منتخب کردہ کالم

تکلفات برطرف،دو سابق صدرو دوبدو: قدرت اللہ چودھری

تکلفات برطرف،دو سابق صدرو دوبدو: قدرت اللہ چودھری
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو یہ ویڈیو پیغام جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور جو الزام انہوں نے آصف علی زرداری پر اب کھل کر لگا دیا ہے پہلے کبھی اس طرح کیوں نہیں لگایا تھا؟ یہ تو وہ کہتے رہے کہ بے نظیر کے قتل کا تمام تر فائدہ آصف علی زرداری کو پہنچا، لیکن جس انداز میں اب انہوں نے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری آصف زرداری پر ڈالی ہے اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی نے بھی جنرل پرویز مشرف کو براہ راست ہدف بنالیا تھا۔ عدالت نے دو اعلیٰ پولیس افسروں کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی لیکن پانچ گرفتار ملزموں کو بری کردیا تھا البتہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو ان کی غیر حاضری میں اشتہاری قرار دے دیا گیا اور جائیداد قرق کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ ان کے خلاف بعض دوسری عدالتوں سے بھی احکامات جاری ہوچکے ہیں اس فیصلے میں اشتہاری قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کی واپسی کی کوئی موہوم سی امید باقی تھی تو وہ بھی ختم ہوگئی۔ ویسے جس انداز سے وہ رخصت ہوئے تھے، عرض کیا تھا کہ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنا پڑے گا اب پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو اس مقدمے میں سزائے موت دی جائے کیونکہ وہی بے نظیر کے قاتل ہیں۔ اس سے پہلے آصف علی زرداری کہہ چکے ہیں کہ انہیں بے نظیر کے قاتلوں کا علم ہے لیکن وہ بتائیں گے نہیں، اب اگر وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل لے کر گئے ہیں تو ممکن ہے ان کا یہ بیان بھی فاضل عدالت میں زیر بحث آ جائے کہ اگر آصف علی زرداری کو قاتلوں کا علم ہے تو وہ بتاتے کیوں نہیں؟
بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی آئی تھیں تو ایئر پورٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا وہ جلوس کی شکل میں اپنے گھر جا رہی تھیں کہ کارساز کے قریب یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوگئے جن میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ جلوس کے شرکا جاں بحق ہوگئے، بعد میں بھی بہت سے زخمی چل بسے اور تعداد دو سو کے قریب پہنچ گئی۔ بے نظیر بھٹو اتنے بڑے سانحہ میں محفوظ رہیں البتہ انہوں نے انتخابی مہم جاری رکھی جو فروری کے انتخابات کیلئے شروع ہوچکی تھی اور وہ اسی لئے وطن آئی تھیں۔ کراچی میں تو وہ بچ گئیں لیکن 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں اجل نے انہیں دبوچ لیا۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آگئی تاہم جنرل پرویز مشرف اس سے پہلے صدر منتخب ہوچکے تھے۔ نئی حکومت سے انہوں نے ہی حلف لیا، پیپلز پارٹی کی اس حکومت میں مسلم لیگ (ن) بھی شریک ہوئی تھی تاہم اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) نے جنرل پرویز مشرف کو صدر کے عہدے سے ہٹانے کیلئے پارلیمنٹ میں مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کے اعلانات کئے تھے اور انہیں سیاسی طور پر دباؤ میں رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی، غالباً اسی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف 18 اگست 2008ء کو صدر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے حالانکہ انہوں نے اس منصب پر منتخب ہونے کیلئے بڑا طویل سفر اختیار کیا تھا۔ جسٹس افتخار چودھری سے استعفا طلب کیا تھا اور نہ دینے کی صورت میں انہیں برطرف کرکے گھر میں نظربند کردیا تھا۔ کئی دوسرے ججوں کو بھی ان کے ساتھ ہی نظربند رکھا گیا تھا یہ اس لئے کیا گیا کہ بعد میں جس طرح وہ رخصت ہوتی ہوئی پارلیمنٹ سے صدر منتخب ہونے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے ان کا خیال تھا کہ یہ مقدمہ لازماً سپریم کورٹ میں جائے گا اس لئے پیش بندی کے طور پر انہوں نے سپریم کورٹ میں مرضی کے جج لگا دیئے تھے۔ اتنی کامیاب منصوبہ بندی کے بعد بھی وہ آسانی سے یہ عہدہ کیوں چھوڑ گئے بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ ان کی سرپرست قوتوں نے ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھالیا تھا اور فوج کی سربراہی سے وہ ریٹائر ہوچکے تھے اس لئے انہوں نے صدارت سے مستعفی ہونے ہی میں عافیت جانی، آصف علی زرداری ان کی جگہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کا قتل مشرف دور میں ہوا لیکن چند ماہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی اور پرویز مشرف کے استعفے کے بعد تو اقتدار کا دائرہ مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے گرد گھومنے لگا تھا۔ اس دور میں سکاٹ لینڈ یارڈ کو بے نظیر قتل کیس کی تفتیش سونپی گئی، اقوام متحدہ سے بھی تحقیقات کرائی گئیں لیکن قتل کا سرا ہاتھ نہ آیا، اس دوران جو مقدمہ عدالت میں چلنا شروع ہوا تھا اس کا فیصلہ حال ہی میں آیا ہے اور تمام نامزد پانچ طالبان اس قتل کیس میں بری ہوگئے ہیں غیر حاضری میں مشرف کو جائیداد کی ضبطی کی سزا ملی اور اشتہاری بھی ہوئے لیکن پیپلز پارٹی انہیں قاتل تصور کرتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت مین جب تک جنرل (ر) پرویز مشرف ملک میں موجود رہے حکومت نے ان کو گرفتار کیوں نہ کیا؟ اور جب وہ بیرون ملک جانے لگے تو کیوں جانے دیا، بعدازاں وہ واپس آئے اور اس وقت دوبارہ باہر چلے گئے جب ان کے خلاف آرٹیکل (چھ) کی خلاف ورزی پر مقدمہ شروع ہوا تھا۔ وہ علاج کیلئے بیرون ملک گئے تھے اب تک واپس نہیں آئے۔
اب پرویز مشرف نے جس طرح ویڈیو پیغام میں آصف زرداری کو نہ صرف بے نظیر قتل بلکہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا، اس کی وجہ بظاہر وہ مہم بنی ہے جو پیپلز پارٹی نے زیادہ زور شور سے ان کے خلاف شروع کردی ہے۔ اس ویڈیو کا پیغام بڑا جارحانہ ہے، لگتا ہے وہ نہ صرف عدالتی فیصلے پر ناخوش ہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور خصوصاً آصف علی زرداری کے طرزعمل سے بھی ناراض ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عدالت میں پرویز مشرف کی غیر حاضری میں مقدمہ چلے گا یا انہیں بیرون ملک سے واپس لایا جائے گا۔ عدالت سے زیادہ سے زیادہ ان کے سمن جاری ہوں گے لیکن بیرون ملک سے ان کی واپسی کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ اپنی ویڈیو میں جنرل پرویز مشرف نے آصف زرداری کے تینوں بچوں کو خصوصی طور پر اور سندھ کے عوام کو عمومی طور پر متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اور بظاہر یہ غیر معمولی بات ہے، دیکھیں اس حملے کا پیپلز پارٹی کی طرف سے کیا جواب آتا ہے آصف زرداری کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے پارٹی رہنما بھی نشانے کی زد میں آگئے ہیں۔