احتجاج جمہوریت کا حسن ہے اور سیاست کا لازم و ملزوم۔
کوئی معاشرہ تب تک توازن بر قرار نہیں رکھ سکتا جب تک جزا اور سزا کا ایک با قائدہ نظام موجود نہ ہو۔ اختلافات کس معاشرے یا سیاسی نظام میں نہیں ہوتے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اقوام عالم میں مہذب تہذیب وروایات کے حامل افراد اختلافات کو ایک منظم اور پُر امن انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور جمہوریت کی روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے کو شش یہ کی جاتی ہے کہ فیصلہ عوام ہی کریں۔تحریک انصاف کے مطالبات اس حد تک درست ہیں کہ وہ Panama Papersکی آزادانہ تفتیش چاہتے ہیں اور جہاں تک میری معلومات ہیں وزیراعظم بھی اس مطالبے سے متفق ہیں۔ مگر تحریک انصاف کو شکایت ہے کہ یہ تمام کام انتہائی سر عت کے ساتھ انجام پانا چاہیے تاوقت کہ فیصلہ آئے وزیر اعظم پاکستان کو گھر چلے جانا چاہیے۔میں اس ضمن میں بھی تحریک انصاف کی مخالفت نہیں کرتا کیونکہ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جب لوگوں کو اپنے لیڈروں پر شکوک و شبہات ہوتے ہیں تو وہ لیڈر اعلیٰ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مستعفیٰ ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے صورتحال قدرِ مختلف ہے۔ قانونی اعتبار سے پاکستان کے وزیراعظم کا نام Panamaمیں شامل ہی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کے معروضی حالات اقوام عالم سے یکسر مختلف ہیں۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر دہشت گردی کے عفریت سے نبردآزما ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور پاکستان میں تخریب کاری کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن پھر بھی کچھ چنگاریاں ابھی بھی جل رہی ہیں اور شعلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بیرونی محاذ پر پاکستان پر دشمن مختلف اطراف اور مختلف طریقوں سے حملہ آور ہیں ۔
پاکستان کی بھارت کے ساتھ کشمیر کے تناظر میں ہونے والی حالیہ کشیدگی نے حالات کو مزید دگرگوں کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں احتجاج کا حق تو کسی جماعت سے نہیں چھینا جا سکتا کیونکہ میری نظر میں اپنے جذبات کا اظہار سانس لینے کی طرح اہم ہے مگر کچھ ضابطے اور طریقے بہر حال مد نظر رکھنے چاہیئیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت سے شکایات بہت پرانی ہیں۔ 2013کے انتخابات کے نتائج PTIکے لئے غیر متوقع تھے۔ تحریک انصاف کا گمان تھا کہ وہ پورے ملک میں کلین سویپ کریں گے مگر یہ ہو نہ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا اور ووٹ ڈالنے کیلئے حوصلہ افزائی کی لیکن نتائج بہر حال مسلم لیگ (ن) کے حق میں آئے اور نواز شریف کی جماعت کو بہت واضح اکثریت حاصل ہو گئی۔
عمران خان کھلاڑی ہیں اور اُن کی شخصیت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں اور ہار تسلیم نہیں کرتے۔ یہ کوشش اور کاوش رنگ تب ہی لاتی ہے جب ا س کی سمت اور زاویہ درست ہو۔
دو سال قبل جب تحریک انصاف کو اپنے مطالبات تسلیم ہوتے نظر نہ آئے تو اُنہوں نے طاہر القادری کی رفاقت میں اسلام آباد کے ڈی چو ک میں دھرنا دیا۔ حکومت اس معاملے سے بطریق احسن نبرد آزما نہ ہو سکی جس کی وجہ سے مزاحمت بھی ہوئی اور چند ہلاکتیں بھی۔ بہر حال عمران اور قادری کا دھرنا اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا اور ایک خاص مدت کے بعد اسلام آباد کی گلیوں میں گم ہو گیا۔
حکومت کے ناقدین کی دلیل بہر حال وزن رکھتی ہے کہ اگر عمران اور قادری کے چند مطالبات کسی مناسب فورم پر مان لیے جاتے تو شاید ان کویہ انتہائی اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور عوام بھی اس تکلیف دہ آزمائش سے نہ گزرتے۔
بہر حال عمران خان کے دھرنے نے عوام اور حکومت کو بہت کچھ سکھایا اور اگر یہ کہا جائے کہ اس سے حکومت کی معاملہ فہمی میں نکھار آیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ دھرنوں کی مشق کے بعد حالات سکون کی طرف مائل ہی تھے کہ یکایک پانامہ ہنگامہ بر پا ہو گیا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ایک وضاحت طلب مسئلہ ہے جس کا ادراک جناب وزیر اعظم کو بھی ہے اور اس کا اُنہوں نے ایک سے زائد مرتبہ اقرار اور اظہار بھی کیا ہے لیکن حکومت کی سست روی کے باعث تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر احتجاج کی کال دی ہے۔ احتجاج کی حد تک تو تحریک انصاف سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن اس احتجاج میں ڈنڈوں کا اضافہ ایک انتہائی تشویش ناک خبر ہے۔ گو کہ نواز شریف کے چند ”جانثاروں ”نے ٹی وی پر آ کر کچھ غیر منا سب باتیں بھی کیں لیکن حکومت کے ذمہ دار افراد کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جناب عمران خان کو خوش آمدید کہا جائے گا اور کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی جائے گی تو پھر احتجاج میں ڈنڈوں کی شمولیت کیوں؟ کیا ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ ڈنڈے ہر صورت فساد کا باعث بنیں گے۔ خان صاحب سے درخواست ہے کہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور ڈنڈا گروپ کو اپنے احتجاج مارچ سے خارج کر دیں۔ یقیناًاس سے ایک امن کا پیغام ملے گا اور سیاسی ماحول میں تازگی کی فضاء قائم ہو گی۔ ساتھ ہی ساتھ دونوں پارٹیوں کے جذباتی کارکنان کسی بھی قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکت سے اجتناب کریں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ امن کی ہر کاوش کا فائدہ صرف پاکستان کو ہی ہو گا۔ میں تحریک انصاف کو آنے والے دنوں کی سیا سی جدوجہد کے لئے اپنی نیک تمنائیں اور خواہشات اس دعا کے ساتھ پیش کرتا ہوں کہ اُن کااحتجاجی مارچ امن کی حدود میں رہے گا تاکہ یہ تاثر زائل کیا جا سکے کہ عمران خان غیر ملکی قوتوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔