تو اپنی خودنوشت کو خود اپنے قلم سے لکھ…ھارون الرشید
تمام انسان اپنے اعمال کے قیدی ہیں…اور جیسا کہ سرکارؐ نے فرمایا:کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔
کبوتر کی طرح کوئی آنکھیں موند لے تو اس کی مرضی‘ ورنہ قدرت اپنی نشانیاں ظاہر کرتی رہتی ہے۔ چند ہفتے قبل کیا کسی کے سان گمان میں بھی ہوگا کہ ایک خاموش طبع پروفیسر‘ ایک دن سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ ہو جائے گا۔ قرآن کریم کی وہی آیت ”ہر ذی روح کو اللہ نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے‘‘ خیالات خارج سے آتے ہیں داخل سے نہیں اٹھتے۔ خدا جانے کس دل میں اس خیال نے جنم لیا جسے بہرحال متشکل ہونا تھا ۔ ایک نہیں اکثر دو طرح کے خیالات ہوتے ہیں۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے: ایک فرشتہ آدم کی طرف وحی کرتا ہے اور ایک شیطان… صالح اور لغو خیالات۔ ان میں سے ایک کا آدمی کو انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک چیز وہ ہے ہر حال میں جسے نافذ ہونا ہوتا ہے۔ یہی تقدیرِ الٰہی ہے۔احمق وہ ہے جو اپنی تقدیر سے لڑتا رہتا ہے‘ دانا وہ جو اسے پہچاننے کی کوشش کرے۔
بے شمار جہات ہو سکتی ہیں‘ ہزار طرح کے امکانات۔ عالمِ بالا میں اگر یہ طے تھاکہ ایک طوفانی عہد میں‘ پولیٹیکل سائنس کے ایک کم آمیز استاد کو‘ نازک ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں تو مزاحمت کون کر سکتا۔ خیر اب تو کئی ماہ سے دنیا ٹی وی کے پروگرام ”تھنک ٹینک‘‘ میں وہ ہمارے رفیق تھے‘ برسوں ان سے واسطہ رہا۔ باون تولے پائو رتی‘ ایک استاد کی طرح ہمیشہ سانچے میں ڈھلی بات کرتے ہیں۔ شوروشغب کے اس زمانے میں‘ چیخنا چلاّنا جب ایک ہنر ہے‘ بدتمیزی ایک وصف ہے اور بلیک میلنگ ایک آرٹ‘ پروفیسر پرانے زمانے کا آدمی ہے۔ سرجھکائے ‘ناک کی سیدھ میں چلنے والا۔ انکسار اس کی شخصیت کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ ہے۔ ہر چیز پہ مگر وہ رائے رکھتے اور اس پہ اصرار کرتے ہیں ۔ یہ گمان نہ ہونا چاہیے کہ اشارۂ ابروپہ حرکت کریں گے۔وہ سوجھ بوجھ کے آدمی ہیں‘ صاحب الرائے ۔
راہ سلوک کے پرجوش مسافر نے درویش سے پوچھا: کیا میں فلاں اور فلاں درود پڑھا کروں۔ رسان سے فقیر نے جواب دیا: ہم درودِ ابراہیمی پڑھتے ہیں‘ پکی سڑک پہ چلتے ہیں۔ راہِ سلوک کے نہیں پروفیسر حسن عسکری پولیٹیکل سائنس کے مسافر ہیں۔ اس کا صغریٰ کبریٰ جوڑتے‘ مختلف پہلوئوں کو جانچتے‘ کسی بھی واقعے کا تجزیہ اور ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ہم اخبار نویسوں کے برعکس یہ استاد کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں۔
ایک قناعت پسند آدمی جو اپنی محدودات (Limitations) میں رہنے کا عادی ہے؛ اگرچہ معمولی ہے مگر علالت کے سبب سونے جاگنے کا ان دنوں کوئی وقت نہیں۔ شام پانچ بجے آنکھ کھلی تو خبر ملی۔ وقت تھا ہی نہیں کہ پس منظر کی ضروری معلومات جمع کی جا سکیں۔ خود انہیں زحمت نہ دی کہ مصروف ہوں گے ۔ برادرم عدنان عادل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مشرقی پنجاب سے ان کا خاندان ہجرت کرکے آیا ہے۔ کنبے میں تعلیم کا رجحان ہے اور توازن کامزاج۔ خیر‘ یہ تو خود دیکھا اور بارہا دیکھا کہ کسی خاص پارٹی‘ مکتبِ فکر یا گروہ کے وکیل نہیں۔ ہمیشہ پہلے سے پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ کسی موضوع پر کیا رائے وہ دیں گے۔
ماحول کے اثرات ہر ایک پہ ہوتے ہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند ‘ لاشعور کے وسیع و عریض غاروں تک جالے بن دینے والے تعصبات سے مکمل رہائی تو کوئی عارف ہی پا سکتا ہے۔ قرآنِ کریم جس کے بارے میں کہتا ہے : مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے… اور یہ کہ اللہ مومنوں کا ولی ہے‘ تاریکی سے انہیں روشنی کی طرف لے جاتا ہے ”من الظلمات الی النّور‘‘ یہ ایک دوسری طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کانگرسی مولویوں کے سوا ہر شخص کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ دو اڑھائی صدیوں کی آئینی سیاست میں صرف ایک شخص پہ پوری طرح اس کا اطلاق ہوتا ہے‘ قائداعظمؒ محمد علی جناح۔
روز روز ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے‘ اتنا بڑا لیڈر جب کسی قوم کے آفاق پہ جگمگائے تو اس کے بعد ویرانی کے ان گنت موسم سہنا ہوتے ہیں۔ عموماً ایک صدی بیت جاتی ہے کہ ایک دوسرا دانائے راز نمودار ہوتا ہے۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
فطرت اپنے راز تماشائیوں پر نہیں کھولتی۔ عارف نے کہا تھا: خدا راستے میں گری پڑی کوئی چیز نہیں جو اتفاق سے تمہیں مل جائے‘ جب تک وہ تمہاری اوّلین ترجیح نہ ہو تم اس سے محروم رہو گے۔
یہ ایک بھٹکی ہوئی قوم ہے۔حاکم گمراہ‘ اس کے لیڈر گمراہ‘ اس کے دانشور خیالات کی بھول بھلیّوں میں حیران و ششدر‘ اس کے علما ریاکار یا خبطِ عظمت کے مارے ہوئے۔ سامنے کی سچائی سے یہ معاشرہ آگاہ نہیں کہ قوم کے عروج و زوال کا انحصار اخلاقی اقدار کی پاسداری پہ ہوتا ہے… اور اقدار تک رسائی علم کے بغیر ممکن نہیں۔ مرعوبیت کے مارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت ور لیڈر قوموں کی راہِ عمل متعین کرتے ہیں۔ اچھا لیڈر بھی اللہ کا بڑا انعام ہے مگر اہمیت سفر کی ہوتی ہے مسافر کی نہیں۔ اصول کی ہوتی ہے آدمی کی نہیں۔ آدمی بھی وہی افضل و اعلیٰ ہے ‘ رویہ جس کا علمی ہو ۔جس میں جذباتی توازن پایا جائے۔ ریا کی بجائے جو اخلاص اور صداقت کا پیروکار ہو۔ جس کے عمل اور قول میں فاصلہ نہ ہو۔
حسن عسکری کوئی بڑے لیڈر نہیں۔ کسی سیاسی جماعت کے رہنما اور نہ کسی گروہ کے سرغنہ۔ قناعت پسند آدمی طالب اور امیدوار ہی نہ تھا۔ دستِ سوال کبھی دراز ہی نہیں کیا۔ کبھی کسی قہرمان کے دربار میں نہیں پائے گئے۔ شائستگی تو ہمیشہ تھی‘ لجاجت ان کے لہجے میں کبھی نہیں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھانے والا آدمی ذرا سی دربارداری بھی کر سکتا تو پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہو جاتا۔ بندے انصاف نہیں کرتے مگر اللہ تو کرتا ہے اور آخرکار اسی کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے۔
لاہور کے ہوائی اڈے سے متصل عسکری 10کے ایک چھوٹے سے‘ سادہ سے مکان میں مقیم استاد کو اللہ نے عزت بخشی ہے۔ سیاستدانوں کو چھوڑیے‘ ان کا کام عیب جوئی ہے اور کیڑے ڈالنا۔ پروفیسر کے بعض تجزیے ناقص ہو سکتے ہیں۔ ان کے رفقاء کار جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر وہ ایک دیانت دار آدمی ہیں۔ ان کے ساتھ حسنِ ظن کا جواز ہے۔ سبکدوش وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر‘ اٹھارہ بلین ڈالر گیس کی درآمد میں گھپلے کا الزام ہے‘ اپنے صوابدیدی فنڈ سے ایک ارب روپے اپنے ووٹروں پہ لٹانے کا الزام ہے۔باخبر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے حلقہ انتخاب کو سوئی گیس فراہم کرنے کے لئے وزراتِ خزانہ سے سات ارب روپے مانگتے رہے۔ انہیں یہ ملک گوارا کر سکتا ہے۔ شریف خاندان کو گوارا کر سکتا ہے‘ کم از کم چار پانچ بلین ڈالر کی خوردبرد کا جن پہ الزام ہے۔ اس ملک کو جنہوں نے چرا گاہ بنا کر رکھ دیا۔ آصف علی زرداری اور ان کے خاندان کی تاب لا سکتا ہے‘ الزام کے مطابق بائیس بلین ڈالر لوٹ کر جنہوں نے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں یا بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔ پروفیسر حسن عسکری پہ اعتراض ہے‘ کیا کہنے‘ کیا کہنے‘ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ۔
اقبالؔ نے کہا تھا: تو اپنی خود نوشت کو اپنے قلم سے لکھ / خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں۔ پروفیسر حسن عسکری رضوی کی انتظامی حیات کا ورق سادہ ہے۔ اس پر وہی رقم ہوگا جو اپنے قول و فعل سے وہ لکھ دیں گے۔ اللہ انہیں توفیق عطا کرے۔توقیر ان کی برقرار رکھے۔
تمام انسان اپنے اعمال کے قیدی ہیں…اور جیسا کہ سرکارؐ نے فرمایا:کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔