منتخب کردہ کالم

تعلیمی پالیسیاں اور حکومتیں: فاروق ہارون

دورِ حاضر کے اُن ممالک میں جہاں روشن خیال حکومتیں پائی جاتی ہیں، اکثر شعبوں میں عام طور پرگنتی کی تین چار بنیادی ذمّہ داریوں پراوّلین توجّہ دی جاتی ہے۔ ان میں سے سب سے پہلی ذمّہ داری ایسی پالیسیاں بنانا ہے جو عوام کے بہترین مفاد میں ضروری سمجھتی جاتی ہوں۔نیز ذمّہ داری صرف پالیسیاں بنانے تک ہی محدود نہیںہوتی،ان پر عملدآمد کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر اس پہلی ذمّہ داری کا تعلیم کے شعبہ کی نسبت سے جائزہ لیں تو حکومت کے کرنے کے بہت سے کام ہیں مثلاً تعلیم کون سی زبان میں دی جائے گی، بالخصوص ابتدائی سالوں میں؟ نصاب ِتعلیم کیا ہو گا؟ درسی کتب کی تیاری اور فراہمی کے لئے کیا انتظامات ہوں گے؟ فیس کس بنیاد پر لی جائے گی یا نہیں لی جائے گی؟ اساتذہ کے لئے پیشہ ورانہ معیا ر کیا ہوں گے اوراس معیار کے حصول کے لئے کیا انتظامات کئے جائیں گے؟ امتحانات کس کس مرحلے پر ہوں گے ،کس طرح لئے جائیں گے اور کون لے گا؟ یہ چند سوال صرف مثال کے طور پرعرض ہیں اس نوعیت کے بہت سے معاملے ہیں جن کے بارے میں روشن خیال حکومتیں تعلیم کے شعبے میںنہ صرف پالیسیاں بناتی ہیں بلکہ اِن پرمکمل عمل کو یقینی بھی بناتی ہیں۔
ہمارے ہاں تعلیم کا شعبہ آئینی اعتبار سے صوبائی ذمّہ داری ہے۔لیکن باوجود کوشش کے کسی صوبے کی ”تعلیمی پالیسی‘‘
دیکھنے کونہیں ملتی۔ حکومتی ویب سائٹس پر بھی تلاش بے سود رہی۔ البتہ یہ ضرور واضح ہوگیاکہ ہماری حکومتیں پالیسی اور منصوبے میں تمیز نہیں کرتیں۔ منصوبوں کا ذکر اِدھر اُدھر ضرور مل جاتا ہے لیکن پالیسی ، جو ایک بنیادی دستاویز ہے، نظر نہیں آتی۔ پالیسی عام طور پر اُن رہنما اصولوں اور ترجیحات کو کہا جاتا ہے جوہماری سمت کا تعیّن کرتے ہیں۔ پالیسی ہی ہے جو ہمیں اُس منزل تک پہنچاتی ہے جو ہم نے اپنے لئے متعیّن کی ہو بشرطیکہ پالیسی درست ہو اور ہم اُس پر عمل بھی کریں۔ منصوبے توہم مکمل کرتے رہتے ہیں چاہے یہ کسی پالیسی کی روشنی میں ہوں یا اس معاملے میں کوئی بھی پالیسی نہ ہو۔چنانچہ ان چند سطروں کی تحریر کے لئے تعلیمی پالیسی سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بے سود رہی۔وہ محرومی تو اپنی جگہ، یہاں نوٹ کرنے والی اہم حقیقت جس کی طرف توجّہ دلانا مقصود ہے وہ یہ کہ ہماری کوئی ایسی پالیسی نہیں ہے جس کے تحت حکومت کے لئے سرکاری سکول چلانا مجبوری ہو ۔شائد قارئین اس انکشاف پر حیران ہوں گے۔ ہو سکتا ہے اسے ناپسند بھی کریں۔ بہر حال حقیقت یہی ہے ۔کوئی قانون ایسا نہیں جو حکومت پر یہ لازم کرتا ہو کہ وہ سکول قائم کرے اورانہیں چلائے ۔یہ درست ہے کہ آئین میں ابتدائی تعلیم کے بارے میں حکومت سے ایک تقاضا موجودہے ۔لیکن اس کی روشنی میں سرکاری سکول ہوناہرگز ضروری نہیں ہیں۔ہاں، حکومت کے لئے یہ یقیناضروری ہے کہ وہ تمام وہ اقدامات کرے، فضا قائم کرے، مواقع فراہم کرے جن سے اُس نوعیت اور معیار کے سکول قائم ہوں جو آئین اور حکومت کی پالیسی کی روشنی میں ضروری پائے جاتے ہوں۔اس جگہ یہ ذہن میں رکھیں کہ تقریباًنصف بچے تواس وقت غیر سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں ۔لہٰذا ان کے آئینی استحقاق کے بارے میںہماری حکومتیں ویسے بھی کچھ نہیں کر رہیں۔
یہاں یہ وضاحت اہم ہے کہ سرکاری سکول کیوں اور کیسے ضروری ہیں۔ تعلیم کے شعبہ سے منسلک ہزاروں افراد جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں‘ حکومت کی ملازمت میں صرف اس لئے ہیں کہ تعلیمی ادارے حکومت کی ترجیحات اور عوام کی توقعات کی مطابق تعلیم اور تربیت فراہم کریں۔کیا ان افراد کی کارکردگی اس انتہائی جائزتوقع پر پورا اترتی ہے؟اور اگر ایسا نہیں توان کے بدستور رہنے کا کیاجوازہے؟ یہاں تو معاملہ اس سے بھی زیادہ الٹا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شعبۂ تعلیم کے سرکاری ملازمین حکومت پر اپنی مرضی مسلّط کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال لے لیں ۔ اگر آج حکومت یہ طے کرے کہ تمام اساتذہ کو ایک نئے تربیتی پروگرام میں سے گزرنا ہوگا اور جو اس کو کامیابی سے مکمل کر ے گا اُسے مزید مراعات دی جائیں گی اور جو نہیں ایسا کریں گے‘وہ بدستور پُرانی شرائط پر کام کرتے رہیں گے تو کیا کوئی حکومت اس انتہائی مناسب فیصلہ پر عمل کروا سکتی ہے؟غالباً 2000ء میں ایسا ہو ا بھی تھا اور شائد اس سے پہلے اور بعد میں بھی ایسا ہوا ہوگا۔ ماضی سے بہت سی مثالیں سامنے لائی جا سکتی ہیں ۔یہاں یہ مشورہ دینا مقصد نہیں کہ سرکاری سکول بند کر دینا چاہئیں یا سرکاری اساتذہ کو فارغ کر دینا چاہیے۔ بات کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسی حکمتِ عملی پر غور بہت ضروری ہے جس سے ہمارے سکول اُس معیار کی تعلیم دینے لگیں جو حکومت کا مقصد ہونی چاہیے۔
یہ بالکل درست ہے کہ ہماری حکومتیں اپنی اکثر پالیسیوں پربوجوہ عمل کرنے اور کروانے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے۔ آئندہ کیا تبدیل ہوجائے، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہاں اُس فرانسیسی صحافی اور فلسفی کی کہی ہوئی مشہور بات یادرکھنا ضروری ہے جس نے کہا تھا کہ معاملات جتنے زیادہ تبدیل ہوتے ہیں اتنے ہی پہلے کی طرح رہتے ہیں۔ بہر حال بہتری اور اصلاح کی خواہش اور اس کے لیے جستجو تو ہر صورت جاری رہنی چاہیے۔ اسی سوچ کے پیشِ نظر ایک دلچسپ اور حیرانگی کی بات عرض ہے۔ ہمارے سب سے بڑے صوبے کی حکومت میں اس بات کا احساس اس وقت بھی موجود ہے کہ سرکاری سکولوں کو بہتر چلانے کے لئے ان کا انتظام حکومت کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔ اسی لئے تقریباً20 سال پہلے اس حکومت نے اپنے کچھ سکول ایک نجی ادارے کے حوالے کرنا شروع کئے۔ اِس وقت اس ادارے کے پاس 700سے زائد سرکاری سکولوں کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ایک دو برسوں میں تقریباً 3000 سرکاری سکولوں کا انتظام نجی اداروں کے حوالے کیا گیا ہے۔ یہ قدم نہایت خوش آئند ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اتنی تاخیر سے احساس کیا بھی تواِس پر عمل میں کمی رہ گئی۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ صوبائی حکومتیں ردّعمل سے خوفزدہ ہوتی ہیں‘اسی لئے اس ڈیزائن پر مکمل طور پر عمل سے گریز کرتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نجی شعبہ کو بہترین کارکردگی کے لئے جس ماحول اور خود مختاری کی ضرورت ہوتی‘ حکومت وہ مہیا نہیں کرتی۔اِس کی پھردو وجوہ ہیں ۔ ایک اعتماد کا فقدان اور دوسرایہ کہ حکومت اپنے ہاتھ سے کنٹرول دینے کے لئے تیا ر نہیں ہوتی ۔ اس سوچ کی کئی مثالیںموجود ہیں جہاں حکومت ذمّہ داریاں دینے میں تو بہت سخی نظر آتی ہے لیکن اِن کی ادائیگی کے لئے ضروری اختیارات دیتے ہوئے بہت کنجوسی برتتی ہے۔