منتخب کردہ کالم

تعزیت کرنا ایک مشکل کام کیوں ہے؟…حسنین جمال

تعزیت کرنا ایک مشکل کام کیوں ہے؟…حسنین جمال

دنیا میں سب سے مشکل کام مجھے کسی دوست سے تعزیت کرنا لگتا ہے۔ خدا سب کو اپنی امان میں رکھے لیکن جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو نئے سرے سے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔ آپ اس بندے سے رسمی بات کیسے کر سکتے ہیں جس کے ساتھ آپ نے دنیا جہان کی آوارہ گردی کی ہو۔ آپ ہنسے ہوں، آپ نے اکٹھے گانے گائے ہوں، آپ نے رقص کیا ہو، آپ نے شرط لگا کے تاش کھیلی ہو، دن بھر کے کھانے اکٹھے کھائے ہوں، رات ہونے پہ بھی وہیں کہیں کونے میں سو گئے ہوں، سفر کیے ہوں، یو نیم اٹ… تو وہ بندہ جو آپ کو اندر تک سمجھتا ہے اس کے ساتھ آپ کیا بات کر سکتے ہیں؟ یار مجھے بہت افسوس ہوا؟ کیا آپ اپنی کیفیت کسی رجسٹر میں درج کروانا چاہ رہے ہیں، یا کوئی حاضری لگوانی ہے کہ بھائی افسوس کرنے میں بھی آیا تھا، مجھے یاد رکھنا، یا پھر صرف رسم نبھانے آئے ہیں؟ اگر دنیا داری کرنی ہے تو پھر وہ دوست کیسا ہوا جسے آپ یہ بتانے کی زحمت کر رہے ہیں کہ آپ کو افسوس ہوا۔ مطلب اس موقع پہ انسان عجیب سی بے بسی محسوس کرتا ہے۔ آپ مرنے والے کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کر سکتے، دوست کا دھیان نہیں بٹا سکتے، ماحول بدلنے والا کوئی لطیفہ نہیں سنا سکتے، بہت ہو گا تو ایک اور سوال پوچھ لیا جائے گا، ”یار کیسے؟‘‘ مطلب ابھی شام تک تو سب ٹھیک تھا؟ اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں ہے سوائے یہ کہ وہ بے چارہ پورے دن کا دیا گیا بیان ایک مرتبہ پھر آپ کے سامنے دہرا دے۔
اگر انسان واقعی افسردہ ہے، دوست کے نقصان پہ غمگین ہے، تو بھئی ایک کونے میں جا کے کھڑے ہو جائیے، جب وہ آئے تو اسے گلے مل کے الگ ہو جائیں، کچھ کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یا اگر واقعی اس کا دکھ بانٹنا ہے تو باقی چیزوں کا انتظام کرنے کی کوشش کر لیں اور وہ سب اپنے طور پہ کیجیے۔ مثلاً لوگ زیادہ آ گئے تو انہیں بٹھانا کہاں ہے، پانی کی چند بوتلیں لا کے رکھ دی جائیں، باہر سڑک پہ آنے والوں کی مدد کر دی جائے کہ موٹر سائیکل‘ گاڑی کہاں لگانی ہے۔ اور اس سب میں بھی اس بے چارے کو پوچھنے کی زحمت نہ ہی دی جائے تو بہتر ہے‘ جو غریب پہلے ہی اپنے نقصان پہ صدمے کی کیفیت میں ہے۔ کچھ بھی نہیں کر سکتے تو چپ کرکے اسی دوست کے پاس کھڑے ہو جائیں اور ملنے کے لیے آنے والوں کے ”کیسے‘‘ کا جواب دیتے رہیں، یہ بھی بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے۔ وہ مظلوم جس کا ذہن بڑی مشکل سے ادھر ادھر ہوتا ہو گا، ہر اگلا ”کیسے ڈیتھ ہو گئی‘‘ کا سوال اسے پھر سے اسی تکلیف دہ حالت میں لے آتا ہے۔
اگر وہ بہت زیادہ رو رہا ہے تو اس کے ساتھ چپکنے کی یا اسے چپ کروانے کی بھی کوشش مت کیجیے۔ رونا ایک قدرتی کتھارسس ہے، انسان جتنا زیادہ روتا ہے اتنی اس کے اندر کی بھڑاس نکلتی ہے، آنسو نہ آئیں تو ویسے ہی سکتے والی کیفیت ہو جاتی ہے جو سنی سنائی بات کے مطابق زیادہ خطرناک ہے۔ تو یہ مجموعی طور پہ ایسی صورت حال ہوتی ہے جس میں آپ کے خلوص کا بہترین اظہار خاموش رہنا یا دوست کے قریب رہنا تو ہو سکتا ہے، اسے بار بار وہی واقعہ یاد دلانا، یا اسی بات کے متعلق سوال کرنا ہرگز نہیں۔
ایک وبا جو آج کی نہیں بہت پرانی ہے وہ جنازے کی تصویر لینے کی ہے۔ پرانی تصویروں میں (کہ خاندان کے ہر کاٹھ کباڑ کا امین یہی فقیر ہے) ایک تصویر ایسی بھی ہے جو دو پشتیں پہلے کسی بزرگ کی ہے‘ جس میں وہ جنازے والی مخصوص چارپائی پہ لیٹے ہیں، ناک کان میں روئی ہے، منہ بندھا ہوا ہے، کفن میں لپٹے ہیں اور پاس غمگین ورثا بیٹھے ہیں۔ کیا مرنے والے کے عزیزوں کو اس کا ہنستا بولتا چہرہ ذہن میں رکھنا ہو گا یا وہ تصویر جو آپ کھینچ کے انہیں ساری عمر کی اذیت میں مبتلا کر دیں گے؟ ٹھیک ہے بعض اہل خانہ کی اپنی مرضی بھی ہو گی کہ تصویر کھینچ لی جائے یا جنازے کی مووی بن جائے تو وہ ان کی اپنی ترجیح ہے لیکن اگر بیسٹ فرینڈ یہ کام کر رہا ہے تو یہ کوئی خاص قابل تعریف کام نہیں۔ یہ تو چلیے پھر بھی ایک آدھی تصویر کی بات ہے، فقیر سوشل میڈیا پہ جنازوں کا پورا فوٹو سیشن دیکھ چکا ہے۔ بھئی آپ کے دوست کے ابا تھے، یا کوئی رشتے دار تھے، آپ افسوس کرنے چلے گئے، تصویریں لے بھی لیں تو اپنے پاس رکھ لیجیے، انٹرنیٹ پہ لگانے کی تُک کیا ہے؟ مطلب یہ کس قسم کی شیئرنگ ہے اور اس سے دوسروں کو کیا ثواب ہو گا، الا یہ کہ مرنے والے کی کلوز فیملی بے چاری کے لیے وہ تصویر مسلسل اذیت کا سامان ہو گی۔
تعزیت پہ جانے میں ایک سب سے بڑا مسئلہ وہاں کھانے کا منظر دیکھنے کا ہے۔ بھائی کسی کا پیارا مر گیا ہے، دور دراز کے رشتے دار اگر آئے ہیں یا کوئی ملنے والے دور کے ہیں تو بابا جاؤ بازار میں، جو سمجھ میں آتا ہے خود بھی کھا لو اور جتنا ہو سکے عوام کے لیے لے آؤ۔ مرگ والے گھر میں بیٹھ کے کھانے کا یا چائے کا انتظار کرنا کیا تکلیف دہ بات نہیں ہے؟ قلوں کے مینیو تک پہ لوگوں کو اعتراض کرتے سنا گیا ہے، حد ہے۔ بھائی بندہ ایک رسم پوری کرنے آیا، کھجور کی گٹھلیاں رکھی ہیں، سیپارے پڑے ہیں، جہاں مرضی بیٹھ جائیں، چپ کرکے اسے بخشوائیں اور سلام کر اٹھ جائیں۔ سالن میں بوٹیاں کم تھیں، چاول ٹھیک گلے نہیں تھے، چنے سخت تھے، مطلب یار اس کے گھر میں کوئی سالگرہ ہے، شادی ہے یا آپ میت پہ آئے ہوئے ہیں؟
جنازہ بھاری تھا، جنازہ ہلکا تھا، مرحوم کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی، اداس چہرہ تھا، قبر میں آرام سے اتر گئے یا اتارتے وقت کوئی مس ہیپ ہوا، یہ سب تفصیلات اگر آپ اپنی ذات تک محدود رکھتے ہیں تو کیا حرج ہو گا؟ خاص طور پہ جنازہ بھاری ہونے کی بات سمجھ نہیں آتی۔ بندے بہت زیادہ ہیں تو ویسے ہی وزن شیئر ہو جاتا ہے، کم ہیں تو پینتالیس کلو کی ڈیڈ باڈی بھی وزنی لگے گی۔ ہو سکتا ہے آپ کے ہاتھوں کا اینگل نہ سیٹ ہوا ہو یا بہت دیر تک آپ کے کندھا بدلنے کی نوبت نہ آئی ہو یا آپ کی طرف سڑک تھوڑی نیچی ہو اور دوسرے طرف اونچی ہو تو یہ ”جنازہ بھاری‘‘ کسی بھی وجہ سے ہو سکتا ہے، اس پہ فیل مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہی معاملہ قبر کا ہے، کئی لوگ اگر آگے آ جائیں گے تو قبر ٹوٹ سکتی ہے یا ایک سائیڈ سے مٹی اندر جا سکتی ہے یا اگر کمزور/ بیمار بندہ اندر اترا ہے تو میت کو لٹانے میں اسے مشکل ہو سکتی ہے۔ اس سب پہ افسانوں کے محل کیوں تعمیر کیے جاتے ہیں؟ پھر اگر مرنے والا بے چارہ کسی شدید بیماری میں مرا ہے، تکلیف میں تھا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ یا اطمینان کیسے ہو سکتا ہے؟ اس قدر لغویات میں فائنلی اذیت کس کو ہوتی ہے؟ میت کے ورثا کو، تو بس یہ ساری کہانی ہے۔
مرنے والا بہرحال خوش قسمت تھا، اگر اچھی گزار گیا تو بھی، اگر بری گزری تو اور بھی زیادہ۔ ہر دو صورتوں میں اس کا حساب کتاب پورا ہو گیا۔ اسے کسی بھی قسم کے تبصروں کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر اس کے لواحقین کا بوجھ بٹایا جا سکتا ہے تو اس سے بہتر تعزیت کی کوئی قسم نہیں۔ اگر وہ نہیں کی جا سکتی اور رسمی افسوس کے بعد وہیں کھڑے دوسرے لوگوں سے گپیں مارنی ہیں تو کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ وہ حاضری نہ لگوائی جائے؟ تعزیت کے آداب نصاب نہیں سکھلاتا، وہ آپ کی انسانیت پہ منحصر ہوتے ہیں۔ وماعلیناالاالبلاغ۔