائیں بھی کا ٹیں۔حتیٰ کہ خو دذوالفقا ر علی بھٹو مفا ہمت کے بجائے تختہ دار پر جھو ل گئے۔
طیب اردوان اور شر یف برادران میں مماثلت بھی ہے ۔شر یف فیملی قر یباً35برس سے جنرل پرویز مشرف کے نو سالہ اقتدار کو چھو ڑ کر بر سر اقتدار ہے ۔جسٹس پارٹی اور نواز لیگ دونوں دائیں بازو کی جما عتیں ہیں ۔شا ید اسی بنا پر اردوان اور نواز شریف کے خاندان کے درمیان گہرے تعلقا ت ہیں۔حال ہی میں اردوان کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں شر کت کے لیے میاں نواز شر یف ، محترمہ کلثوم نواز ،مر یم صفدر اور خا ندان کے دیگر افراد استنبول بھی گئے اور میاں نواز شر یف نکاح کے گواہ بھی تھے ۔جہاں انہیں بڑی پذیرا ئی دی گئی، ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں طیب اردوان اور ان کے صاحبز ادے پر کر پشن کے الزام لگتے ہیں وہاں دوسر ی طرف میاں نواز شر یف اور ان کے برخورداروں اور صاحبزادی پربھی ‘پاناما گیٹ ‘کے حوالے سے اس قسم کے الزامات لگ رہے ہیں لیکن دونوں رہنماؤں میں سب سے بڑ ی قدر مشتر ک یہ ہے کہ بشر ی اور سیاسی کمزوریوں کے با وجو د انہیںعوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ میاں نواز شر یف اور ان کے وزراء تر کی میں فو جی بغا وت کو ناکام بنانے اور جمہوریت پر شب خون ما رنے کی کو شش ناکام بنانے والے تر ک عوام کو داد دے رہے ہیںلیکن انھیں یہ بھی غو ر کر نا چا ہیے کہ تر کی میں جمہو ری حکومت نے کس انداز سے ملک اورعوام کی خدمت کر کے ان کے دلو ں میں جگہ بنا ئی ہے