توقعات کا لیول….خالد مسعود خان
چوہدری بھکن کا خیال تھا کہ بعض کام تو ایسے ہیں جو ایک دن میں کیے جا سکتے ہیں اور ان کے لیے سو دن والے ایجنڈے کی پابندی کی کوئی قید ہے اور نہ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ یہ ایسے کام تھے جن کے لیے صرف ایک نوٹیفکیشن کی ضرورت تھی اور وہ یہ کہ تمام ”نان کیریئر ڈپلومیٹ‘‘ صرف ایک کاغذ کی مار تھے۔ ایک حکمنامہ یعنی نوٹیفکیشن ہوتا اور گزشتہ حکومت کے دور میں تعینات کیے گئے تمام نان کیریئر ڈپلومیٹ حضرات یعنی اوپر سے نازل کردہ سفیر حضرات فارغ ہو جاتے۔ نواز شریف حکومت نے قریب بیس ایسے ہی نان کیریئر ڈپلومیٹ حضرات کو مختلف ممالک میں سفیر اور قو نصل جنرل وغیرہ مقرر کیا تھا۔ یہ ممالک کوئی ایرے غیرے نتھو خیرے ٹائپ کے ممالک از قسم روانڈا‘جیبوتی‘ ٹرینیڈ اڈ وغیرہ نہیں تھے بلکہ ان ممالک میں امریکہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کینیڈا اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔
امریکہ میں علی جہانگیر صدیقی‘ اقوام متحدہ میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی‘ سعودی عرب میں ایڈمرل حشام بن صدیق‘ کینیڈا میں طارق عظیم‘ مراکش میں نادر چوہدری‘ سربیا میں ٹرانسپپرنسی والے عادل گیلانی اور اسی قسم کے اور کافی سارے ہیرے میاں صاحب نے اپنی صوابدید پر پاکستانی سفارتخانوں میں متعین کر دیئے تھے۔ ان میں میرے علم کے مطابق شاید نادر چوہدری نے استعفیٰ دیا تھا۔ لیکن میرا علم ناکام ثابت ہوا اور پتا چلا کہ نادر چوہدری نے بھی استعفیٰ نہیں دیا۔ موصوف لندن میں میاںنوازشریف کے ترجمان بھی تھے اور خیال رکھنے والوں میں بھی شمار ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ کسی اور کو نہ سہی کم از کم نادر چوہدری کو تو از خود مستعفی ہونا چاہئے تھا مگر کیا کہا جا سکتا ہے؟
اب علی جہانگیر صدیقی کو دیکھیں۔ موصوف نیب کو مطلوب ہیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفیر کبیر ہیں۔ نیب کو مطلوب شخص کو آخر سفارت کاری سے ہٹانے میں کیا امر مانع ہے اور کتنی لمبی چوڑی کاغذی کارروائی درکار ہے؟ اللہ جانے اس سو دن کے منصوبے میں کون کون سے معاملات کی درستی شامل ہے؟ پولیس کا قبلہ اور خاص طور پر پنجاب اور اس سے بھی بڑھ کر سندھ میں درست کرنا کم از کم سو دن میں تو ہرگز ممکن نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ فیم سید کلیم امام کو آئی جی لگایا گیا ہے۔ شنید ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جن تین ناموں کو بھیجا گیا تھا ان میں سرفہرست ان کا نام تھا اور یہ فہرست اپنے قبلہ آصف علی زرداری صاحب کی منظوری کے بغیر بننا تو ممکن ہی نہیں تھی اور پھر ان کی ان تین ناموں میں سے منظوری۔ ایک واقفِ حال شخص کے بقول جس صوبہ میں ذوالفقار علی چیمہ جیسے صاف ستھرے اور اپنی من مانی کرنے والے افسر کو تو صرف اس بناء پر قبول نہ کیا جائے کہ یہ کسی کی سفارش مانتا ہے اور نہ ہی دبائو۔ اور پھر اسی صوبہ میںاے ڈی خواجہ کو فارغ کرنے کے لیے جو جو پاپڑ بیلے گئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو نے کئی بار اے ڈی خواجہ کو سندھ کی آئی جی شپ سے فارغ کرنے کی کوششیں کی مگر ہر بارعدالت آڑے آ گئی‘ حالانکہ اے ڈی خواجہ ذوالفقار چیمہ جتنا نہ تو سخت تھا اور نہ ہی میرٹ کا اتنا پابند لیکن اس کے باوجود اسے بھی سندھ حکومت برداشت کرنے پر راضی نہ تھی۔ اس کا قصور جو سننے میں آیا ہے وہ یہی تھا کہ اس نے انور مجید (منی لانڈرنگ فیم) کو جو بظاہر سندھ کی کئی شوگر ملوں کا مالک ہے اور سندھ کاشتکاروں سے زبردستی گنا سستے داموں ہتھیانا چاہتا تھا لیکن اے ڈی خواجہ نے گنے کی ٹرالیوں کو ہانک کر انور مجید کی (بظاہر) شوگر ملوں تک لے جانے میں رکاوٹ ڈالی تھی۔
جہاں سندھ کا آئی جی محض اس بات پر برداشت نہ ہوکہ وہ آصف علی زرداری کے فرنٹ مین کی ملوں کو زبردستی اور دھونس دھاندلی سے کاشتکاروں کا گنا سستے داموں ہتھیانے کی کوششوں کو ناکام بنا دے بھلا وہاں کوئی میرٹ کے مطابق کام کرنے والا آئی جی کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں محمد طاہر کو آئی جی لگا دیا گیا ہے۔ میرا ایک پولیس میں موجود سینئر دوست بتا رہا تھا کہ محمد طاہر بلا شبہ شریف اور ایماندار آدمی ہے مگر اتنا شریف ہے کہ بگڑی ہوئی پولیس کو نہ تو لگام ڈال سکتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی ڈی پی او کو وزیراعلیٰ کی طلبی سے روک سکتا ہے۔ کسی نے میل بھیجی تھی اور اس میں اس نے پنجاب کے اس نئے آئی جی کی شرافت کو یہ مقام عطا کیا کہ بقول اس کے آئی جی کا پی اے بھی اس سے نہیں ڈرتا کہ اسے پتا ہے کہ آئی جی بہت ہی شریف آدمی ہے۔ بھلا اب ایسے آدمی سے پنجاب کی ساری پولیس اور چھ سو تھانے کس طرح ڈریں گے؟ اب آپ اس لفظ ”ڈریں گے‘‘ سے اختلاف کر سکتے ہیں کہ آئی جی کا کام تھانوں اور پولیس فورس کو ڈرانا یا خوفزدہ کرنا نہیں ہوتا۔ لیکن آپ سب سے پہلے پنجاب پولیس کا مائنڈ سیٹ سامنے رکھیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ پنجاب پولیس ڈرائے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے‘ اس کا قبلہ درست کرنے کے لیے اور اسے عوام کی محافظ بنانے کے لیے ایک ایسا بندہ چاہئے جو نہ کسی کی سنتا ہو اور نہ ہی مانتا ہو۔ جو ”زیرو ٹالرنس‘‘ پر کام کرتا ہو۔ اس کے علاوہ پنجاب پولیس کو محض بھاشنوں سے یا وعظ سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ناصر درانی کی زیر نگرانی بننے والے پنجاب پولیس ریفارم کمیشن کے ذریعے‘ آپ سفارشات تو مرتب کر سکتے ہیں لیکن ان سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور اسے نافذ کرنے کے لیے ایک سو ایک اختلافات کے باوجود مشتاق سکھیرا جیسا بندہ چاہئے۔ کے پی کے کی پولیس میں بہتری ضرور ہوئی تھی اور اس کا سہرا ضرور ناصر درانی کے سر جاتا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ کے پی کے پولیس پنجاب پولیس سے سو گنا بہتر پولیس تھی۔ وہاں کے قبائلی نظام میں اور مروج رسم و رواج کے حوالے سے پولیس کبھی بھی بے لگام نہ تھی‘ اس لیے دونوں صوبوں کی پولیس کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہی حال تعلیم کا ہے۔ گھوسٹ سکولوں سے لے کر غیر حاضر اساتذہ تک اور غیر معیاری تعلیم سے لیکر انتہائی خستہ حال اور نا گفتہ بہ عمارتوں تک۔ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے اور یہ کوئی سو دن میں ٹھیک ہونے والا معاملہ نہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس سلسلے میں نئی حکومت سے بہت سی اچھی توقعات ہیں لیکن صرف توقعات سے کیا ہوتا ہے؟ نظام تعلیم گزشتہ ستر سال میں اتنا خراب و خستہ ہو چکا ہے کہ اسے برسوں میں بھی ٹھیک کر لیا جائے تو غنیمت ہوگی۔ سب سے پہلے تو سرکاری سکولوں میں اور خاص طور پر پرائمری سکولوں میں ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو جدید تعلیمی تقاضوں سے آگاہ بھی ہوں اور جدید علوم کو پڑھانے کے قابل ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں میٹرک تک استادوں کو خود انگریزی آتی ہے اور نہ ہی اس معیار کی تعلیم کے حامل ہیں جو ان کے مقابلے میں پرائیویٹ سکول دے رہے ہیں۔ سارے کا سارا وہ نظام تعلیم اوورہال ہونے والا ہے‘ الف سے لیکر ے تک اور اے سے لیکر زیڈ تک۔
تیسری ترجیح صحت کا شعبہ ہے۔ یہ شعبہ بھی سرکاری ہسپتالوں کی حد تک کتنا خراب ہے؟ اس کا اندازہ عمران خان کو گزشتہ پانچ سال میں پشاور کے ہسپتالوں سے ہو چکا ہوگا۔ پانچ سال میں ان سے پشاور کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال ٹھیک نہیں ہو سکا تو باقی باتیں کرنا بے معنی ہیں۔ صرف رورل ہیلتھ سنٹرز کو ٹھیک کر دیا جائے اور بڑے شہروں میں دو چار ہسپتال اس قابل کر دیئے جائیں کہ وہاں عام آدمی کو بلا سفارش داخلہ مل جائے اور مستحق کو مفت دوائی میسر ہو تو معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں‘ مگر ایسا ہونا تبھی ممکن ہے جب ڈاکٹر بھی اس کار خیر میں مسیحا بن کر اپنا حصہ ڈالیں اور حال یہ ہے کہ اس شعبہ کا پہلو روز بروز بگڑتا جا رہا ہے۔
جو سرکار ڈیڑھ ماہ میں نیب زدہ سفیر نہیں بدل سکی اس سے سو دن میں اتنے بگڑے ہوئے حالات بارے کوئی فوری توقع لگا بیٹھنا مناسب حرکت نہیں۔ سو عزیزان اپنی توقعات کا لیول تھوڑا نیچے لے آئیں تو بہتر ہے۔