تہیۂ طوفاں…بابر اعوان
ماضیٔ گم گشتہ کے حکمران خاندان کی ادب نوازی نے دونوں کو تڑپا دیا۔ پہلے جالب اور اب غالب۔ اس مشقِ ستم میں ہتھوڑا گروپ کا شکار بن گئے۔ لیکن ذرا ٹھہریے۔ یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔
تحریر میں آپ بولنے والے کی شکل نہیں دیکھ سکتے‘ لیکن لفظ بولنے والا کریکٹر فوراً پکڑا جاتا ہے۔ اگر ایک دھیلے، ٹیڈی پیسے، ایک روپیہ یا قصیرہ بھی کرپشن کا سامنے آیا تو مجھے چوک میں اُلٹا لٹکا دینا۔ مجھے پھانسی قبول ہے۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے وہ کون تھا جو مائیک سر پر مار کر‘ ٹی وی لوگو گرا کر‘ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر‘ پستہ قامتی کے با وصف اُچھل اُچھل کر کود کود کر کہتا رہا‘ کرپشن کے الزام پر سزائے موت اسے قبول ہے۔لیکن ذرا رُکیے۔ یہ دورِ جمہور ہے‘ جہاں حکمرانیٔ دستور ہے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 14 کے تحت DIGNITY OF MAN کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ بزعمِ خویش۔ حکمران خاندان کا شو باز۔ نوسر باز کے طور پر گرفتار ہوا۔ اربوں روپے کا گڑبڑ گھوٹالا۔ کسی اور نے نہیں شریکِ جرم فواد حسن فواد نے برسرِ بازار اچھالا۔ جی ہاں! وہ کرائون وٹنیس، جو وعدہ معاف ہی نہیں‘ حکمران خاندان کے ناک کا بال رہا ہے۔ جو 5 سال تک پنجاب میں سیاہ سفید کا مالک یا جدید آئی ٹی لغت میں شریفوں کی اے ٹی ایم مشین رہا۔ یہی شخص کارِ خاص مرکزی حکومت مل جانے پر مرکز میں افسر بکارِ خاص بنایا گیا۔
آئیے پہلے سن لیں راوی کے بقول نظامِ کرپشن کا مرکزی مہرہ جونہی پکڑا گیا‘ بِلک بِلک کر رونے لگا۔ اس نے ویڈیو پر بیان ریکارڈ کروایا اور سلطانی گواہ بننے کی درخواست گزار دی۔ احتساب کے تفتیش کاروں نے سلطانی گواہ کے بیان کی 2 سطح پر تصدیق کی۔
پہلے سرکاری ملازموں سے پوچھ گچھ ہوتی رہی‘ جو عجب کرپشن کی غضب کہانی میں کریکٹر ایکٹر کا کردار ادا کرتے رہے‘ اور دوسرے خود کرپشنستان کا بڑا ملزم۔ زبانی بیان، کاغذی ثبوت، واقعاتی شہادتیں، غیر جانبدار افسران کی پیش کردہ سرکاری دستاویزات۔ سب ملا کر وہ مرحلہ آیا جب پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کو ایک بار پھر موقع مل گیا کہ وہ پنجاب کے خزانے کی خدمت کرے۔ بات بڑی سیدھی ہے ۔ خدمت کا یہ دعوے دار راج دربار کی نہیں بلکہ ریاست اور سرکار کی مدد کرے۔ کرپشن کا مال واپس خزانے کو لو ٹا دے ۔ لوٹ کا سارا مال پنجاب کے غریب لوگوں کا ہے ۔ اس لیے یہ کسی اور خزانے میں نہیں برآمدگی کے بعد پنجاب کے خزانے میں جائے گا ۔ اس طرح پنجابیوں کی خدمت کے دعوے دار خادمِ اعلیٰ کو ایک نادر موقع ملے گا ۔ وہ ثابت کر سکے گا خادمِ اعلیٰ ، خادمِ اعلیٰ ہی ہوتا ہے۔ چاہے سی ایم ہائوس ڈکلیئر کیے 8 گھروں میں سے ایک کا باسی ہو‘ یا پسِ دیوارِ زنداں کرپشن کا قیدی ۔ مجھے نام نہیں معلوم‘ نہ ہی اس کے ادارے کا نام ‘ لیکن اس کے ایک سوال نے سوشل میڈیا پر بھونچال برپا کر دیا ۔ لاہور کے اس رپورٹر کو پنجابیوں کا سلام۔ جس نے شہباز شریف کی گرفتاری والی پریس کانفرنس میں لاہور پویس کے سابق باس سے یہ سوال پوچھا۔ انتہائی میٹھے انداز اور دلنشیں آواز میں رپورٹر نے گرفتارِ کرپشن کے بیٹے سے سوال کیا ۔ اسی روز درباریٔ اعلیٰ کو ساتھ بٹھا کر تاریخی احتجاج کے اعلان کے لیے فرزندِ گرفتارِ کرپشن نے یہ کانفرنس بلائی تھی ۔ لیکن لاہور کے ماں جایا اصلی شیر رپورٹر نے اسے ڈھیر کر دیا ۔ رپورٹر نے پوچھا ” لوگ آپ کے تایا ابو نواز شریف والدِ محترم شہباز شریف کو چور چور اور ڈاکو ڈاکو کہہ رہے ہیں آپ دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ابا اور تایا کی قسم کھائیں اور بتا دیں کیا آپ نے چوری نہیں کی…؟‘‘ اس ایک سوال پر پوری پریس کانفرنس منمنا کر رہ گئی ۔ جواب آیا: وہ جو سچے ہوتے ہیں وہ سچے ہی ہوتے ہیں۔
لفظ سچّے اور بچّے میں چونکہ صرف س اور ب کا فرق ہے‘ اس لیے مجھے پنجاب کے بچے یاد آ گئے‘ جن سے خطاب کرتے ہوئے شریف راج کے دوسرے سپیل میں‘ گرفتارِ کرپشن کے بچے نے ٹی وی کیمرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کرپشن کا دفاع یوں کیا: بچو، کرپشن کرپشن ہوتی ہے، جو ہوتی رہتی ہے ۔ کرپشن اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ پھر موصوف نے آلِ شریف کی انتہائی ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات مزید پھیلاتے ہوئے فرما دیا: احتساب کرنے کا حق صرف عوام کو حاصل ہے ۔ یوں اس افلاطون العصر نے ریاست اور اس کے اداروں سے احتساب کا حق چھین لینے کا فرمان جاری کیا ۔ یادش بخیر، اس عرصے میں جدید افلاطون، ایک پروگرام میں بھی نمودار ہوا تھا ۔ اس پروگرام میں جہاں اُس نے نئے دور کا تان سین ہونا ثابت کر دکھایا ۔ وہیں پر اُس نے قانون ، آئین ، پنجاب حکومت کے رولز آف بزنس ، پارلیمنٹ اور ریاستی نظام کے منہ پر زوردار تھپڑ بھی رسید کئے۔ کل کسی نے مجھے اس پروگرام کی ویڈیو کلپ بھجوائی ‘ جس میں گرفتارِ کرپشن کا بیٹا یہ اعلان کرتے دکھائی دے رہا ہے ”یہ جو لاہور کا امن و امان اور ڈویلپمنٹ ہے میں اس کا انچارج ہوں اور اس سلسلے میں جو میٹنگز میں اٹینڈ کرتا ہوں ‘ اُن میں آئی جی پنجاب ، سی پی او لاہور، آر پی او لاہور اور چیف کمشنر لاہور شریک ہوتے ہیں۔
اسی منظر نامے کے دو اور پہلو دیکھ لیجئے ۔ پہلا وہی 20 کروڑ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جو خادمِ اعلیٰ کی پیشی پر انہیں چھڑانے احتساب کمپلیکس پر حملہ آور ہوا۔ اس بارے میں دنیا نیوز کے عمر جاوید کی رپورٹ بڑا کچھ واضح کرتی ہے۔
لاہور سمیت پورے پنجاب میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ۔ شریفوں کے ماتمی دستے 24 گھنٹے مخصوص ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر چھائے رہے۔ ٹوئیٹر اور فیس بک پر اشتہار کا وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ اس سارے تہیۂ طوفاں کے باوجود چند درجن ملازم ، ایک ایم این اے اور ڈیڑھ ایم پی اے باہر نکلے ۔ وہ جو رانا سانگا دو دن پہلے پنجاب میں شہباز شریف حکومت کی بحالی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کا دعوے دار تھا‘ اُس کی فوج بھی کہیں نظر نہ آئی۔ نقدی کے عوض ماتم کرنے والے کہہ رہے ہیں: گرفتارِ کرپشن کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا ۔ یہ تو بتائیں جو مقدمہ نواز شریف نے پتا نہیں کس کی فرمائش پر کالا جوڑا پہن کر سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا اُس میں کیا ثابت ہوا؟
قبلہ شاہ صاحب سکھر آبادی کے نوحے ثابت کرتے ہیں شریفوں کے ساتھ اُن کا غم مشترک ہے ۔ ماتمی دستوں کا بیانیہ یوں ہے ۔ عمران خان لوٹی ہوئی دولت واپس لائے ۔ مگر کوئی لٹیروں پر ہاتھ نہ ڈالے ۔ چیزیں سستی کرے مگر کوئی ٹیکس نہ مانگے ۔ ترقیاتی کام کرے مگر اندرونِ ملک سے بھی امداد نہ مانگے ۔ رول آف لاء قائم کرے مگر قانون توڑنے پر جرمانہ نہ کرے ۔ ہر ڈیپارٹمنٹ میں انصاف یقینی بنائے مگر ایمانداری سے کام کرنے کی تلقین نہ کرے ۔ قبضہ گروپوں سے نجات دلائے مگر ہماری دکانوں سے نا جائز تھڑے نہ توڑے ۔ گڈ گورننس دے مگر سلاں والی کی 2600 کنال اراضی پر اٹھارہ سالہ قبضہ نہ چھڑوائے۔
اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام
ماتمی دستوں کا بیانیہ یوں ہے ۔ عمران خان لوٹی ہوئی دولت واپس لائے ۔ مگر کوئی لٹیروں پر ہاتھ نہ ڈالے ۔ چیزیں سستی کرے مگر کوئی ٹیکس نہ مانگے ۔ ترقیاتی کام کرے مگر اندرونِ ملک سے بھی امداد نہ مانگے ۔ رول آف لاء قائم کرے مگر قانون توڑنے پر جرمانہ نہ کرے ۔ ہر ڈیپارٹمنٹ میں انصاف یقینی بنائے مگر ایمانداری سے کام کرنے کی تلقین نہ کرے ۔ قبضہ گروپوں سے نجات دلائے مگر ہماری دکانوں سے نا جائز تھڑے نہ توڑے ۔