منتخب کردہ کالم

تھڑے ‘سوشل میڈیا اور ہم خیال …. حسنین جمال

تھڑے ‘سوشل میڈیا اور ہم خیال …. حسنین جمال

پرانے زمانے میں دوست یار تھڑوں پہ بیٹھتے تھے۔ ایک تھڑا آباد ہونے میں کئی برس لگتے تھے۔ عموماً یہ جگہیں کسی گلی کے موڑ، کسی محلے کے چوراہے یا کسی مکان کے سامنے موجود چوڑی سیڑھیاں ہوا کرتی تھیں۔ پہلے دو تین دوست روزانہ کی بنیاد پہ وہاں حاضری دینا شروع کرتے، پھر آس پاس کے دو تین ”فرینڈز آف فرینڈز‘‘ اکٹھے ہونا شروع ہوتے، پھر کچھ دس بارہ سال بڑی عمر والے لڑکے بھی اسی گروپ میں شامل ہونا شروع ہو جاتے اور اس طرح وہ تھڑا گپ شپ کی آفیشل جگہ قرار پا جاتا۔ ایک بار تھڑا الیون وجود میں آ جاتی تو پھر کرکٹ میچ اور دوسری تفریحات فرض ہو جاتیں۔ سب دوست یار ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں تک میں دخیل ہوتے، ہر طرح سے فرض کر لیا جاتا کہ ایک ممبر دوسرے کی تمام فلاح و بہبود کا مکمل ذمہ دار ہے۔ چاہے کسی کی ماں نے سبزی منگوانی ہو، کسی کے بھائی کو سکول میں لگنے والی پھینٹی کا بدلہ لینا ہو، کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے، ایک شخص کا مسئلہ سب کا مشترکہ پرابلم ہوا کرتا تھا اور اس کا حل بھی مل کے نکالا جاتا تھا۔ اس تھڑا الیون میں ایک چیز بڑی زبردست ہوتی تھی۔ سب لوگ لائک مائنڈڈ نہیں ہوتے تھے۔ کسی کے سیاسی نظریات جماعت اسلامی والے ہوتے، کوئی جیالوں کے یہاں پیدا ہونے والا بچہ ہوتا، کوئی لیگیوں کا سپوت ہوتا، کوئی طبعاً فوج پسند ہوا کرتا اور سب میں دن رات کھل کر بحثیں ہوا کرتیں۔ ان کا نتیجہ بھلے کچھ بھی نکلتا ہو لیکن ان فرینڈ کرنے کا آپشن اس وقت موجود نہیں ہوتا تھا۔ آپس میں لڑ مر لیں، جھگڑے کر لیں، برا بھلا کہہ لیں مگر سب کو معلوم ہوتا تھا کہ تھڑے پہ آنا ہے تو اکٹھے رہنا ہو گا، ٹولیوں میں بٹنے سے تھڑے کی رونقیں ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ ٹائم ٹیسٹڈ ان کہا نظریہ تھا جسے دل ہی دل میں سب مانتے تھے۔
تھڑے بازوں میں ہر مسلک کے لوگ موجود ہوتے تھے۔ کوئی افغانستان جہاد پہ جانے کا شوقین ہوتا، کوئی کشمیر کا اکیلا وارث ہوتا، کسی کو فلسطینی مسائل جذباتی کر دیتے، کوئی روس پرست ہوتا، کوئی ماؤ نواز کہلاتا، کسی کو امریکی پٹھو کہا جاتا اور بعضوں پہ یہ شک بھی کیا جاتا کہ یہ حکومتی ٹاؤٹ ہیں۔ اس کے باوجود نمازوں کے ٹائم پہ یہ سارے ایک دوسرے کو زبردستی کھینچ کے محلے کی مسجد میں لے جاتے۔ اکٹھے وضو ہوتا اور سب ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاتے۔ سب کے نزدیک یہ ایک نارمل بات ہوا کرتی تھی۔ مذہب کلی طور پہ جوانوں کا ذاتی معاملہ سمجھا جاتا تھا بلکہ اکثر جگہوں پہ تھڑوں کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ عقیدوں پر کوئی سخت بات نہیں کرنی، جو بندہ جیسا ہے، وہ جانے اس کا خدا جانے، سب کو اپنی قبر کا حساب دینا ہے، ایویں کسی کا دل دکھانے سے پرہیز کیا جاتا تھا۔
سائنس نے ترقی کر لی، ہم نے سنا کہ انسان اپنے آس پاس اگر ہم خیال بندے جمع کر لے تو کوئی بھی کام کرنے کے لیے وہ آئیڈیل ماحول میں آ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو آپ کے کام میں کیڑے نکالے اسے اگنور کریں اور آگے بڑھنے پہ توجہ دیں۔ منفی سوچیں مت لائیں، باد مخالف آپ کو مزید اونچا اڑائے گی، رنگ زرد مت ہونے دیں، ہمت کریں اور اڑ جائیں۔ لاشعوری طور پہ ہم اس بات کے عادی ہوتے گئے اور اپنے اپنے کمفرٹ زون میں سکون سے بیٹھ گئے۔ لیکن یہ سب کچھ اتنے آرام سے نہیں ہوا جتنی روانی سے یہاں لکھ دیا گیا ہے۔ ہمیں اختلاف کی دنیا سے ہم خیال دنیا کی طرف گھسیٹنے میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا کا ہے۔ جب تک میڈیا پرنٹ یا ٹی وی ریڈیو کی شکل میں ہوتا تھا تب تک معلومات کا ایک ملغوبہ ہمارے پاس موجود رہتا تھا۔ چاہیں نہ چاہیں ہر وقت ذاتی پسند ناپسند کا خیال کیے بغیر مختلف خبریں سامنے آتی رہتی تھیں، مختلف پروگرام چل رہے ہوتے تھے، مخالف نظریات کے لوگوں کا مباحثہ ہو رہا ہوتا تھا اور انسانی دماغ الگ الگ آرا سن کر کوئی ایک فیصلہ کرنے کی کوشش میں رہتا تھا۔ سوشل میڈیا آنے کے بعد یہ ہوا کہ ایک کرانک یوزر (بہت زیادہ استعمال کرنے والا، پرانا استعمال کرنے والا) نے آہستہ آہستہ ٹی وی اور اخبار کو خدا حافظ کہہ دیا اور سٹیٹمینٹ یہ دی کہ ہمیں سب خبریں یہیں سوشل میڈیا پہ مل جاتی ہیں۔ بڑی خبروں کے لیے یہ بات کسی حد تک صحیح ہے لیکن وہ چھوٹی چھوٹی خبریں اور تبصرے جو رائے سازی کرتے تھے، مخالف نقطہ نظر کو جاننے اور اسے پرکھنے میں مدد دیتے تھے وہ چیز آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک یوزر اگر دس اخباروں کو بھی فالو کرتا ہے تو جن خبروں پہ کلک کرکے وہ انہیں پڑھنا چاہے گا ان خبروں کا ریکارڈ مسلسل کوئی بھی سوشل میڈیا سائٹ اپنے پاس رکھے گی۔ ایک دو مہینے بعد وہی سوشل میڈیا اکائونٹ غیر محسوس طریقے سے اپنے صارف کو وہ خبریں دکھا رہا ہو گا جنہیں وہ پسند کرتا ہے یا جنہیں وہ ہمیشہ کلک کرتا ہے۔ باقی تمام خبریں آہستہ آہستہ پیچھے ہوتی چلی جائیں گے۔
دوستی یاری میں بھی یہی ہوتا ہے۔ کرانک سوشل میڈیا یوزر آہستہ آہستہ ان لوگوں کو اپنی نیوز فیڈ یا وال پر سے ہٹاتا چلا جاتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتا یا جن کی کسی بھی بات سے اختلاف رکھتا ہے۔ دو تین سال کی محنت کے بعد اس کا اکاؤنٹ مکمل طور پہ ہم خیال لوگوں اور پسندیدہ خبروں کا ایک گلدستہ بن جاتا ہے جس میں راوی میلوں تک چین لکھتا ہے۔ نہ کوئی خبر مزاج کے خلاف ہوتی ہے، نہ کوئی بندہ مرضی کے مخالف ہوتا ہے، اور نہ ہی کوئی بات ایسی ہوتی ہے جو خود کو پسند نہ ہو۔ اب چونکہ وہ دنیا پوری لائک مائینڈڈ لوگوں اور حالات و واقعات سے بھری ہوتی ہے اس لیے آدمی ہر وقت اسی ورچوئل ورلڈ میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ باہر کے لوگ، ٹی وی، ریڈیو، اخبار، گھر والے، کسی کی بھی وہ بات جو اپنے مزاج کے خلاف ہو، بری طرح چبھنا شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی مخالفت برداشت کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ بالکل دفن ہو جاتی ہے اور انسان ایسے حالات میں ہیلپ لیس محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے جیسے اصل والی دنیا کی ہر طاقت اس کے خلاف ہے اور پھر واپس وہ مصنوعی دنیا کا رخ کرتا ہے۔ اب وہاں اس طرح ہوتا ہے کہ اپنی بھڑاس نکالنے کو بعض اوقات ساری واردات وال پر کہہ دی جاتی ہے۔
یاد رہے اختلاف کرنے والوں کو آپ پہلے پرے مار چکے ہیں، اب تو جو لوگ موجود ہیں وہ جینوئنلی ہیں ہی وہی جنہوں نے ہر غلط صحیح پہ آپ کی سائیڈ لینی ہے۔ تو پورے غول کے غول آئیں گے، آپ کو دلاسا دیں گے، اچانک ایسا لگے گا جیسے باہر کی دنیا میں سب احمق اور یہاں پہ سب مخلص اور ہمدرد پائے جاتے ہیں اور انسان ایک آدھ گھنٹے میں ریلیکس ہو جائے گا… لیکن یہ ساری پریکٹس کس قدر نقصان دہ بن چکی ہے اس کا اندازہ ابھی ٹھیک سے لگایا ہی نہیں گیا۔ اس ہفتے عالمی ادارہ صحت نے آن لائن گیمنگ کو باقاعدہ ایک بیماری کا درجہ دیا ہے، شرط لگا لیجیے اگلے دو تین برس میں سوشل میڈیا کا روزانہ ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ استعمال بھی دماغی بیماری قرار پائے گا۔ اس کے علاج کے لیے بھی ری ہیبیلیٹیشن سینٹرز بنیں گے اور واویلا اٹھے گا کہ نئی نسل میں اختلافی بات سننے کی عادت ہی نہیں رہی، وہ ڈپریشن میں جانا شروع ہو گئے ہیں اور یہ رجحان خطرناک ہے۔
اس سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ گھر میں نان وائی فائی ویک منایا جائے۔ خود چوبیس گھنٹے موبائل پہ انگلیاں توڑنا بند کریں گے تو بچے بھی کوئی نہ کوئی دوسرا شغل ڈھونڈیں گے۔ اس سے بہتر تو یار تھڑے، ریڈیو، ٹی وی، کیبل اور اخبار ہی تھے، کم از کم ہر مکتبہ فکر کی رپورٹ تو ملتی رہتی تھی، انسان کسی حد فیصلے کرنے میں آزاد تھا۔ اب کیا ہے؟ ہم خیالوں کی ایک مصنوعی دنیا ہے جس سے چوبیس گھنٹے آپ چپکے ہوئے ہیں، بچے، بڑے، دوست، یار، رشتہ دار سب اکٹھے بیٹھتے ہیں لیکن اپنی اپنی جگل بندی میں غرق ہوتے ہیں۔ کوئی نہیں، زیادہ سے زیادہ دو تین سال اور پھر فل سٹاپ!
یا سوشل میڈیا ہم خیالی کا رجحان ترک کرے گا یا انسان سوشل میڈیا چھوڑ دے گا۔ فیصلہ وقت کا ہو گا امپوز عالمی ادارہ صحت کرے گا۔ یار زندہ صحبت باقی!