تشدد کی روک تھام… اسد اللہ غالب
ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے قتل وغارت گری اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ اِن پُرتشدد واقعات کے تدارک کے لیے حکومتیں مختلف طرح کے اقدامات اور اعلانات بھی کرتی رہی ہیں لیکن دہشت گردی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تشدد کے اسباب اور ان کے تدارک کے لیے جن تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے‘ ان پر کماحقہٗ توجہ نہیں دی جاتی۔ باریک بینی سے غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تشدد کے کئی محرکات ہیں جن میں سے چند اہم محرکات درج ذیل ہیں:
1۔ حد سے بڑھا ہوا تعصب اور نفرت: جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص یا گروہ سے شدید نفرت کرتا ہے تو وہ اس کی ذات اور سوچ وفکر کو مٹانے کے لیے ہر طرح کا ہتھکنڈا استعمال کرنے کو درست اور روا سمجھتا ہے۔ دیکھنے میں آیاہے کہ معاشرے میں بہت سے لوگ ظلم اور ناانصافی سے کام لیتے ہوئے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں لیکن متاثرہ انسانوں کے لیے یہ کسی بھی طور پر جائز نہیں کہ ظلم اور تشدد کا مقابلہ غیر قانونی یا ماورائے عدالت طریقوں سے کریں بلکہ ظالم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کیا جائے اُس کو مذہب ،قانون اور اخلاق کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
2۔ حد سے بڑھا ہوا لالچ: تشدد کا ایک بڑا سبب حد سے بڑھا ہوا لالچ ہے۔ کئی مرتبہ انسان مادی مفادات کے لیے دوسرے انسان کی جان لینے پر بھی آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ لالچی انسان اپنے مادی اغراض ومقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہر حد عبور کر جاتا ہے حالانکہ انسان کو اپنی خواہشات کو پورا کرتے وقت حلال اور حرام سے متعلقہ دینی احکامات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے۔
3۔ ریاستی قوانین سے بے خوفی: اگر کسی معاشرے میں قوانین کا نفاذ ہموار اور یکساں نہ ہو تو اُس معاشرے میں بہت سے ایسے عناصر پیدا ہو جاتے ہیں جو ریاستی قوانین سے بے خوف ہو تے ہیں۔ اُن کے ذہنوں میں یہ خیال رہتا ہے کہ ریاستی قوانین کو دباؤ، اثرورسوخ اور سفارش کے ذریعے پامال کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ وہ مذموم ارادوں اور غلط خواہشات کی تکمیل کے لیے منفی راستوں کو اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
4۔ معاشی ناہمواریاں: معاشرے کے لوگوں کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ریاستی سطح پر کفالت کا انتظام ہونا چاہیے۔ دو وقت کا کھانا، معقول لباس ، درمیانے درجے کی رہائش ، علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتیں وہ بنیادی حقوق ہیں جو معاشرے کے تمام شہریوں کو حاصل ہونے چاہئیں۔ لیکن بدقسمتی سے معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے لوگ اپنے جائز حقوق کو حاصل کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں تشدد کے راستے پر چلنے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں اور لوگ منفی سوچ اور انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر کئی مرتبہ ایسا کردار ادا کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں جو کسی بھی طور پر درست نہیں ہوتا۔
5 ۔ ذرائع ابلاغ کا غیر ذمہ دارانہ کردار: تشدد کی ایک بہت بڑی وجہ ذرائع ابلاغ کا غیر ذمہ دارانہ کردار بھی ہے۔ کئی مرتبہ خبروں ، ڈراموں اور دیگر ذرائع ابلاغ سے مجرموں کو ہیرو بنا کرپیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ غلط راستوں پر چلتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ہیرو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ پُر تشدد فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے سے پُر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور معاشرے میں انتشار اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
6۔ مذہب سے دوری: تشدد کی ایک بڑی وجہ مذہب سے دوری بھی ہے۔ مذہب انسان کو اخوت، رواداری اور معاف کرنے کا سبق دیتا ہے۔ قرآنِ مجید کا مطالعہ کریں تو جابجا حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید میں مذکور حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ رواداری اور درگزر کی ایک خوبصورت داستان ہے۔ سیرتِ نبوی میں بھی رحم دلی اور لوگوں کو معاف کرنے کے واقعات بکثرت ملتے ہیں۔ جب انسا ن مذہب کے قریب ہوتا ہے تو اس کے دل میں دوسروں کے بارے میں ہمدردی اور معاف کرنے کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ جب انسان مذہب سے دور ہوتاہے تو انتقام، انانیت، حسد اور بغض جیسے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔ مذہب سے وابستگی انسان کو معتدل بناتی اور اس کو دوسرے انسانوں کی خیر خواہی پر ابھارتی ہے۔
7۔ سیاسی انتشار: تشدد کے اسباب میں سے ایک بڑاسبب معاشرے میں سیاسی خلفشار اور انتشار بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لوگ اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنے کے لیے مخالف پارٹی اور گروہوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں جس کی وجہ سے داخلی اتحاد کمزور ہوتا اور معاشرتی انتشار میں اضافہ ہوتا ہے۔ سقوط ِ ڈھاکہ اس کی بہت بڑی مثال ہے جہاں قوم پرست بنگالی نظریۂ پاکستان سے اس حد تک دوری اختیار کر نے میں آمادہ ہو گئے کہ ہمارا وطن دولخت ہو گیا۔
تشدد کے اسباب کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے تدارک کے لیے بھی مؤثر تدابیر کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے دو اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ انسانیت کی تکریم کا درس: معاشرے کے مؤثر افراد کو ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو دوسرے انسانوں کی تعظیم اور تکریم کا درس دیناچاہیے اور اُن کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ ہر انسان کو دوسرے انسان کی عزت، ناموس ، مال اور جان کا احترام کرنا چاہیے اور اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ کسی ایک انسان کی جان کا ضیاع پوری انسانیت کا ضیاع اور کسی ایک انسان کی جان کا تحفظ پوری انسانیت کے تحفظ کی مانند ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص) کے یا زمین میں فساد مچانے کے (لیے) تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی کو ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی اُسے تو گویا اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کے ان مقامات پر بھی غوروفکر ضروری ہے کہ جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کے باہمی حقوق کا ذکر کیا۔اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10میں ارشاد فرماتے ہیں: ”یقینا مومن (تو ایک دوسرے کے) بھائی ہیں‘‘۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان کے قتل کو سنگین جرم قرار دیا اورسورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں اعلان کیا: ”اور جو قتل کرڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر‘ تو اُس کی سزا جہنم ہے‘ ہمیشہ رہے گا اُس میں‘ اور غضب کیا اللہ نے اُس پر اور لعنت کی اُس پر‘ اور تیار کر رکھا ہے اُس کے لیے عذاب‘‘۔
اگرعلماء کرام منبر ومحراب کے ذریعے اور اساتذہ اپنی درسگاہوں میں کتاب وسنت کے دروس کو عام کریں تو تکریمِ بنی آدم کا احساس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے اور وہ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ انسانوں کو دوسرے انسانوں کی تکریم کرنی چاہیے اور کسی بھی صورت میں دوسروں کو گزند پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔
2۔ جرم وسزا کا ہمہ گیر اور مؤثر نظام:جرم وسزا کا ہمہ گیر اور مؤثر نظام یقینا معاشرے میں جرائم کے خاتمے کا بہت بڑا سبب ہے۔ اس حوالے سے سیرتِ نبوی سے بہت واضح رہنمائی ملتی ہے۔ قانون کی عملداری کے حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے: قبیلہ مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی تو قریش اس کے معاملے میں بہت پریشان ہوئے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس کے متعلق رسول اللہﷺ سے کون گفتگو کرے؟طے پایا کہ صرف حضرت اسامہ بن زید ؓ جو رسول اللہﷺ کے محبوب ہیں‘ وہ آپﷺ سے اس کے متعلق بات کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں؛ چنانچہ حضرت اسامہؓ ؓنے اس کے متعلق آپﷺ سے سفارش کی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”(اے اسامہ!) کیا تم اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟‘‘۔ پھر آپﷺ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں کو اس امر نے تباہ کیا کہ جب ان میں سے کوئی دولت مند اور معزز آدمی چوری کرتاتو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کردیتے۔ اللہ کی قسم! اگر (میری لخت جگر) فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘۔اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر جرم کی سزا ہمہ گیر ہو تو معاشرے میں جرائم کو روکا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سنتِ نبوی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ سنگین نوعیت کے جرائم کرنے والوں کو کڑی سزائیں دینی چاہئیں۔اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایک یہودی نے ایک لڑکی سے اس طرح زیادتی کی کہ اس کے زیورات بھی اتار لیے اور پھر اس کا سر پتھر سے کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے بہ ایں حالت رسول اللہﷺ کے پاس لائے کہ وہ زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی اور بول نہیں سکتی تھی۔ رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا: ”تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے قتل کیا ہے؟‘‘ آپﷺ نے چند افراد کا نام لیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا: ”نہیں!‘‘ پھر جب آپﷺ نے اس کے قاتل کا نام لے کر پوچھا: ”فلاں نے؟‘‘ تو اس نے سر سے اشارہ کیا: ”ہاں‘‘ (اس نے قتل کیا ہے)۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس قاتل سے متعلق حکم دیا تو اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو تشدد اور دہشت گردی کے محرکات کو سمجھ کر ان کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ معاشرے کو امن وامان کا گہوارا بنایا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز کو دہشت گردی اور تشدد سے پاک کرکے امن وسکون کا گہوارا بنا دے، آـمین !