منتخب کردہ کالم

تمام بلاکوں کی ماں! (حرف ناز) نازیہ مصطفیٰ

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے تو کم و بیش ایک صدی پہلے کہا تھا کہ ”کھول آنکھ زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ… مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘ لیکن ایک صدی گزرنے کے بعد اب یہ شعر حقیقت بن چکا ہے۔ مشرق سے ترقی اور خوشحالی کا نیا سورج طلوع ہو رہا ہے، جس کی روشنی سے ایک زمانے کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں، جبکہ مغرب کی عظمت کا سورج نصف النہار پر پہنچنے کے بعد اب مسلسل مغرب میں ہی غروب ہونے کی جانب مائل ہے۔ گوادر بندرگاہ فعال ہونے کے بعد تو مشرق کے ابھرنے اور مغرب کے مائل بہ زوال ہونے کی رفتار اور زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری منصوبے نے صرف علاقائی سطح پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے اور وہ ملک بھی پاکستان کی جانب کھنچے چلے آ رہے ہیں، جن کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ایسا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب اگر سی پیک منصوبے کی وجہ سے پاکستان دنیا کی آنکھوں کا تارا بنتا چلا جا رہا ہے تو دوسری جانب بدخواہ اور دشمن بھی تاک میں ہیں اور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چند ماہ پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ہرزہ سرائی کی تھی، لیکن اس معاملے میں بھارت کو ایسی منہ کی کھانا پڑی کہ دشمن سے ابھی تک کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا۔ پہلے رواں برس فروری میں پاک بحریہ کی میزبانی میں ہونے والی امن مشقوں میں لگ بھگ پینتیس ممالک نے شرکت کرکے بھارت کے اِس منفی پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دیا اور اب اس کی واضح جھلک رواں ہفتے کے دوران اسلام آباد میں ہونے والی اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے سربراہ اجلاس میں بھی دیکھنے کو ملی کہ پاکستان عالمی اور علاقائی سطح پر تنہا نہیں ہو رہا بلکہ عالمی اور علاقائی سطح پر ایک مضبوط بلاک میں ایک اہم اور مرکزی رکن کی حیثیت سے اپنی اہمیت منوا رہا ہے۔
دنیا میں ابھرنے والے معاشی اتحادوں اور بلاکوں میں ترکی، ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں پر مشتمل یہ اتحاد اور یہ بلاک‘ ای سی او بھی شامل ہے۔ ترپن برس پہلے 1964ء میں پاکستان، ایران اور ترکی کے مابین اقتصادی تعاون برائے ترقی یعنی آر سی ڈی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، جس کا مقصد سوویت یونین سے بالا بالا یورپی منڈیوں تک رسائی تھا۔ اِسی آر سی ڈی کو 1985ء میں اقتصادی تعاون تنظیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ سابق سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جب وسطی ایشیا کے نقشے پر نئے ممالک کا ظہور ہوا تو 1992ء میں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) میں سات نئے رکن ممالک کا اضافہ ہوا، جو یہ ہیں: آذربائی جان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغزستان، قزاقستان اور افغانستان۔ ای سی او کی چار شاخوں میں کونسل آف منسٹرز، ریجنل پلاننگ کونسل، کونسل آف پرماننٹ ری پریزنٹیٹوز اور سیکرٹریٹ شامل ہیں اور اس کا صدر دفتر تہران میں ہے۔ ہر دو سال بعد ہونے والے ای سی او سربراہ اجلاس کا مقصد تجارتی، معاشی، تقافتی، سائنسی اور تکنیکی تعاون کے ذریعے رکن ممالک کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا ہے۔ اس تنظیم کی کامیابیوں میں ای سی او ٹریڈ ڈیویلپمنٹ بینک، ٹرانزٹ ٹریڈ فریم ورک ایگریمنٹ اور فری ٹریڈ ایریا ان ای سی او ریجن معاہدہ‘ شامل ہیں۔ اِن کامیابیوں میں سب سے اہم فنڈ فار ری کنسٹرکشن آف افغانستان بھی ہے۔ اس فنڈ کی اہمیت کے باوجود افغانستان نے سربراہی سطح پر اس سمٹ میں شرکت نہیں کی۔ افغانستان کو اس کام کے لئے تھپکی دینے والے بھارت کا خیال تھا کہ جس طرح اُس نے پچھلے سال پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کو سبوتاژ کر دیا تھا، وہ افغانستان کے ذریعہ ای سی او سمٹ کو بھی ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائے گا، لیکن اسلام آباد میں ہونے والی کامیاب ای سی او سربراہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے ناصرف یہ کہ بھارت کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی ہوئی، بلکہ عالمی اور علاقائی سطح پر پاکستان کی اہمیت اور قدر و منزلت پر مہر تصدیق بھی ثبت ہو گئی۔
علاقائی تعاون تنظیم کے اس 13ویں اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان مملکت و اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ علاقائی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے ای سی او ایک اہم فورم ہے۔ اقتصادی تعاون تنظیم کا خطہ بے پناہ وسائل اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور دنیا کی 52 فیصد تجارت اسی خطے کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرکا نے خطے کی ترقی کے لئے علاقائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو ضروری قرار دیا ہے۔ ای سی او سربراہ اجلاس کا موضوع ”مربوط رابطوں کے ذریعے علاقائی خوشحالی‘‘ تھا، لیکن اس کانفرنس کے ذریعے خطے کے لئے سی پیک کے فوائد سے آگاہی دینے اور لینے میں بھی مدد ملی۔ شرکا نے اتفاق کیا کہ خطے کی ترقی کے لیے علاقائی روابط بہت ضروری ہیں۔ رکن ممالک نے اجلاس میں حقیقی ترقی کے لیے توانائی کے منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ 21ویں صدی میں اب ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کا دور ہے، مستقبل میں مواصلاتی روابط سے یورپ اور ایشیا منسلک ہوں گے، اس لیے ای سی او اجلاس سے تنظیم کے طویل المدتی پروگرام پر عملدرآمد میں مدد ملنے کی توقع ہے۔ مغرب تک رسائی کے لیے مشرقی مواصلاتی ذرائع موثر اور مختصرترین ہیں۔ اقتصادی سرگرمیاں مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہیں کیونکہ ای سی او ممالک سے گزرنے والا راستہ مغرب کے لیے مختصر ترین روٹ ہے۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے ممالک میں رابطوں کا فروغ مواصلاتی شعبے میں ترقی کا باعث بنے گا جبکہ روابط کا فروغ ایشیائی ممالک کے مستقبل اور ترقی کی ضمانت ہے۔ ای سی او کانفرنس میں مشترکہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بنیادی ضرورتوں پر توجہ دینے، خطے میں قابل تجدید توانائی کے وسائل کو بروے کار لانے، مستقبل کی ضروریات کے لیے پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے، ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے اور مشترکہ حکمت عملی سے ہی قدرتی آفات کے نقصانات کو کم کرنے کے سلسلے میں کوششیں کرنے پر زور دیا گیا۔
ای سی او ممالک کی کامیاب سربراہی بیٹھک کے بعد اعلان اسلام آباد جاری کیا گیا، جس میں رکن ممالک نے دہشتگردی سے نمٹنے اور ویژن 2025ء کی منظوری دیتے ہوئے توانائی، انفراسٹرکچر اور سائنس سمیت کئی اہم شعبوں میں مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ ای سی او نے خطے میں زیر التوا تنازعات پر تشویش پر اظہار کا بھی کیا۔ تجارت، توانائی، انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر شعبوں میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا اور سب سے اہم یہ کہ ای سی او ممالک نے ہر قسم کی دہشتگردی سے نمٹنے کے پختہ عزم کا بھی اظہار کیا۔
قارئین کرام!! اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان تعاون کے لئے جہاں بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، وہیں بہت سے اقتصادی و معاشی بلاک بھی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، جن میں جی سیون، جی ٹوئنٹی، جی سی سی، بریکس، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر بلاک اور آرگنائزیشنز شامل ہیں، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) میں دنیا کو اپنے گرد گھمانے یا دیگر الفاظ میں دنیا کا محور بننے کا بڑا پوٹینشل موجود ہے اور اگر کسی موڑ پر پہنچ کر ای سی او میں چین اور روس بھی شامل ہو گئے تو سمجھئے کہ تعاون کا یہ بلاک تمام بلاکوں کی ماں بن کر سامنے آئے گا، ساری دنیا جس کے پیچھے چوزوں کی طرح چلنے پر مجبور ہو جائے گی۔