تعلیم کا بیڑا…حسن نثار
زندگی میں اک شے “Work Ethics”بھی ہوتی ہے جس کا اردو یا پنجابی متبادل میرے علم میں نہیں جس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ہمارے ہاں ہوتی ہی نہیں۔ میں نے اپنے طور پراس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے…..’’اخلاقیات ِ کار‘‘اگر کوئی تصحیح یا ترمیم کرنا چاہے توموسٹ ویلکم۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ یہ شے ہماری زندگیوں میں ناپید ہے۔ صاحب سے لے کرچپراسی تک ہم میں سے کتنے فیصد ہوں گے جواپنے کام، فرائض کے ساتھ سو فیصد انصاف کرتے ہوںگے۔ صاحب لوگ تو صاحب لوگ، ہمارا تو مزدور بھی لاجواب ہے۔ وقت پر پہنچیںگے اور عین وقت پر اوزاررکھ دیںگے لیکن جس دوران حرام خوری جاری رہے گی خصوصاً موبائل فون کی آمد کے بعد تو یہ بہت ہی عام ہے۔ ذاتی کام کے علاوہ اجرت یا تنخواہ پر کام کرنے والوں کی بھاری اکثریت کام چوری کو کام چوری سمجھتی ہی نہیں۔ ان کے نزدیک یہ بالکل نارمل اور معمول کی بات ہے جو نہ جرم ہے نہ گناہ جبکہ میرے نزدیک یہ جر م بھی ہے اور گناہ بھی۔سعودی عرب میں مجھے مختلف قومیتوں کو قریب سے کام کرتے دیکھنے کاموقع ملا جو ایک انتہائی دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والا تجربہ اور مشاہدہ تھا۔ امریکنوں سے لے کر جرمنوں اور جاپانیوں تک عبادت جیسی محویت اور یکسوئی سے سر پھینک کر کام کرتے اور انہیں دائیں بائیں کا ہوش نہیں ہوتا تھا۔ کوئی بات بھی کرناچاہے
تو ان کی شکلیں بگڑ جاتی تھیں جبکہ پسماندہ غریب ملکوں کے ورکرز کو ’’بریک‘‘ کاصرف بہانہ چاہئے ہوتا۔ کام کے دوران گپ شپ، سگریٹ نوشی جیسے امراض عام تھے۔ سری لنکن ان لوگوں میں نسبتاً بہتر اور سنجیدہ تھے۔ہمارےہاں اخلاقیات پر باتیں اور بھاشن بہت ہیں لیکن عملاً جو کچھ ہوتا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے اور ’’اخلاقیاتِ کار‘‘ یعنی Work Ethics کاتوسرے سے کوئی تصور ہی نہیں ورنہ مجھے اس اصطلاح کا اردو ترجمہ خود نہ گھڑنا پڑتا۔ ہماری اخلاقیات کے پیمانے بھی دنیا جہان سے نرالے ہیں۔ہم عموماً اسے عبادات کے ساتھ کنفیوز کرجاتے ہیں۔ مخلوق کا خالق کے ساتھ تعلق اس کا انتہائی نجی ذاتی معاملہ ہے، اصل مسئلہ مخلوق کا مخلوق کے ساتھ رویہ، سلوک اور تعلق ہے۔ نجانے کس عالی دماغ کا قول ہے کہ’نماز تو مسجد سے باہر شروع ہوتی ہے۔‘‘ظواہر پر زور اور دیگر معاملات سے مکمل بے خبری، بے نیازی اورلاپرواہی کہ یہ سرے سے ہمارے ایشوز ہی نہیں۔ کام چوری اور بے ایمانی بددیانتی دراصل ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔ میں نے ابھی ایک اخباری رپورٹ میں اپنااجتماعی چہرہ دیکھا جوکچھ زیادہ اچھا نہ لگا۔اتوار بازاروں میں چھاپے مارے گئے تو دکانداروں کی بھاری اکثریت کے باٹ ایک ہزار کی بجائے 900گرام کے نکلے یعنی حرام در حرام۔ کم تولنے پر متعدد دکانداروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے، منوں کے حساب سے رنگ کی گئی دالیں، ان کے علاوہ جن پر استعمال کئے گئے رنگ ظاہر ہے فوڈ کلرزہرگز نہ ہوںگے۔ یہی وہ ناپاک ماحول ہے جس میں وہ ذہن تیارہوتے ہیں جن کی منطق ہی نرالی….. بددیانت کرپٹ حکمرانوں بارے کہتے ہیں ’’حرام کھاتے ہیں تو کیاہوا، کچھ نہ کچھ لگاتے بھی تو ہیں‘‘اسی لئے عرصہ دراز سے میں اقتصادیات نہیں اخلاقیات کے زوال پر کڑھ رہا ہوں اور ’’انسان سازی‘‘ کی ضرورت پر فوکس کئے رہتاہوں۔ کوتاہ اندیش گھامڑ حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ ظالمو! انسان بنائو، باقی سب کچھ خودبخود بنتا چلا جائے گا ورنہ آپس میں ہی یہ خنجرزنی اسی طرح چلتی رہی تو ابلیسی دائرے کا سفر بیکارسمجھو۔کوئلوں کو سیاہی اسی وقت چھوڑتی ہے جب وہ آگ سے گزرتے ہیں انسانی وجود ایک چکی کی مانند ہے، خالی چلائی جائے تو خود تباہ ہو جاتی ہے۔ سیڑھی کے زینے ’’ریسٹ‘‘کرنے کے لئے، آگے بڑھنے کےلئے ہوتے ہیں۔انسان سازی کا تعلق تعلیم و تربیت کے ساتھ ہے اور پنجاب حکومت کی دس سالہ پرفارمنس کا خلاصہ یہ ہے کہ….. تعلیم کا بیڑا غرق کردیا گیا “Work Ethics” تو دور کی بات ہے۔