منتخب کردہ کالم

تکنیکی گداگری (آشوب آرزو) وقار خان

ہر مُلکے و ہر رسمے …فارسی کے اس محاورے کا مطلب ہے کہ ہر جگہ کا چلن جدا ہوتا ہے ۔ ریاستوں کے اپنے اپنے مزاج اور اپنی اپنی ثقافت ہوتی ہے ۔ الگ الگ رسمیں اور الگ الگ روایات ہوتی ہیں ۔ کچھ ریاستیں فلاحی ہوتی ہیں اور کچھ دفاعی ۔ کہیں جمہوریت موزوں سمجھی جاتی ہے اور کہیں ڈنڈا ۔ کئی معاشرے اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں اور کئی مضبوط تہذیبی بنیادوں پر اُستوار۔ کسی ملک میں نت نئی ایجادات ہوتی ہیں اور کسی میں طرح طرح کی تکنیک ہائے متعارف کرائی جاتی ہیں ۔ ہم موخرالذکرقسم کے ممالک میں شامل ہیں ۔ اللہ کے فضل سے ہم ایک مضبوط دفاعی ریاست رکھنے والی ڈنڈابرداراوراعلیٰ تہذیبی اقدارکی حامل قوم ہیں۔یہاں کوئی نئی چیز تو ایجاد نہیں ہوتی ،البتہ ہر روز زرخیز ذہنوں کی پیداوار کوئی نہ کوئی نئی تکنیک ضرور سامنے آتی ہے ۔ مختلف شعبوں میں اپنی تکنیک ہائے پر پھر کسی دن بات کریں گے ۔ آج صرف گداگری کی تکنیک پر چندگزارشات عرض کرتے ہیں۔
سب سے پہلے آپ کی بھلائی کی خاطر موبائل چوری بذریعہ گداگری کی جدید تکنیک پر بات کریں گے ۔ ہوشیار رہیں ، تیزی سے مقبولیت کی منازل طے کرتا یہ طریقہ واردات آپ کو کسی بھی وقت آپ کے قیمتی سمارٹ فون سے محروم کر سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اس نئی تکنیک کی چند ویڈیو زگردش کر رہی ہیں ۔ تکنیک یہ ہے کہ بھکارن خواتین کا گروہ دندناتا ہوا دفتر یا دکان میں داخل ہوتا ہے ۔ ان کی عقابی نگاہیں فوراً کسی میز پر پڑے موبائل فون کو تلاش کر لیتی ہیں۔ گروہ بے ہنگم شور مچاتا اس میز کی طرف لپکتا ہے ، سرغنہ وہاں بیٹھے صاحب موبائل کے سامنے آ کر اس اسلوب سے بھیک مانگتا ہے کہ میز اس کے جسم کی اوٹ میں سب کی نظرو ں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور گروہ کا کوئی دوسرا رکن پلک جھپکتے ہی فون اٹھا لیتا ہے ۔ ایسی ہی ایک واردات کے ہم چشم دید گواہ ہیں۔ موبائل جادوئی انداز میں غائب ہوا تو بعد میں سی سی ٹی وی کیمرے کی ویڈیو نے بتایا کہ چار رکنی جتھہ دفتر میں داخل ہوا ، میر کارواں نے بھیک مانگنے کے بہانے اپنی چادر اس طرح پھیلائی کہ میز پر پڑا قیمتی سمارٹ فون وہاں موجود لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور ایک دوسری رکن جتھہ نے ہاتھ کی صفائی دکھا دی ۔ یاد رہے کہ بھکارن عورتیں دوران واردات اس زور سے قوالی کرتی ہیں کہ سب کا دھیان ان کی طرف ہوجاتا ہے اور واردات آسان ہو جاتی ہے ۔
گزشتہ سات دہائیوں میں یہاں صرف دو شعبوں نے ترقی کی ہے ۔ایک آبادی کا عفریت اور دوسرا گداگری کی صنعت۔ آپ گھر پر ہوں ، رستے میں ہوں ، گاڑی ،دفتر، دکان یا کسی بھی پبلک مقام پر ہوں ، کہیں بھی بھیک منگوں کی فوج سے محفوظ نہیں ۔ گداگر ہمہ وقت بھڑوں کے چھتے کی طرح آپ کے تعاقب میں ہیں ۔ ہر جگہ عجیب الخلقت بچے ، جوان ، عورتیں اور بوڑھے پھیل کر کاسہ لیسی کے ذریعے آپ کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ ان میں بیماری کا بہانہ بنا کر مانگنے والے ، خود ساختہ معذور ، پوڈری ، چندہ مسجد کے نام پر ٹھگنے والے ، مدرسوں اور یتیم خانوں کی رسید بکس اٹھا کر پھرنے والے اور جیب کٹ جانے کی کہانیاں سنانے والے پیشہ وربھکاری شامل ہیں ۔ مسافر بس میں مسجد کے لیے چندہ مانگنے والا ایک پیشہ ور شاطر استاد سوار ہوا تو ایک مسافر اس سے الجھ پڑا ۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں گزشتہ بیس سال سے یہ دھندہ کرتے دیکھ رہا ہوں ، کیا تمہاری مسجد ابھی تک مکمل نہیں ہوئی؟ اُستاد یہ جواب دے کر آگے بڑھ گیا ” میں ایک مسجد مکمل کرا کے دوسری شروع کرا دیتا ہوں‘‘ چکوال ویگن سٹینڈ پر ایک آدمی راولپنڈی جانے والی گاڑی کے مسافروں کو کٹی جیب دکھاکر پنڈی کا کرایہ مانگ رہاتھا۔ ایک صوبیدار صاحب اکڑ گئے۔ انہوں نے کہا کہ تم ویگن میں بیٹھو میں کرایہ دیتا ہوں ۔ بھکاری اچھل کر سیٹ پر بیٹھ گیا اور صوبیدار صاحب کو کرایہ ادا کرنا پڑا۔ راولپنڈی اڈے پر اترنے کے بعد وہی بھکاری اپنی کٹی جیب دکھا کر چکوال کے لیے کرایہ مانگ رہا تھا ۔
خیرات اب بزورِ بازو اور ٹیکنیکل طریقے سے مانگی جاتی ہے ، جس میں صدا اور دعا حقیقتاً مفقود ہیں ۔ اب عاجزی کی جگہ دھونس اور لجاجت کی جگہ چالبازیوں نے لے لی ہے ۔ چنڈال گداگر جنگی بنیادوں پر یوں بھی مانگتا ہے ، جیسے اُدھار واپس مانگ رہا ہوں ۔ آج کا بھکاری ایسے نفسیاتی حربے استعمال کرتا ہے کہ اگلا زچ ہوکر اس کے دامان طلب میں بھیک ڈالے اور جان چھڑائے ۔ گلی میں صدا کر کے بھیک مانگنے کا رواج متروک ہو چکا۔ اب گداگر آپ کے گھر کی گھنٹی بجاتا ہے ۔ آپ مہمان کی آمد کا سوچ کر دروازہ کھولتے ہیں تو سامنے گداگر بتیسی کی نمائش کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اورتکنیک دروازہ پیٹنے کی ہے ۔ یہ مشٹنڈے مردوزن ڈنڈوں سے دروازہ اس بے ہودگی سے پیٹتے ہیں کہ بھونچال سا آ جاتا ہے اور وہ اس وقت تک یہ حرکت جاری رکھتے ہیں، جب تک آپ ان کی ڈیمانڈ پور ی نہیں کرتے ۔ آپ صاف کپڑے پہن کر کسی تقریب میں جا رہے ہیں تو بھکاری کسی ماہر شکاری کی طرح آپ پر جھپٹیں گے اور آپ کا دامن پکڑ کر اسے دانستہ خراب کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اسی طرح گاڑی اشارے یا پارکنگ میں رکتی ہے تو یہ اسے ڈھو ل کی طرح بجانا شروع کردیتے ہیں ۔ بھکاریوں کی ایک قسم پوڈریوں کی ہے ۔یہ سرِ عام لوگوں کے پائوں سے یوں لپٹتے ہیں کہ بھیک دیتے ہی بنتی ہے ۔ میگا فون یا ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے کسی پبلک مقام پر ایسا شور مچایا جاتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ان بے ہودہ حرکات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ ڈر کر یا تنگ آ کر خیرات دے دیں۔ دوسرے لفظوں میں بھیک بلیک میل کر کے مانگی جاتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ منگتا اب مسکین نہیں ، بد معاش ہے اور گداگری اب مجبوری نہیں مستقل پیشہ ہے ۔ اس کاروبار کے باقاعدہ ٹھیکیدار اور ”انسٹی ٹیوٹ‘‘ ہیں جہاں مغویو ں کو معذور بنایاجاتا ہے ، میک اپ سے جسم پر ” زخم‘‘ بنائے جاتے ہیں ، لنگڑا کر چلنے کی تربیت دی جاتی ہے اور لوگوں سے پیسے نکلوانے کا ہنرسکھایا جاتا ہے ۔
ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے قوم کو اس جرائم پیشہ مافیا کے نرغے سے نکالنے میں کوئی کردار ادا نہیںکرتے ہیں ۔ اگر کبھی پولیس پیشہ ور بھکاریوں کو گرفتار کر بھی لے تو وہ چند ہی دنوں میں اسی طرح آسانی سے باہر آجاتے ہیں …حرفِ آخر کے طو رپر یاد آیا کہ بھلے وقتوں میں عالم لوہار مرحوم چمٹا بجا کر ” اوکھی رمز فقیری والی …‘‘ گایا کرتے تھے ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بھیک مانگنا سولی پر چڑھنے کے مترادف ہے ، در در پرمانگنا پڑتا ہے اور ہر کسی کو مائی بہن کہنا پڑتا ہے …خدا معلوم کشکول بدست افراد اور قوموں کو کیوں ہر کسی کو مائی بہن ، بلکہ مائی باپ کہنا پڑتا ہے ؟