تصوّف‘ تمدن‘ شریعت‘ کلام…ہارون الرشید
ایمان کی تو یہ ہے کہ اخلاص کے سوا ‘ اس خاک داں میں آدمی کی متاع کوئی نہیں۔ اخلاص بھی ایثار اور انکسار کے ساتھ‘ باقی سب وہم و گماں‘ باقی سب داستاں۔
تصوّف‘ تمدن‘ شریعت‘ کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
کل پھر دو مرکھنے بیل سینیٹ میں ایک دوسرے سے سینگ ٹکراتے رہے۔ کل پھر ایوان تماشا دیکھتا رہا۔ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک اپنی توانائی تعمیر پہ لگاتے ہیں‘ دوسرے انتقام اور آوارگی میں ضائع ہو جاتے ہیں۔ برصغیر کے معاشرے کی ساخت ایسی ہے کہ لاکھوں‘ شاید کروڑوں خاندان باہم الجھتے رہتے ہیں۔ تھانے اور کچہریاں ان سے بھری رہتی ہیں۔ پولیس والے ان کی وجہ سے روپیہ بناتے ہیں‘ وکیل ان کے بل پہ آسودہ رہتے ہیں۔ ججوں اور افسروں کا وقت ان کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے۔ سیاسی کارکنوں کی زندگیاں‘ اسی میں رائیگاں ہوتی ہیں۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری یہی ہے بادِ مراد؟
تحریک انصاف اور نون لیگ کے ہزاروں کارکن دن رات ایک دوسرے کے لتّے لیا کرتے ہیں۔ بیچ میں وقت نکال کر‘ وہ ان اخبار نویسوں کو گالیاں بکتے ہیں‘ جو انہیں نا پسند ہوں۔”لفافہ‘‘ تو ایک عام لقب ہے۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ۔ ایسا نہیں کہ اخبار نویس غلطی نہیں کرتے۔ کرتے ہیں اور بہت لیکن ہر خطاکار”لفافہ گیر‘‘ نہیں ہوتا۔ ہمارے کتنے ہی ساتھی ایسے ہیں کہ مالی معاملات میں ان کی دیانت اظہر من الشمس ہے۔ مگر پی ٹی آئی یا نون لیگ والے نہیں مانتے۔ ایسے ایسے جرائم ان سے منسوب کرتے ہیں‘ جو کبھی خواب میں بھی ان سے سر زد نہ ہوئے ہوں گے۔ سرفہرست تو رئوف کلاسرا ‘ سلیم صافی اور طلعت حسین ہیں۔ ”حسبِ توفیق ‘‘ باقی بھی۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کی یا لیڈر کی حمایت یا مخالفت گناہ نہیں‘ اگر دلیل سے اگر کی جائے۔ دلیل نہ ہو تو اثر پذیر ہی نہ ہوگی۔ عمران خان کو شوکت خانم میں لوٹ مار کا طعنہ دینے والا کیا حاصل کرے گا۔ ان دنوں عطاء الحق قاسمی زد پہ ہیں۔ ان کی جو غلطی ہے‘ سو ان کی ہے‘ مگر کیا وہ گن پوائنٹ پہ ٹی وی کے چیئر مین بنے تھے؟ قصور بنانے والوں کا ہے‘ نگرانی نہ کرنے والوں کا۔ اس سے پہلے ‘ کب اور کون سے تقرر انصاف سے ہوئے۔ اب کون سے ہو رہے ہیں۔ کل قاسمی صاحب تھے‘ آج بزدار ہیں‘ نعیم الحق ہیں اور عون چوہدری ہیں۔
مشاہد اللہ خان اور فواد چوہدری کی نہیں‘ یہ میاں محمد نواز شریف اور عمران خان مد ظلہ العالی کی جنگ ہے۔ لیڈر ‘ اگر پیٹھ نہ تھپکیں تو آدمیوں کی طرح اختلاف کریں‘ مرغوں کی طرح نہ لڑا کریں۔ یہ ضرور ہے کہ اس میں ان کی افتادِ طبع کا دخل بھی ہے۔ عمران خان یہ ذمہ داری شفقت محمود اور اسد عمر کو نہیں دے سکتے۔ نواز شریف جنرل عبدالقیوم خان کو اس کارِ خیر پہ آمادہ نہیں کر سکتے۔
فون کی گھنٹی بجی‘ یہ طارق پیرزادہ ہیں۔ عرض کیا: کالم لکھ رہا ہوں‘ بولے : پھر اقبالؔ کا حوالہ تو ہوگا۔ ایک شعر ذہن میں چمک اٹھا: جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست / باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک۔ مراد انگریز کے ٹوڈی ہیں‘ اقبالؔ ‘ جن پہ آزردہ رہے۔ آج کے بعض رہنمائوں پہ بھی صادق آتا ہے‘ لوٹ مار جن کا اصل پیشہ ہے۔ لیکن کیا سیاستدانوں ہی کا؟ لاکھوں‘ کروڑوں اور کچھ اربوں کماتے ہیں۔ مجال ہے کہ مجبوری کے سوا ٹیکس ادا کریں ؎
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی
عقیل کریم ڈھیڈی کہتے ہیں کہ ملک کے اصل دشمن کاروباری ہیں۔ قوم کا لہو نچوڑ کر پی لیا۔ ایثار تو دور کی بات ہے‘ سرکاری خزانے کا حق بھی ادا نہیں کرتے۔ ہم میڈیا والے؟ کتنے اخبار ہیں‘ جو سرکاری اشتہارات کو شیرِ مادر سمجھتے رہے۔ اب پابندی لگی تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسا بلکہ گھن زیادہ پسا۔ ایسا ایسا اخبار ہے کہ چھاپنے والوں کے سوا کوئی نہیں پڑھتا لیکن کروڑوں کے اشتہارات۔
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے۔ ہر مجرم کا مطالبہ یہی ہے کہ پہلے دوسروں کا احتساب ہو‘ میرا تو ہرگز نہیں۔ اگر لازم ہو تو آخر میں۔ جرائم پیشہ تو الگ رہے‘ میڈیا کے بعض شرفا کی داستانیں اس قدر دل خراش ہیں کہ لکھی جائیں تو بعض کو شاید یقین ہی نہ آئے۔ ایسے بھی ہیں کہ دولت کے انبار چھوڑ کر چلے گئے۔ اپنی زندگی برباد کی۔ اولاد کی تباہی کا سامان کر گئے۔ برسیاں ان کی دھوم دھام سے منائی جاتی ہیں۔ فرشتے آسمانوں سے دیکھتے اور حیرت کرتے ہوں گے کہ کیسی عجیب مخلوق اللہ نے پیدا کی ہے۔
کل ایک ٹی وی کے لیے منصور آفاق نے اس گنہگار کا انٹرویو کیا۔ ملّا پہ ایسا غیظ و غضب کیوں؟ ارے بھائی‘ میں تو معمولی آدمی ہوں‘ اقبالؔ تو بہت دھیمے تھے‘ بہت درد مند تھے۔ دل گدازپایا تھا۔ قرآن کریم کے اوراق پہ ان کے آنسو گرا کرتے۔ 250 اشعار ان کے ملّا کے خلاف ہیں۔ صرف ایک شعر میں افغان ملّا کی تحسین کی۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو
آخر کو وہ بھی بگڑا اور ایسا بگڑا کہ خون کی ندیاں بہا دیں۔ اقبالؔ زندہ ہوتے تو اپنے اس شعر پہ شاید تاسف کرتے۔ اپنے دیوان سے خارج کر دیتے۔
اللہ کے آخری رسول ﷺ سے پوچھا گیا: انسانوں میں بدترین کون ہیں۔ رحمۃ اللعالمین نے گریز فرمایا۔ ارشاد کیا : اللہ ان پہ رحم کرے۔ سوال کرنے والے نے اعادہ کیا تو فرمایا: جو دنیا کے بدلے دین کو بیچ دیتے ہیں۔
کور کمانڈروں کے اجتماع نے اعلان کیا ہے کہ امن و امان قائم رکھنے میں‘ ریاست کے سب اداروں کا ہاتھ بٹایا جائے گا۔ ارے بھائی‘ یہ تو دستور میں لکھا ہے۔ اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سب جانتے ہیں کہ کیوں پیش آئی۔ غضب ناک ملّائوں کو مہلت دی جاتی رہی۔ اتنی مہلت کہ قبائلی علاقوں کے بعد‘ سوات کو بھی یرغمال بنا لیا۔ قتل و غارت کے خوگر ہوئے اور اس قدر خوگر ہوئے کہ ساٹھ ہزار معصوم پاکستانیوں کو شہید کر دیا۔ فوج کے چھ ہزار جوانوں اور افسروں کو بھی۔ عبادت گاہوں پہ چڑھ دوڑے۔ مرنے والوں کو بھی معاف نہ کیا۔ اولیاء کے مزاروں پہ زائرین کے چیتھڑے اڑا دیئے کہ ان کی کیوں سنتے ہیں‘ ہماری کیوں نہیں؟
خواجہ مہر علی شاہؒ سے قرآن کریم کی ایک آیتِ کریمہ پر روشنی ڈالنے کو کہا گیا ”مجھے یاد کرو‘ میں تمہیں یاد کروں گا‘‘۔ اللہ کیسے آدمی کو یاد کرتا ہے؟ ارشاد کیا: مٹی کے ان ڈھیروں کو نہیں دیکھتے کہ کہاں کہاں سے اللہ کی مخلوق کھنچی چلی آتی ہے۔ انہیں بھی معاف نہ کیا‘ انہیں بھی معاف نہ کیا‘ جن کے طفیل خاک پہ عرش کا نور پھیلتا رہا۔
اقبالؔ نے کہا تھا: جدا ہو دیں سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ کبھی یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ وہ چنگیزی جو دین کے نام پہ ہوتی ہے؟صاحبقراں امیر تیمور گورگانی اپنے حریفوں کو” حربی کافر‘‘ کہا کرتے تھے۔ قرآن کریم کے حفظ میں کمال انہماک پیدا کیا تھا۔ اوّل سے آخر کوئی سورۃ تو بہت سنا سکتے ہیں۔ امیر آخر سے اوّل تک بھی سنا دیا کرتے۔ قرآن اس آدمی کے کسی کام نہ آیا۔ غور و فکر نہ ہو‘ یقین نہ ہو تو کیسا ایمان اور کہاں کا ایمان بس جبلّت رہ جاتی ہے اور اس کی وحشتیں۔ روزِ ازل فرشتوں نے سچ کہا تھا ”زمین میں یہ خون ریزی کرے گا‘‘ اور اللہ نے ان کی تردید کب کی؟ شیطان کی بھی نہ کی‘ جب اس نے کہا کہ انسانوں کو آسانی سے وہ گمراہ کرتا رہے گا۔ فرمایا : لیکن میرے مخلص بندے ‘ گمراہ نہ ہوں گے۔
ایمان کی تو یہ ہے کہ اخلاص کے سوا ‘ اس خاک داں میں آدمی کی متاع کوئی نہیں۔ اخلاص بھی ایثار اور انکسار کے ساتھ‘ باقی سب وہم و گماں‘ باقی سب داستاں۔
تصوّف‘ تمدن‘ شریعت‘ کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام