توشہ…ھارون الرشید
عزتِ نفس ہی اگر قربان کردی۔ آبرو ہی اگر بچا نہ سکے۔ گھر گھر گلی گلی اگر خوار ہوئے۔ مستقل اور مسلسل خلقِ خدا کی لعن طعن کے سزاوار ہوئے تو کیا حاصل کیا؟ ان کا توشہ کیا ہے؟ ان کا زادِ راہ اور عمر بھر کی کمائی کیا؟
کروڑ پتی‘ ارب پتی اور کھرب پتی لیڈروں میں سے اکثر رسوا اور پامال کیوں ہیں۔ اٹلی کے بنے اور فرانس کے سلے‘ لاکھوں روپے کے قیمتی سوٹ پہننے والے‘ ریشمی نکٹائیاں لٹکانے والے۔ قال اللہ اور قال الرسول کی گردان کرتے صاحبانِ جُبّہ و دستار۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا:
ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم
خلقِ خدا مجھے ملامت کرتی ہے‘ اور میں دار پر رقص کرتا ہوں۔
وہ آدمی ایک بار پھر یاد آیا۔ عہدِ رسالت مآبؐ کا واقعہ پھر یاد آیا۔
بارہ برس ہوتے ہیں‘ دو تین دوستوں کے ساتھ ایک اجنبی سے ملنے گیا۔ اب اس کا نام یاد نہیں۔ اس کا گھر یاد نہیں۔ اسلام آباد کے اس محلّے کا پتا یاد نہیں۔ مگر اس کا لہجہ اور تیورآج بھی حافظے پہ نقش ہیں‘ بالکل تازہ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ تازہ ہی رہیں گے۔
کیسا بانکپن تھا‘ اس کے باوجود کتنی سادگی‘ ندّی کے پانیوں کی طرح‘ سچ کی طرح سادہ اور بے ساختہ۔ نواحِ کوہ مری میں زمین کے ایک ٹکڑے کا قصد تھا۔ مل جل کر‘ جس کی خریداری کی جاتی۔ ایک کاروباری منصوبہ۔ درمیانے طبقے کے خواب دیکھنے والوں کا‘ ویسا ہی ایک منصوبہ جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ بس‘ وہیں دھرے کا دھرا رہ گیا۔ صاف اس نے انکار کر دیا۔ لیکن بہت شائستگی کے ساتھ‘ بہت دھیمے انداز میں۔ مگر جو کہانی اس روز سنی‘ اس کی بازگشت باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی۔
خوش دلی سے مہمانوں کی اس نے آئو بھگت کی؛ اگرچہ پہچانا کسی کو نہیں۔ ان اخبار نویسوں کو جو کالم لکھتے اور ٹی وی پہ نمودار ہوا کرتے۔ وہ اخبار کا قاری تھا اور نہ ٹی وی کا ناظر۔
شگفتہ آدمی‘ شگفتہ ماحول۔ معلوم نہیں کہ کیسے اور کیونکر گفتگو میں اچانک وہ لمحہ نمودار ہوا‘ جب اس ناچیز کی طرف متوجہ ہو کر اس نے کہا: برائے فروخت تو بالکل نہیں مگر بیس کنال زمین میں آپ کو ہدیہ کرتا ہوں‘ چھوٹا سا گھر بنا لیجئے اور چھٹیوں کے دن بِتایا کیجئے۔ خاکسار حیران اور اس کے ہمراہی ششدر۔ رفاقت اور لین دین تو کیا‘ جب شناسائی ہی نہ تھی تو یہ عنایت کیسی؟ ادب اور احترام کے ساتھ‘ جو واجب تھا‘ شکریہ ادا کیا اور معذرت کی۔ کچھ دیر اس نے اصرار کیا‘ پھر اس طرح بھول گیا‘ جس طرح ہنستے کھیلتے‘ لڑتے جھگڑتے معصوم بچے کوئی بھی قضیہ‘ کوئی بھی قصّہ بھول جایا کرتے ہیں۔
اس آدمی کی ایک عجیب داستان تھی۔
عہدِ جوانی میں‘ یہ ادھیڑ عمر آدمی پولیس کانسٹیبل تھا اور ویسا ہی جیسے کہ ہوا کرتے ہیں۔ ”تنہائی میں ایک دن اپنے حال پر میں نے غور کیا اور آزردہ ہوا‘‘ اس نے کہا‘ اور رسان سے اپنی کہانی کہنے لگا۔ اس طرح جیسے ہم پرانے ہم نفس اور دم ساز ہوں۔
اس نے فیصلہ کیا کہ احتیاج‘ پابندی اور مشکوک رزق کی اس زندگی سے وہ نجات پا لے گا۔ استعفیٰ لکھا اور ایک بہت چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کر دیا۔ غالباً چائے کا ایک کھوکھا۔
پھر تعمیراتی پتھر کے کاروبار سے وابستہ ہو گیا۔ روپیہ ہاتھ میں آیا تو وہ پہاڑ ٹھیکے پر لینے شروع کیے‘ جن سے یہ پتھر کھود کر‘ توڑ کر نکالا جاتا ہے۔ ”اچھا بھلا کاروبار تھا اور ایک آسودہ زندگی‘‘ جیتی جاگتی آواز نے کہا۔ پھر ایک خبط اس پہ سوار ہو گیا۔ ”میں آج بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا؟‘‘ لمبا تڑنگا‘ جسیم آدمی بولا… اور کہانی کہتا رہا۔
سنگِ مرمر کے ایک وسیع و عریض پہاڑ کے اندر اس نے کھدائی شروع کی اور کرتا ہی چلا گیا۔ لوگوں کا‘ جاننے والوں اور اس کے آس پاس بسنے والوں کا خیال تھا کہ اب اس پہ دیوانگی طاری ہے۔ ”کبھی خود بھی مجھے احساس ہوتا کہ میں پاگل پن کا شکار ہوں‘‘۔ مگر اس پاگل پن سے رہائی کی کوئی صورت اسے دکھائی نہ دیتی۔ بقول اس کے‘ اس کے باطن سے ابھرتی ایک ظالم اور بے تاب خواہش دل و دماغ پہ مسلط تھی کہ کھدائی کرے اور کرتا جائے۔ لاکھوں روپے جس پہ برباد ہو رہے تھے‘ اس کی ساری جمع پونجی۔
پھر ایک دن ایسی ایک چیز دریافت ہوئی‘ کسی کے جو سان گمان میں نہ تھی۔ اس طرح کے سفید پتھر‘ خانہ کعبہ کے ارد گرد‘ جو مسجدالحرام کے صحن میں بچھے ہیں۔ سورج کی کرنیں‘ جن پر سے منعکس ہو کر پلٹ جاتی ہیں۔ چلچلاتی دھوپ بھی جنہیں حرارت نہیں پہنچا سکتی۔ ٹھنڈے ٹھار سے رہتے ہیں‘ جیسے کسی کمرے کا فرش… تب وہ رکا‘ ایک مربع فٹ کی سل منگوائی اور بتایا کہ اٹلی کی ایک کمپنی کے ساتھ‘ اس کا معاہدہ ہے۔ مہنگے داموں جسے یہ پتھر وہ فروخت کرتا ہے۔
”یہ بیس سلیں‘ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں‘‘ اس نے کہا۔ مہربان آدمی کو بتایا کہ حال ہی میں مکان کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ ان پتھروں کا اب کیا مصرف؟۔ وہ ایک ذرا سا مسکرایا اور کہا: پھر کبھی کسی اور وقت‘ اگر آپ کی طبیعت آمادہ ہو۔
کاروبار کا خواب تو وہیں ڈھیر ہو گیا تھا‘ ابتدا ہی میں۔ مگر نور کی ایک کرن‘ اس اجنبی کے ہاں سے یہ اجنبی اٹھا لایا۔ کبھی کبھی اچانک جو قلب کی گہرائیوں میں جگمگا اٹھتی ہے۔ آج صبح بہت دیر تک جگمگاتی رہی۔ ایک چھوٹے سے مگر افسوسناک واقعہ کے بعد دل کی دنیا زیر و زبر تھی۔ حادثہ ٹل گیا تو سوچنے کا موقع ملا۔ کتنے ہی متعلق اور غیر متعلق واقعات یاد آئے۔ پھر اس تاریکی میں اس آدمی کا چہرہ ابھرا اور لَو دینے لگا۔
اس کے ماتھے پر لکھا تھا: خوش بخت وہ ہیں‘ اپنی تقدیر پہ جو شاکر ہوں‘ جو سایوں کا تعاقب نہیں کرتے۔
”طولِ امل‘‘۔ کتاب میں لکھا ہے‘ تباہ کر دینے والی چیز خواہشات کی درازی ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: ساری خرابیوں کی جڑ‘ دنیا کی محبت ہے۔
عہدِ رسالت مآبؐ کا ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں رقم ہے۔ کاش کہ آج فرصت ہوتی‘ اس کا متن تلاش کر سکتا۔ خلاصہ یہ ہے: اپنی زمین کسی نے بٹائی پر دی۔ ایک دن ہل کی انی کسی سخت چیز سے ٹکرائی۔ ٹٹول کر کاشتکار نے دیکھا تو یہ دھات کا ایک مٹکا تھا۔ کھود کر نکالا تو سونے کے سکوں سے بھرا ہوا۔
مالک کے ہاں وہ حاضر ہوا اور خزانہ اس کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یاللعجب‘ قبول کرنے سے اس نے انکار کر دیا اور یہ کہا: مجھے اس سے کیا لینا؟ زمین تمہارے حوالے کی کہ فصل کا ایک حصّہ مجھے دیا کرو‘ اس کے سوا کسی چیز سے میرا کیا تعلق؟
وہ قاضی کی عدالت میں پہنچے۔ حیران‘ کچھ دیر ان دونوں کی بات وہ سنتا رہا۔ کچھ دیر اس کا ذہن الجھا رہا۔ پھر دونوں مدعیوں سے‘ ان کی اولاد کے بارے میں پوچھا۔ ایک کا فرزند اور دوسرے کی نورِ نظر۔ قاضی نے پوچھا: کیا وہ انہیں بلا سکتا ہے؟ پھر اس نے سوال کیا کہ اگر ان دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائے؟
انہوں نے صاد کیا اور سونے کا یہ مٹکا‘ بچوں کو سونپ دیا گیا۔
در در بھیک مانگتے‘ کبھی شعلے اگلتے اور کبھی راتوں کی تاریکی میں‘ اپنے ہی جیسے بندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے‘ یہ لیڈرانِ کرام۔ ان عالی قدر رہنمائوں کو آدمی دیکھتا ہے… اور دیکھتا رہ جاتا ہے۔
عزتِ نفس ہی اگر قربان کر دی۔ آبرو ہی اگر بچا نہ سکے۔ گھر گھر گلی گلی اگر خوار ہوئے۔ مستقل اور مسلسل خلقِ خدا کی لعن طعن کے سزاوار ہوئے تو کیا حاصل کیا؟ ان کا توشہ کیا ہے؟ ان کا زادِ راہ اور عمر بھر کی کمائی کیا؟