منتخب کردہ کالم

تو آپ تقریر کرنا چاہتے ہیں؟….حسنین جمال

تو آپ تقریر کرنا چاہتے ہیں؟….حسنین جمال

سکول، کالج ، یونیورسٹی، آفس کہیں تو ایسا ہوا ہو گا کہ آپ کو بالکل اچھے بھلے جاری و ساری پروگرام کے دوران سٹیج پہ بلا لیا گیا ہو؟ آپ سکون سے تیار ہو کے گھر سے نکلتے ہیں کہ یار آج فلاںفنکشن ہے ، اچھا شغل میلہ رہے گا۔ وہاں پہنچتے ہیں تو بہت سے جاننے والے ملتے ہیں، دوست یار نظر آتے ہیں، جس ٹکڑی میں جگہ ملتی ہے بندہ بیٹھ جاتا ہے اور اطمینان سے فرنٹ پہ ہونے والی تمام کارروائی دیکھنے لگتا ہے ۔ اچانک کسی چکر میں سٹیج پہ کھڑے میزبان کو آپ کی یاد آتی ہے اور خطاب کرنے کے لیے آپ کو بلایا جاتا ہے ۔ اس وقت کیسی حالت ہوتی ہے ؟ سب سے پہلے تو دل زور زور سے دھڑکنا شروع ہو جائے گا، اسی درمیان چلنا شروع ہوئے تو لگے گا کہ پاؤں گھسیٹنے پڑ رہے ہیں، ایک دم پیاس لگنی شروع ہو جائے گی، کبھی خیال آئے گا واش روم کا پھیرا مار آئیں، مطلب کیا کیا کچھ نہ ہو گا جو ننھی سی جان پہ گزر جائے گا۔ جیسے تیسے سٹیج پہ پہنچ گئے ۔ سامنے بیٹھے لوگوں پہ نظر ڈالی، اللہ و اکبر، یہ کم بخت اتنے سارے لوگ کہاں سے آئے گئے ؟ ادھر کونے میں بیٹھ کے تو اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ اتنی خلقت جمع ہو گی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ہوں گے بھی اپنے دوست یار لیکن مجمعے کے سامنے بولنے کا خوف ہوتا ہی اس قدر واہیات ہے کہ آپ کا گلا تقریباً بند ہو چکا ہو گا۔
سٹیج پہ اچانک نہ بھی بلائیں، پہلے سے طے ہو کہ بھئی چھبیس تاریخ کو آپ نے فلاں جگہ اس موضوع پہ تقریر کرنی ہے ۔ کوئی بھی جگہ ہے ، کسی بھی عمر
کے حصے میں ہیں، بس آپ نے بولنا ہے ، بات کرنی ہے ، سب کے سامنے کرنی ہے ۔ عام آدمی کو شارٹ کرنے کے لیے “سب کے سامنے ” والا پارٹ بہت کافی ہے ۔ چھبیس سے ایک دن پہلے تک آپ فل ٹائم مطمئن ہوں گے ، اپنے آپ کو تسلیاں دی جا رہی ہوں گی، ابے ہاں یار، تقریر ہی تو ہے ، کر لیں گے ، یہ تو کوئی موضوع ہی نہیں ہے ، اس پہ تو کئی گھنٹے بول سکتا ہے بندہ وغیرہ وغیرہ۔ تقریر والے دن پوری طبیعت سے غش آنا شروع ہو جائیں گے ۔ جلدی جلدی میں پہلے آپ اہم پوائنٹ نوٹ کریں گے ، پھر ذہن میں آئے گا کہ یار اگر وہاں جا کے سب کے سامنے بھول گیا تو بڑی لعنت پڑے گی، اس چکر میں پوری تقریر لکھ کے دوسری جیب میں رکھ لی جائے گی۔ اب دائیں جیب میں پوائنٹس والا کاغذ ہے ، بائیں میں پوری تقریر ہے ۔ ایمرجنسی کٹ دونوں جیبوں میں سنبھالے یار لوگ سٹیج پہ جاتے ہیں اور گلے میں کوئی چیز پھنس جانے کا وہی احساس موجود ہے ۔
پانی کیسے مانگا جائے ؟ یہ تو اور بے عزتی والی بات ہے ۔ اتنا بڑا ہو گیا اسے تقریر سے موت پڑتی ہے ، لوگ کیا کہیں گے ؟ اب سوکھا گلا لیے ایک نظر سامنے دوڑائیے گا، ایسا لگتا ہے سارے آپ پہ ہنسنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ لاحول ولا، کس مصیبت میں خود کو پھنسا لیا، بھائی اس دن چٹا انکار کیوں نہیں کر دیا جب ان لوگوں نے پوچھا تھا کہ تقریر کرو گے یا نہیں؟ تو اس طرح کی سوچیں وہیں کھڑے کھڑے آئیں گی۔ دائیں بائیں جیب کا حساب بھول جائے گا بس جو کاغذ پہلے نکل آیا اسی پہ قوم کے مقدر کھلیں گے ۔ اصل سین اب شروع ہونا ہے ۔ شروع کے تین چار لفظ ایسے مزے سے نکلیں گے کہ بندہ سوچے گا واہ جی واہ، اینا ای کم سی، اتنی دیر میں ایک دم لگے گا جیسے آواز ڈوب رہی ہے ، پاؤں لڑکھڑا رہے ہیں، سانس پھول رہی ہے ، چکر بھی آتے محسوس ہوں گے ، بس! یہی مرحلہ ہے بھیا، اسے پار کر گئے تو آپ ایک کامیاب بولنے والے قرار پائیں گے ، اس میں الجھ گئے تو رل گئے ۔ بھائی بچپن سے ادھر ہی پھنس جاتا ہے یار۔ مطلب اس
کے بعد پھر بات ہی نہیں بنتی۔ لکھنے میں جو مرضی طرم خانیاں دکھا دیں جب تک اس کی پریزینٹیشن نہ ہو تو کیا مزہ آیا؟
جب بھی دنیا میں کوئی انسان آپ کو تقریر کرنا سکھائے گا وہ پہلی بات یہی کرے گا کہ “بھول جاؤ تمہارے سامنے کوئی بیٹھا ہے ” یا “سمجھو تمہارے آگے جانور بیٹھے ہیں” اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھائی میاں خود نشے میں تقریریں کرتے رہے ہیں۔ ٹھیک دماغ چالو عقل کے ساتھ ایک آدمی سامنے بیٹھے ہوؤں کو جانور کیسے سمجھ سکتا ہے ؟ یا کوئی انسان پانچ سو افراد کے سامنے کھڑا ہوا یہ کیسے محسوس کر سکتا ہے کہ یہ پانچ سو “نہیں ہیں”؟ مطلب یار حد ہوتی ہے ، یہ پہلا فارمولہ ہی اس قدر نامعقول ہے کہ نیا بچہ اگر اس پہ بھروسہ کر کے سٹیج تک پہنچ گیا تو وہیں اپنے جیسا پھسڈی ہو جائے گا۔ سامنے بیٹھے ہوا مجمع وہ ہے جس سے آپ مخاطب ہونے جا رہے ہیں، جن سے داد لینی ہے ، جنہیں کچھ کر کے دکھانا ہے ، وہ کیسے “نہیں” ہو سکتے یا انہیں کیسے جانور تصور کیا جا سکتا ہے ؟ واحد حل یہی ہے کہ بندہ ٹھیک ٹھاک ہائی ہو، اسی موج میں سامنے والا پہلے جانور نظر آتا ہے اس کے بعد نظر ہی نہیں آتا۔
اب تک جو بتایا گیا ہے اگر آپ کی شخصیت بالکل یہی ہے تو مبارک ہو آپ ایک بالکل نارمل انسان ہیں۔ ہاں تو اور کیا، بندہ سٹیج پہ کھڑا ہے ، اتنے لوگوں کے سامنے ہے ، پسینے بلکہ ٹھنڈے والے پسینے آ رہے ہیں اب کیا وہ غریب خیال جمع کرے گا، کیا وہ اعتماد بحال کرے گا، کیا سوچے گا، کیا بولے گا، آگا سنبھالتا ہے تو پیچھا کھسکتا ہے ، پیچھا درست کرے تو سامنے سے عزت ہوتی ہے ، قسم سے ٹھیک ٹھاک آزمائش والا ماحول بن جاتا ہے ۔ تو دوست، اگر اس لیے اتنا سارا لکھا ہوا پڑھ لیا کہ فقیر کوئی گٌر کی بات بتائے گا، تقریر کرنا سکھائے گا، تو دونوں ہاتھ جوڑ کے معذرت ہے ۔ اپنا تو مقصد تھا کہ اکٹھے ہو کے دکھڑے رو لیے جائیں، پتہ نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جو آتے ہیں، دیکھتے ہیں اور فتح کر لیتے ہیں، اپنی تو حالت بالکل ویسے ہی ٹائٹ ہوتی ہے جیسے کسی بھی نارمل آدمی کی ہو سکتی ہے ۔
لوگوں کے سامنے بولنا، بات کرنا، تقریر جھاڑنا باقاعدہ ایک کتاب ہے اور اس کا پہلا باب خود اعتمادی ہے ، سٹیج کا خوف دور کرنا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ہر آدمی اچھا مقرر بن جائے ، اگر دس ہزار کے مجمعے سے ایک آدمی خطاب کرے اور وہ دس کے دس ہزار خود بھی تقریر کرنا جانتے ہوں بلکہ کرنا چاہتے بھی ہوں تو سنے گا کون بابا؟ ہر چیز سیکھنا دنیا میں ضروری نہیں ہوتا۔ اگر آپ یا آپ کا بچہ یا آپ کا بھائی بہن سٹیج پہ بات نہیں کر سکتے ، سکول میں پرفارم نہیں کر پاتے ، پریشان ہو جاتے ہیں تو لیٹ اِٹ گو، وہ کوئی اور کام کر لیں گے ۔ دنیا بھری پڑی ہے ایسے لوگوں سے جو ڈھنگ سے اکیلے میں بھی بات نہیں کر سکتے لیکن پرسنل زندگی میں ایک دم کامیاب آدمی ہیں۔ وہ جس کام میں اچھے ہیں انہیں کرنے دیں، خود آپ جو کام اپنے لیے بہتر سمجھیں وہ کریں۔ ہاں اگر پھر بھی کوئی بڑا ہی شوق ہے تو اس کا واحد حل ہے خود کو بار بار اس مشکل میں پھنسانا۔ چالیس مرتبہ آپ سٹیج پہ جا کے بات کریں گے اکتالیسویں دفعہ محسوس ہو گا کہ ہاں اب ویسی حالت نہیں ہے ، پھر انسان عادی ہو جاتا ہے ۔ یہی فارمولا کسی بھی ایسے خوف کو دور کرنے کے لیے آزمایا جا سکتا ہے جو اسی قسم کا ہو۔ باقی سو باتوں کی ایک بات کہ بھائی چھوٹی سی زندگی ہے ، کتنے امتحان اپنے لیے کھڑے کرنے ہیں؟ ٹھنڈ پروگرام چلائیں، خود بھی نیویں نیویں ہو کے لنگھ جائیں دوسروں کو بھی موج کرنے دیں۔ جو جہاں ہے اگر خوش ہے تو اور کیا چاہیے ؟ سب کی خوشی ایک ہی چیز سے حاصل ہونی ضروری ہے کیا؟