منتخب کردہ کالم

تمہارے نام پر آئیں گے غمگسار چلے۔۔۔۔ آصف بھلی

قرآن حکیم کا واضح حکم ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، پھر یہ بھی اللہ کا اپنی آخری کتاب میں فرمان ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں متفرق نہ ہو جانا۔جو لوگ اور بالخصوص اسلامی ریاستوں کے جو حکمران اللہ کے ان احکامات سے کھلی بغاوت اور سرکشی کرتے ہوئے اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم روا رکھنے کی بدترین مثالیں قائم کر رہے ہیں،ان میں سرفہرست ملک شام کے حکمران ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ’’اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف لوٹ آئے‘‘۔۔۔ شام کے ظالم حکمرانوں کا ہاتھ پکڑنے اور انہیں ظلم اور شام کے مسلمانوں کی قتل و غارت گری سے روکنے والا کوئی نظر ہی نہیں آ رہا اور لاکھوں کی تعداد میں قتل کر دیئے جانے والے شام کے مظلوم اور بے بس مسلمان خاندانوں کے جو افراد زندہ بچ گئے ہیں، وہ شام سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ شام کے ظلم رسیدہ مسلمانوں کے لئے اب صرف دو ہی راستے باقی رہ گئے ہیں کہ یا تو وہ اپنے وطن میں رہ کر اپنے ہی ظالم اور سنگدل حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہو جائیں یا پھر اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں جا بسیں۔ شام سے ہجرت کرکے ترکی پہنچنے والے ستم زدہ مسلمانوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ مسلمان شام کے حکمرانوں کے بدترین ظلم وجور کا شکار ہو کر مظلومی کی اس حالت میں ترکی پہنچے ہیں کہ ان میں بڑی تعداد یتیم بچوں کی ہے۔ ذرا ان ستم رسیدہ بچوں کی تکلیف پر غور کریں جن سے ان کا وطن ، ان کے گھر اور ان کی پناہ گاہیں بھی چھین لی گئی ہیں، اس دوران وہ اپنے والدین کی شفقت و محبت سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں۔ ترکوں کی خدمت، تعاون اور محبت کا انداز دیکھ کر مدینہ کے وہ انصار یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے ہجرت کے بعد رسول اللہؐ کے حکم پر مہاجروں کی مدد کی تھی۔ انصار مدینہ نے مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے صحابہ کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر مقدم رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا کہ انصارِ مدینہ کے اس عمل کا صلہ آخرت میں ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی کی صورت میں دیا جائے گا۔ ترکی کی فلاحی تنظیموں کے دوش بدوش کام کرنے اور انصارِ مدینہ کی روایات و اقدار کی پیروی کرنے کا پاکستان کی جس فلاحی تنظیم نے سب سے پہلے فیصلہ کیا اور اس فیصلے پر عمل بھی شروع کر دیا،وہ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی پاکستان ہے۔ اس تنظیم کے روح رواں ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہیں۔ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی اور آصف محمود جاہ کی پاکستان میں زلزلہ زدگان کے لئے سرانجام دی گئی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ جب چترال اور گلگت میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ایک قیامت برپا کر دی تھی،اس وقت بھی ڈاکٹر آصف محمود جاہ اور ان کی تشکیل کردہ ٹیموں نے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بے پناہ خدمت کی تھی۔ فلاح انسانیت کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جہاں ڈاکٹر آصف محمود جاہ اور ان کے مخلص احباب نے اپنی بے لوث خدمات کے نقوش ثبت نہ کئے ہوں۔ سندھ میں تھر کے علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ وہاں لاتعداد کنویں کھود کر پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ خدمتِ انسانیت کے سفر کو جاری رکھتے ہوئے اب آصف محمود جاہ اور ان کی سوسائٹی کی تمام تر توجہ کا مرکز شام کے وہ مظلوم اور بے کس مسلمان ہیں جنہوں نے ترکی میں پناہ لے رکھی ہے۔ ترک قوم نے اگرچہ اپنے ان شامی مسلمان بھائیوں کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، تاہم 50لاکھ سے زیادہ غریب الوطن شامی مسلمانوں کو سنبھالنا اور ان کی تمام تر ضروریاتِ زندگی اور سہولتوں کا خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ ترک مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملا کر اگر پاکستان کے مسلمان عوام بھی اخوت اسلامیہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام کے مسلمان مہاجرین کی مدد کے لئے میدان عمل میں نکل کھڑے ہوں تو شامی مسلمانوں کی مشکلات پر قابو پانا مزید آسان ہو سکتا ہے۔ کسٹمز کیئر ہیلتھ سوسائٹی نے اس عظیم تر مقصد کے لئے پاکستانی قوم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے۔ 8جون 2017ء کو لاہور میں ادارہ اردو ڈائجسٹ کے اشتراک سے ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا تھا، جس کا مقصد شام کے لاکھوں مسلمان،مہاجرین بالخصوص شامی شہداء کے یتیم بچوں کی مدد کے لئے عطیات جمع کرنا تھا۔ اس تقریب میں بڑی تعداد میں معروف سماجی، سیاسی ، کاروباری اور صحافتی شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ ترکی میں جو سماجی تنظیم شام کے مسلمان مہاجرین کی خدمت میں سب سے بڑھ کر سرگرم عمل ہے، اس کے عہدیداران بھی اظہار یکجہتی کے لئے اس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ کانفرنس میں ترکی کے نمائندوں کے علاوہ ممتاز صحافیوں الطاف حسن قریشی، ضیاء شاہد، تقریب کے میزبان ڈاکٹر آصف محمود جاہ، بشریٰ رحمان، اوریا مقبول جان، سہیل وڑائچ، افتخار مجاز اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر شام کے مظلوم مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے پاکستانی شہریوں کا جذبہ قابل دید تھا۔ ہر شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کے لئے آمادہ نظر آتا تھا۔ بہت سارے افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے انفرادی طور پر لاکھوں روپے کے عطیات موقع پر ہی کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے سپرد کر دیئے، لیکن انہیں اس بات کی قطعاً خواہش نہیں تھی کہ ان کے ناموں کو مشتہر کیا جائے۔ ایک صنعت کار نے 50لاکھ روپے کا عطیہ دیا، لیکن ان کا یہی اصرار تھا کہ سٹیج پر ان کے عطیے کا اعلان تو کیا جائے، لیکن ان کے نام کے بغیر۔ ترکی سے آئے ہوئے تینوں مہمان اہل پاکستان کے اس جذبے سے بہت متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ اور الطاف حسن قریشی دونوں ہی اس کانفرنس کی کامیابی پر بہت خوش نظر آئے۔ دونوں کی زبان پر تقریباً یہی الفاظ تھے کہ نیکی ، بھلائی اور خیر کا کوئی بھی کام یا تحریک ہو، پاکستان کے عوام نے ہمیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ خیر کے اس کام میں آپ بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی لاکھوں روپے کی مدد ہی کرے۔ ہم چند ہزار روپے سے بھی ایک بہت بڑی نیکی سرانجام دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے جب مجھے بتایا کہ ترکی میں مقیم ایک شامی یتیم بچے کی کفالت صرف ساڑھے چھ ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے سے کی جاسکتی ہے اور اگر آپ ایک خاندان کی کفالت کے لئے ماہانہ اخراجات ادا کرنے کے لئے تیار ہوں تو صرف تیرہ ہزار روپے میں یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ تو مجھے فوراً اسلم کو لسری مرحوم کا یہ شعر یاد آگیا: مَیں نے اپنے سارے آنسو بخش دیئے بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے آصف محمود جاہ مجھ سے ایک ہی پیسہ مانگ رہے ہوں۔ مجھے ایک شامی یتیم بچے کی ماہانہ کفالت کے لئے 6500روپے ادا کرنا بہت آسان محسوس ہوئے۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے اور یہ معمولی سا عطیہ مَیں نے اپنی طرف سے ڈاکٹر صاحب کے حوالے کردیا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہاں پچاس لاکھ روپے کی امداد ایک فرد نے دی اور کہاں یہ ساڑھے چھ ہزار روپے کا ادنیٰ ساعطیہ۔۔۔ لیکن ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے چہرے پر تشکر کا ایسا رنگ تھا جیسے وہ مجھ سے بھی نصف کروڑ روپے کا عطیہ وصول کررہے ہوں۔ فیض احمد فیض نے شاید ایسے ہی موقع پر کہا تھا : بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی تمہارے نام پر آئیں گے غمگسار چلے اصل بات درد کا رشتہ اور غمگساری کا احساس ہے۔ اگر ہم میں وہ بیدار ہو جائے تو ہم شام کے مظلوم مسلمانوں کی پکار پر لازوال کردار اداکرسکتے ہیں۔ ایسے افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمتِ انسانیت کے جذبوں سے سرشار کررکھا ہے، ان کا رتبہ فرشتوں سے بھی افضل ہے۔ خواجہ میر درد نے یونہی تو نہیں کہا تھا: دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں پسِ تحریر:۔معروف کالم نگار برادرم اسد اللہ غالب کے بہت سے کالموں میں پروفیسر قطب کا نام میں نے پڑھ رکھا تھا اور ان کی تصویر بھی مختلف اخبارات میں دیکھ رکھی تھی۔ وہ نامور مصور ہیں۔ اسمِ محمدؐ کی مصورانہ خطاطی وہ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا لفظ محمدؐ ایک شاہکار معلوم ہوتا ہے۔ تقریب میں ان پر نظر پڑی تو مجھے بے اختیار منیر نیازی یاد آ گئے: کل دیکھا اک آدمی،اَٹا سفر کی دھول میں گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں شاید یہ نامِ محمدؐ لکھتے رہنے کا اعجاز ہے کہ پروفیسر قطب کے چہرے پر اجالوں کا ایک مستقل بسیرا محسوس ہوتا ہے۔ میری خوش بختی کی انتہا ہے کہ تقریب کے اختتام پروفیسر قطب کا لکھا ہوا نامِ محمدؐ ایک فریم شدہ شاہکار کی صورت میں مجھے بھی عطا کیا گیا۔ جس تقریب میں تین چار سو نامور افراد جمع ہوں،وہاں صرف چھ سات افراد کو اگر اس انعام کے لئے منتخب کیا جائے اور اس میں ایک گمنام کو بھی شامل کرلیا گیا ہو تو اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ جب پروفیسر قطب خود اپنے ہاتھوں سے اپنا ایک فن پارہ مجھے دے رہے تھے تو مصور اور ان کا شاہکار دیکھ کر میرے احساسات کی ترجمانی سلیم کوثر نے کچھ اس طرح سے کی: میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبوئیں جاتی نہیں مَیں نے اسم محمدؐ کو لکھا بہت اور چوما بہت