ترکی کا معاشی بحران … (آخری قسط)…نذیر ناجی
”یہ بات حیرت کا باعث نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے بعد اردوان نے اپنی کابینہ میں موجود ٹیکنوکریٹس کو ہٹا کر ان کی جگہ‘ اپنے وفادار داماد کو خزانہ اور فنانس کی طاقتو ر وزارت میں لگا دیا۔ اس کا نتیجہ اچھا نکلے یا برا ؟ لیکن یہ واضح ہے کہ جب تک اور جہاں تک ممکن ہو سکے‘ اردوان اس معاشی راستے پر قائم رہنا چاہتے ہیں‘ جو انہوں نے خود وضع کیا تھا ۔اردوان جب ”شیطانی‘‘ شرح سود کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور ایک ایسی جنگ میں‘ جس کا مقصد ترکی کو نیچا دکھانا ہے‘ ڈالرز‘ یوروز اور گولڈ کو ”گولیوں‘ توپوں کے گولوں اور میزائلوں‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں‘ تو وہ مغربی کمیونٹی کو محظوظ نہیں کر رہے ہوتے ہیں‘ بلکہ ایک دکھ کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ‘جس کی جڑیں 1920ء کے معاہدے سورے (Sevres فرانس کا ایک شہر ہے) میں کُھبی ہوئی ہیں‘ جس کے تحت اتحادی فوجوں نے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے سے پیدا ہونے والے تاسف کی ساری علامات کو ترکی کی سیاست میں عوام کے جذبات کو انگیخت کرنے کیلئے آج بھی کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں میں اس جنون کو بڑھایا جاتا ہے کہ بیرونی طاقتیں ترکی کو زوال پذیر کرنے اور نیچا دکھانے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں۔ اسے ترکی میں سیاسی مقاصد کے لئے غیر ملکی اشیا کے بائیکاٹ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے ترک‘ جو اردوان کو اچھا نہیں سمجھتے‘ ان کے سامنے بھی یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ ترکی کو معاشی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ اب اپنے’ لیرا‘ فروخت کر رہے اور ان اثاثوں کو محفوظ بنا رہے ہیں‘ جو کرنسی کی نسبت زیادہ مستحکم ہیں ‘ لیکن ا س کے ساتھ ساتھ وہ یہ سوال بھی دھراتے رہتے ہیں کہ آیا واقعی ان کا ملک غیر ملکی قوتوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ترکی میں لہراتے معاشی شعلوں کو ہوا دینے کیلئے گزشتہ ہفتے ٹیرف کے حوالے سے ایک ٹویٹ کیا گیا۔ اس ٹویٹ نے شکوک و شبہات کی خلیج کو مزید گہرا اور وسیع کر دیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ نادانستہ طور پر ترکی میں اردوان کی سیاسی ساکھ کو بڑھانے اور بہتر بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ طیب اردوان ریفرنڈم اور الیکشن کے مسائل کو پہلے ہی حل کر چکے ہیں اور کم از کم پانچ برس‘ یا ممکنہ طور پر دس برس کیلئے خود کو ہر لحاظ سے محفوظ بھی بنا چکے ہیں‘ تاہم اگلے سال ترکی میں میونسپل الیکشن ہونے والے ہیں۔ ممکن ہے‘ وہ اس حوالے سے تھوڑے بہت فکر مند ہوں‘ لیکن باقی معاملات ٹھیک ہیں۔ حکومت کے حامی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس طرح کے سگنل مل رہے ہیں کہ اردوان ممکن ہے ان میونسپل الیکشن کو چھ ماہ پہلے کرا دیں۔ الیکشن قبل از وقت کرانے کی ایک وجہ وہ معاشی مسائل ہیں‘ جو بہرحال تیزی سے سر اٹھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اردوان ترکی میں پیدا ہونے والے حالیہ سیاسی استحکام سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہوں۔ یہ ایک ایسی افواہ ہے جسے میں سنجیدگی سے لوں گا۔ میں اس حوالے سے اشارہ دوں گا ترکی میں کسی بھی قسم کی سنجیدہ سٹرکچرل اصلاحات لائے جانے کی توقع صرف اور صرف الیکشن کے بعد ہی ممکن ہے‘ جبکہ ترکی کو اس وقت ایک بڑے طوفان کا سامنا ہے اور اس کی سب سے بڑی ترجیح اس طوفان کا سامنا کرنا ہے۔ ارد گرد پھیلے جیو پولیٹیکل تنازعات کی وجہ سے‘ ترکی کے معاشی مسائل میں اضافہ تو ہو سکتا ہے‘ کمی نہیں۔ امریکہ میں انجیل کو ماننے والے ترکی میں نظر بند پادری اینڈریو برنسن کی رہائی کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں اور صدر ٹرمپ اس سلسلے میں ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس سے ترکی اور امریکہ کے مابین جو ڈپلومیٹک تعطل پیدا ہوا ہے‘ وہ دراصل امریکہ ترکی تعلقات کی بارودی سرنگ میں گولیوں سے بھرا ہوا ایک گولے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ترکی نے مذکورہ پاردی کو رہا کرنے کے بدلے میں اسلامی موومنٹ کے سربراہ ‘فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ گولن‘ اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد امریکہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اس طرح ترکی کی حکومت نے فتح اللہ گولن کو اس پادری کے برابر لا کھڑا کیا ہے اور اسی معاملے پر اس وقت دونوں ملکوں یعنی امریکہ اور ترکی کے معاملات تعطل کا شکار ہیں۔
فتح اللہ گولن اور برنسن کے معاملات سے ہٹ کر ترکی اپنے وقت کی بھی بولی لگاتا نظر آتا ہے۔ امریکہ کو موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ اس کے مشرق وسطیٰ کے پچھواڑے سے خود کو باہر نکال سکے۔ یہ ترکی کے اپنے مفاد میں ہے‘ کیونکہ ترکی واضح طور پر امریکہ کی جانب سے سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) میں موجود کرد جنگجوئوں کی ہر طرح سے حمایت اور امداد کے خلاف رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترکی یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کا حتمی مرحلہ شروع ہونے والا ہے اور وہ چاہے گا کہ ملک کے اندر استحکام رہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکہ اگر اس علاقے میں اپنا وجود برقرار رکھتا بھی ہے ‘تو شام کے شمالی علاقوں میں موجود کرد فوجی اڈے منقسم اور سیاسی لحاظ سے نیوٹرلائزڈ رہیں۔ اس دوران امریکہ کی جانب سے ایس ڈی ایف کی سپورٹ اور ترکی کی یہ خواہش کہ شام میں موجود کردوں کو منقسم رکھا جائے اور انہیں کمزور کیا جائے‘ دونوں ملکوں (ترکی اور امریکہ) کے درمیان تنائو کا باعث رہے گا۔
امریکہ نومبر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا پروگرام رکھتا ہے‘ جس سے پوری دنیا کے اقتصادی معاملات متاثر ہوں گے‘ جبکہ خدشہ ہے کہ ترکی ‘ایران پر لگائی گئی امریکی پابندیوں کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ ترکی اپنی توانائی کی تقریباً تمام تر ضروریات بیرون ملک سے پوری کرتا ہے اور ایران‘ ترکی کو تیل اور گیس سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ترکی کی جانب سے اقتصادی امداد کی تلاش تزویراتی مڈل پاور کی جانب سے بڑی طاقتوں کے مقابلے بازی میں پھنسی ہوئی ریاست کی جانب سے توازن قائم کرنے کی ایک کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ اس وقت چین اور روس‘ امریکہ کے ساتھ مقابلے میں ہیں اور دونوں ہی امریکی قیادت میں چلنے والے اس آرڈر کو چیلنج کرنے کے حوالے سے نئے ہم خیال ممالک کی تلاش میں ہیں۔ ترکی کے قدم مغرب میں مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور وہ اس پکڑ کو قائم رکھے گا۔ وہ نیٹو جیسے تزویراتی اتحاد سے بھی نکلنے کی کوئی سوچ نہیں رکھتا‘ لیکن وہ مشرقی اور مغربی قطبوں کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے؛ چنانچہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے پر توجہ دے گا‘ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے پُرانے جیو پولیٹیکل حریف ‘روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے پر بھی توجہ مبذول کرے گا۔ روس کے ساتھ معاملات میں امریکی مخالف کے باوجود وہ دفاعی تعاون قائم کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ چین کے پاس اتنی اقتصادی گنجائش موجود ہے کہ وہ تزویراتی اہمیت و افادیت کے حامل ممالک کو بڑی مقدار میں قرضے فراہم کر سکے۔ جیسا کہ اس نے وینزویلا کے حوالے سے غیر معمولی اقتصادی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا‘ یا یہ امکان کہ آئی ایم ایف کے بجائے وہ (چین) پاکستان کو دس ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کر دے جس کی پاکستان کو اس وقت سخت ضرورت ہے۔ چین اسی طرح کے تعلقات ترکی کے ساتھ بھی بنا سکتا ہے۔ بہرحال ترکی کو اس وقت جن مالی مسائل کا سامنا ہے‘ ان کے حل کے لئے اسے خاصی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ مغرب اور مشرق کے مابین مسابقت کے ماحول میں اپنی سیاسی سلطنت کو بچانے کیلئے بہرحال ایک مختلف طرز عمل کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ (ختم شد)