تعلیمِ بالغاں کا کلاس روم…وقار خان
ماسٹر صاحب: ہاں تو پیارے بالغو! آج میں تم لوگوں کو قواعدِ اردو میں سے زبان اور حروفِ تہجی کے بارے میں پڑھائوں گا۔
شیرو مستانہ: آپ کی مرضی ماسٹر صاحب! ویسے ہمارا دل تو آج سیاسیات پڑھنے کو کر رہا تھا۔
ماسٹر صاحب: اپنی زبان کے حروف تہجی آتے نہیں اور چلے ہیں سیاست سیکھنے۔
نورا دیوانہ: آپ بڑے ہی بھولے ہیں سر جی! سیاست کرنے کے لیے حروف تہجی کی کیا ضرورت ہے بھلا؟
فیقا ٹیڈی: بلکہ سیاست کے لیے تو دماغ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں اور بگا اس بات کو خوب جانتے ہیں، کیوں بگے؟ (کلاس میں قہقہہ گونجتا ہے)
بگا پٹھان: (غصے سے) فیقے نے کلاس کا فنڈ کھایا اے، اس کو اندر کرو۔
ماسٹر صاحب: ہیں؟ پہلے تو تم کہتے تھے کہ اس کو نکالو ماسٹر صیب، آج کہہ رہے ہو کہ اندر کرو۔
بگا پٹھان: یہ صادق اور امین نئیں اے، اس کو کلاس سے نکالو اور جیل میں ڈالو ماسٹر صیب۔
ماسٹر صاحب: ذرا صبر کر میرے صادق اور امین بچے، تمہارے کہنے پر اسے کلاس مانیٹر کے عہدے سے نکال دیا ہے، اب اندر بھی کر دیں گے گھامڑ کو۔ فکر مت کرو۔
فیقا ٹیڈی: اگر آپ ایسا کریں گے تو میں نیا نعرہ مارکیٹ میں لے آئوں گا… مجھے کیوں اندر کیا؟ ( قہقہہ گونجتا ہے)
شیدا جہاز: میں تو کب سے کہہ رہا ہوں کہ یہ فیقا اندر ہووے ای ہووے۔ یہ کرپٹ ہے ماسٹر صاحب، چور ہے، لٹیرا ہے، ڈاکو ہے، سکیورٹی رسک ہے۔ اس کو تو الٹا لٹکانا چاہیے۔
ماسٹر صاحب: (ڈنڈا لہراتے ہوئے) ابے یہ کلاس روم ہے، کوئی سیاسی جلسہ نہیں۔ یہاں انتخابی امیدواروں کی زبان مت بول شیخو۔
شیدا جہاز: مجھے تو یہی زبان آتی ہے ماسٹر صاحب (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: اچھا اب لغویات چھوڑو اور سبق پڑھو۔
شیدا جہاز: بتایا ہے کہ مجھے تو ایک ہی سبق آتا ہے ماسٹر صاحب، اور وہ میں نے سنا دیا۔ اس کے علاوہ کچھ پڑھنے کو جی نہیں چاہتا (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: اب خاموش بھی ہو جا کم بخت۔ ہاں تو بالغو! میں تمہیں زبان کے بارے میں بتا رہا تھا۔ زبان وہ ہوتی ہے جو ہم بولتے ہیں، جیسے اردو، سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی وغیرہ۔
شیدا جہاز: اور یہ بازاری زبان کیا ہوتی ہے ماسٹر جی؟
ماسٹرصاحب: (غصے سے) جو تُو بولتا ہے، وہ بازاری زبان ہوتی ہے بیٹا۔
خیرو بھاگوان: ویسے ماسٹر جی! یہ بازاری زبان ہے بڑی مقبول ۔
ماسٹر صاحب: تم جیسوں کے ہاں مقبول ہے، مہذب آدمی تو اسے پسند نہیں کرتا۔
جمالا شرمسار: ناراض نہ ہوں ماسٹر صاحب! مارکیٹ میں یہی زبان چل رہی ہے (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: تُو اپنی کالی زبان بند رکھ جمالے، اور مجھے پڑھانے دے۔ ہاں تو بالغو، اردو زبان میں الف سے یے تک حروف تہجی ہیں۔ ان حروف کو ملا کر الفاظ بنائے جاتے ہیں اور جو لفظ ہم بولتے ہیں، اس کے کوئی معنی بھی ہوتے ہیں۔
خانو خاکسار: مگر ماسٹر جی، میرا ماما کہتا ہے کہ ہمارے ہاں کئی الفاظ بے معنی بھی سمجھے جاتے ہیں، جیسے معقولیت، مقصدیت، دلیل، مکالمہ، غوروفکر، برداشت، رواداری، انصاف، قانون وغیرہ (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: دھت تیرے کی، ابے کم بخت کیسا رٹا لگا رکھا ہے تُو نے بے وقوف مامے کے سبق کو، اور جو میں پڑھاتا ہوں، وہ تمہارے پلے نہیں پڑھتا۔
خیرو بھاگوان: ہمارے پلے صرف کام کی چیزیں پڑتی ہیں سر جی ۔
بگا پٹھان: اس کلاس کا ماحول بہت خراب اے ماسٹر صیب۔ ہم اس میں تبدیلی لائے گا، ہم ایک نیا صاف ستھرا کلاس بنائے گا (قہقہہ گونجتا ہے)
شیرو مستانہ: میں اور نورا دیوانہ اس نیک کام میں بگے کے ساتھ ہیں۔
ماسٹر صاحب: مگر پہلے تو تم لوگ فیقے کے ساتھ تھے۔
گاما کوچوان: انہوں نے دھڑابدل لیا ہے ماسٹر جی، یہ پیدائشی لوٹے ہیں (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: اچھا خیر، اگلے ہفتے ہم فیقے کی جگہ نیا کلاس مانیٹر منتخب کرنے کے لیے الیکشن کرائیں گے۔ تم لوگ اپنی مرضی سے اپنا مانیٹر منتخب کر سکتے ہو۔
خیرو بھاگوان: اپنی مرضی سے؟ (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: ہاں، صاف اور شفاف الیکشن ہوں گے انشاء اللہ۔ بالغوں کو آزادانہ حق رائے دہی کا پورا موقع دیا جائے گا۔
نورا دیوانہ: بالغ کن کو کہا جاتا ہے سر جی؟
ماسٹر صاحب: تم جیسے احمقوں ہی کو بالغ کہا جاتا ہے احمق (قہقہہ گونجتا ہے)
جمالا شرمسار: یہ صاف اور شفاف انتخابات کا کیا مطلب ہوتا ہے ماسٹر جی؟
خانو خاکسار: ارے جاہل، فیئر اینڈ لولی الیکشن کو اردو میں صاف اور شفاف انتخاب کہا جاتا ہے (قہقہہ گونجتا ہے)
شیدا جہاز: (اشتیاق سے) اچھا تو فیئر اینڈ لولی الیکشن میں لَو بھی ملوث ہوتی ہے کیا؟
شیرو مستانہ: بالکل ہوتی ہے۔ جس الیکشن میں ہمارے ماسٹر صاحب کسی امیدوار کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیں، سمجھو ان کی لوّ ملوث ہو چکی، جیسے انہوں نے کلاس کے اس الیکشن میں بگے کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے (قہقہہ گونجتا ہے)
ماسٹر صاحب: میں مکمل غیرجانبدار ہوں۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ووٹر جس امیدوار سے محبت کرتے ہیں، اسے ووٹ دے کر کامیاب کراتے ہیں۔
بگا پٹھان: اس فیئر اینڈ لوّلی الیکشن کے بعد ایک نیا کلاس بنے گا، کیونکہ تم لوگ اور ماسٹرصیب ہم سے محبت کرتا اے۔
ماسٹر صاحب: ابے او بے وقوف، کیوں اپنا الیکشن گندا کرتا ہے؟ میں کوئی محبت وحبت نہیں کرتا تم سے۔
بگا پٹھان: ٹھیک ہے ماسٹر صیب، مگر اس فیئر اینڈ لوّلی الیکشن میں جس نے مجھے ووٹ نہ دیا، میں کہہ دوں گا کہ اس کو نکالو ماسٹر صیب (قہقہہ گونجتا ہے)
فیقا ٹیڈی: میں بھی دوبارہ کلاس مانیٹر کا الیکشن لڑوں گا۔
ماسٹر صاحب: ابے تُوکلاس فنڈز میں گھپلے کرکے نااہل ہو چکا ہے، اب الیکشن نہیں لڑ سکتا کم بخت۔
فیقا ٹیڈی: مگر میرے کلاس فیلو مجھے ووٹ دینا چاہتے ہیں ماسٹرصاحب۔
بگا پٹھان: جو تم کو ووٹ دینا چاہتا ہے، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دے گا۔
ماسٹر صاحب: کوئی بھی تجھے ووٹ نہیں دینا چاہتا فیقے۔ خاموشی سے بیٹھ۔ تیرا کھیل ختم ہو گیا۔
فیقا ٹیڈی: (اونچی آواز میں) ووٹ کو عزت دو۔
بگا پٹھان: (اسی ٹون میں) ڈنڈے کو عزت دو۔
ماسٹر صاحب: (ڈنڈا اٹھا کر فیقے کو رسید کرتے ہوئے) اب جس نے کوئی واہیات نعرہ لگایا اس کو یہ ڈنڈا خاموش کرائے گا۔ کم بختوں نے کلاس کو موچی دروازہ سمجھ رکھا ہے (سب خاموش ہو کر سر جھکا لیتے ہیں)
بگا پٹھان: دیکھ لیا ماسٹر صیب کے ڈنڈے کی طاقت کو؟ اب بولو اصل عزت کس کا اے؟
گاما کوچوان: عزت ڈنڈے کی ہے سرکار، اور وہی اس کا مستحق ہے۔ ہم مانتے ہیں، دل و جان سے مانتے ہیں۔
خیرو بھاگوان: (نعرہ لگاتا ہے) ڈنڈے کو…
کلاس: (مل کر) عزت دو۔
فیقاٹیڈی: (جوابی نعرہ بلندکرتا ہے) ووٹ کو…
کلاس میں زوردار قہقہہ گونجتا ہے۔
ماسٹر صاحب: (غصے سے) کوئی ڈھیٹ ہی اس کلاس کو پڑھا سکتا ہے بھئی۔
فیقا ٹیڈی: صحیح فرمایا، بس یہ آپ ہی کا کام ہے ماسٹر صاحب! کسی دوسرے میں اتنا حوصلہ اور ہمت کہاں؟ (قہقہہ گونجتا ہے)
بگا پٹھان: یہ فیقا آپ کی بے عزتی کرتا اے۔ اس کو اندر کرو ماسٹر صیب۔